ہوم << مسئلے انائوں کے- سعداللہ شاہ

مسئلے انائوں کے- سعداللہ شاہ

مری خوشی میں بھی میرا ملال بولتا ہے جواب بن کے کبھی تو سوال بولتا ہے کہا تھا اس نے ستارے ہیں میرے گردش میں کہ میرے ہاتھ میں زہرہ جمال بولتا ہے ویسے جس کو بولنا ہو وہ خاموشی میں بولتا ہے بولنے کے کئی انداز ہیں۔ کوئی بتائے کسے کس کے روبرو لائیں، یہ آئینہ بھی تو الٹی مثال بولتا ہے ۔

دل تو چاہتا ہے کہ دل کی بات کریں مگر یہاں کوئی کسی کو نہیں سنتا ایک ہجوم ہے۔شور باہر کا کم نہیں ہوتا،بات اندر کی کیا سنائی دے۔سچی بات ہے کہ بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ ایسی افراتفری پہلے کبھی دیکھی نہ سنی تھی مگر وہ اپنی جگہ حق رکھتے ہیں کہ اس کو بیداری کہہ دیں یا عصر کا شعور مگر سچ کہیں درمیان میں معلق ہے۔ میرے سامنے وہ کلپ آ گیا جہاں گولی سے مرنے والے پولیس اہلکار کے بچے رو رو کر ہلکان ہو رہے تھے اور اپنے پاپا کو بلا رہے تھے ظاہر ہے یہ منظر دہلا دینے والا منظر تھا۔ پولیس والا تو سرکار کے حکم پر اپنا فرض منصبی ادا کرنے گیا تھا جو اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے شہید ہو جائے تو آپ کیا کہیں گے ۔

ایک شخص جان سے گزر گیا پانچ بچے یتیم ہو گئے گھر اجڑ گیا مگر آپ اس پر مزاحیہ انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے خوشی کا اظہار تالیوں سے کیا ۔میں اگرغلط کہہ رہا ہوں تو آپ وہ کلپ دیکھ سکتے ہیں سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔میرے دلائل پر کچھ دوستوں کو خیال آیا تو کچھ ترمیم کے جملے لکھے۔اگر اس معاملے میں قصور ہے تو پولیس کو بھیجنے والوں کا ہے: تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا دونوں اطراف اپنی جانب سے حق بجانب ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ ہم لانگ مارچ کریں گے کوئی روک سکتا ہے تو روک لے، دوسری جانب سے مصمم ارادے کہ وہ اس لانگ مارچ کو روکیں گے مگر اس آویزش میں کچھ کا ناگوار محسوس ہونا مثلاً جسٹس ریٹائرڈناصرہ جاوید اقبال کی گفتگو سن کر بہت ملال ہوا کہ حکمرانوں کو اتنا خیال بھی نہ آیا کہ وہ حضرت علامہ اقبال کی بہو ہیں و۔اقعتاً ان کے اپنے لیڈر خواجہ آصف کے بقول کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے دوسری بات یہ کہ ولید صاحب تو اسلام آباد ہوتے ہیں۔ ایسی جسارت کوئی نئی بھی نہیں۔

آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ اقبال کی چھٹی بھی میاں صاحب کے دور میں ختم ہوئی تھی کہ قوم کے پاس چھٹیاں بہت ہیں۔اسے کام کرنا چاہیے بات درپردہ کوئی اور تھی ۔ ہمارے آقا ہم سے زیادہ اقبال کو سمجھتے ہیں کہ کوئی چنگاری بھی باقی نہ رہے ۔کوئی ایسا فکر اور سوچ جس سے قوم کے بیدار ہونے کا خدشہ ہو ۔صرف چھٹی ہی نہیں نصاب سے ان کے متعلق مواد بھی نکالا گیا ۔ اس عمل کی عمران خاں نے مذمت کی تھی اور اس چھٹی کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا مگر پھر اقتدار ملتے ہی تو کون اور میںکون۔بعض معاملات میں سب ایک ہیں ان میں ایک معاملہ عافیہ صدیقی کا بھی ہے سب اس بے چاری پر سیاست چمکاتے رہے مگر امریکہ بہادر کے سامنے ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔

یہ رہائی کی اور آزادی کی باتیں تو بعد کی ہیں: کس قدر تکلیف دہ تھا آرزوئوں کا سفر سانحہ در سانحہ اور دائرہ در دائرہ کچھ باتیں بڑی مضحکہ خیز ہیں مثلاً کہا جا رہا ہے کہ یہ آزادی معیشت کو بچانے کے لئے ہے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی معیشت!وہ تو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے اور دوسری بات یہ کہ عمران خان کے نزدیک تو اعلامیہ ہی اور ہے وہ تو آزادی کی بات کر رہے ہیں وہ امریکہ کا نام بھی لے چکے کہ ہم مزید غلامی نہیں کر سکتے۔ٹرمپ سے ملاقات تک ان کا موقف خوشگوار تھا کہ وہ دوسرا ورلڈ کپ اٹھا لائے تھے ۔ میں اپنے پاس سے کچھ نہیں کہوں گا میں عمران خان ہی کے الفاظ میں کہوں گا کہ جو انہوں نے ماضی قریب میں کہے تھے جب اپوزیشن والے سڑکوں پر تھے کہ بقول خان صاحب کے یہ ناسمجھ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس طرح ان کے سڑکوں پر آ جانے سے معیشت بیٹھ جائے گی۔

بے چارے دیہاڑی اور مزدوری کرنے والے کدھر جائیں۔ انہوں نے بڑے ہمدردانہ انداز میں اپوزیشن کے خلاف کیس عوام کے سامنے رکھا مگر جب وہ خود نکلے ہیں تو کہتے ہیں میں کسی کی نہیں مانوں گا۔ وقت اپنے آپ کو دہرا رہا ہے ۔صورت حال بالکل وہی ہے جب اپوزیشن کا بیانیہ یکسر یہی تھا اور اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جانا تھا اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہے اور وہی موقع ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھ آ گیا ہے کہ وہ خان صاحب کے موجودہ مارچ کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بتاتے ہیں حالات خاصے سنگین ہیں افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ خدا نہ کرے ٹکرائو ہو اور خانہ جنگی کی صورت پیدا ہو۔

رویے اور انداز یکسر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ایک طرف اشرافیہ ہے اور دوسری طرف مڈل کلاس نچلا طبقہ تو باقاعدہ پس چکا ہے۔ خان صاحب طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور ردعمل بھی یقینی لگ رہا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کب کسی کی برداشت جواب دے جائے۔ حکومت سوچتی ہے کہ کیا انہوں نے الیکشن کروانے کے لئے اتنے پاپڑ بیلے ۔ظاہر ہے حکمران سب کچھ پرانی نہج پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک گھمبیر صورت حال ہے: ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تیری سمت ہمیں موڑ دیا جو بھی ہے مسئلے انائوں کے درپیش ہیں۔ خان صاحب حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتے جبکہ اتحادی حکومت کچھ ڈلیور کرنے کے چکر میں ہے ۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش خان صاحب اپنی کارکردگی بیان کر سکتے۔

Comments

Click here to post a comment