ہوم << کوہ ندا سے صدا -عبداللہ طارق سہیل

کوہ ندا سے صدا -عبداللہ طارق سہیل

خدا کے فضل سے ان دنوں ہم سیاسی سائنس کا ایک انوکھا تجربہ کر رہے ہیں۔ انوکھا ہی نہیں‘ عظیم الشان اور بے نظیر و بے مثال بھی۔ تجربہ ابھی تک کامیابی سے ہمکنار ہے اور پوری طرح کامیاب ہو گیا تو دنیا میں ڈنکے بج جائیں گے اور

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

والا معاملہ ہو جائے گا۔ تجربہ یہ ہے کہ صوبے اور ملک بنا کسی حکومت کے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ دو مہینے ہو گئے پنجاب میں کوئی حکومت نہیں ہے اور پنجاب پھر بھی قائم دوائم ہے اور دو ہی مہینے ہو گئے۔ وفاق میں بھی کوئی حکومت نہیں ہے اور خیر سے وفاق بھی چنگا بھلا ہے۔ کوئی حکومت نہ ہونے کی بات البتہ کچھ وضاحت طلب ہے۔ پنجاب میں مہینہ بھر امر واقعی کے طور پر کوئی حکومت نہیں تھی۔ پھر ایک وزیراعلیٰ کو وزارت اعلیٰ دی گئی لیکن وہ نظری طور پر تو ضرور وزیراعلیٰ ہیں‘ عملی یعنی ڈی فیکٹو حوالے سے کالعدم ہیں۔ اسے انگریزی میں ہم ڈیفیکچوئلی ڈیفیکٹ DEFACTO DEFUNCT حکومت کہہ سکتے ہیں۔ الیکشن کمشن کی طرف سے سابق حکمران جماعت کے منحرف ارکان کی رکنیت ان کے دیئے گئے ووٹوں سمیت ختم کرنے کے فیصلے سے اس کی کالعدمی مزید کالعدم ہو گئی اور اوپر سے کوئی گورنر بھی نہیں ہے۔ ماضی قریب و بعید کی پوری سیاسی دنیا میں اس ’’تجربے‘‘ کی مثال نہیں مل سکتی۔

وفاق میں حکومت ہے اور وزیراعظم بھی لیکن اسے بتا دیا گیا ہے کہ تمہارا اختیار نہیں ہے کہ کوئی تبادلہ کر سکو‘ حتیٰ کہ کوئی انسپکٹر بھی بدل سکو‘ کوئی قانون سازی کر سکو۔ ’’ٹیکنو کریٹ‘‘ کی سہ ماہی مدت والی حکومت کے پاس جتنے اختیارات ہوتے ہیں‘ تمہارے پاس اتنے بھی نہیں ہیں۔اوپر سے کوہ ندا سے ہر روز صدا آتی ہے کہ اسمبلی توڑ‘ استعفیٰ دے اور گھر جا اور یہ وہ صدا ہے جو سارا زمانہ سنتا ہے۔ اب ایسی حکومت کی کون سنے گا جسے ہر روز کوہ ندا سے ایک ہی صدا سننا پڑے۔ دریں اثناء اطلاعات کا بہاؤ ہے جو بہتا ہی آ رہا ہے کہ ایک ہفتے کی بات رہ گئی یا اتنے گھنٹے کی کہانی رہ گئی۔ یقین کیجئے‘ ذرے کو پھاڑ کر توانائی کا طوفان برآمد کرنے کے تجربے سے بڑھ کر ہمارا تجربہ ہے۔

خان صاحب کی امر بالمعروف مہم گزشتہ روز ملتان میں ختم ہو گئی۔ اس مہم کے دوران آپ نے بارہ چودہ شہروں میں جلسے کئے اور جس طرح کہ آپ نے خود فرمایا‘ شہر شہر جا کر انہوں نے لوگوں کو دین سکھایا اور ان کی اخلاقیات کو بلند کیا۔ خان صاحب ہمیشہ فرماتے ہیں کہ اخلاق کو بلند ہی ہونا چاہئے۔ مہم کے خاتمے کے بعد آپ امکانی طور پر خیر و شر کے حتمی معرکے کی تاریخ دینے والے ہیں۔ اس حتمی معرکے کو ہم علاقائی ہر مجدوں (DOMESTIC ARMAGEDDON) کا نام دے سکتے ہیں۔ ملتان کے اس آخری جلسے میں ان کا ’’ہدف خصوصی‘‘ مریم نواز شریف رہیں۔ ان کے اور ان کے خاوند کیپٹن صفدر کے بارے میں والئی امر بالمعروف نے جو کلمات ارشاد فرمائے‘ ایک بار تو سبھی سناٹے میں آ گئے مخالف سیاسی رہنما ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ ارشاد کیا کرتے ہیں لیکن خان صاحب کا طائر خیال تو وہاں جا پہنچا جہاں دیگر جملہ طہور نے پر مارنے کا سوچا بھی نہ ہو گا۔

ادھر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بڑی لے دے ہوئی۔ خیال یقین تھا کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما اسکی وضاحت کرے گا یا اس کے حامی میڈیا پرسنز میں سے کوئی ہلکے پھلکے‘ بے وزن قسم کا اظہار افسوس کرے گا۔لیکن یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ ایسا کسی نے نہیں کیا۔ ایسا کرنا تو درکنار‘ سبھی نے خاں صاحب کو ان کے کلمات عالیہ سمیت حق بجانب قرار دیا اور الٹا یہ سوال پوچھ لیا کہ آخر اس میں غلط کیا تھا۔ خوشی کی بات ہے کہ ابھی سب لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ جہاں سے مراد پی ٹی آئی سمجھ لیجئے۔

پی ٹی آئی کے رہنما عمر سرفراز چیمہ نے جو بضد ہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے برطرف کئے جانے کے باوجود وہ بدستور گورنر پنجاب ہیں‘ اس بات کی توقع ظاہر کی ہے کہ نیوٹرل حضرات اپنی نیوٹریلسی برقرار رکھیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ وزیراعلیٰ ہاؤس پر سے ناجائز قبضے ختم کرائے۔
امر بالمعروف کے قائد عمران خان تو کئی ہفتوں سے نیوٹرل حضرات کے لتے لیتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ تک کہہ دیا کہ مذہب نیوٹرل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ نیوٹرل کو جانور تک کہہ دیا اور اپنی ہی جماعت کے رہنما چیمہ صاحب نیوٹرل حضرات کو نیوٹرالی برقرار رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں یہ تلقین امر بالمعروف کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

لگتا ہے نیوٹرل حضرات کے برتاؤ میں بدلاؤ آ گیا یا پھر نیوٹرل ہونے کی تعریف بدل گئی۔ انصاف اللفات کا نیا ایڈیشن دیکھنا پڑے گا۔انکی بات قبضہ چھڑانے کی تو ایک ذرا صبر‘ فریاد کے دن تھوڑے ہیں (سننے میں تو یہی آ رہا ہے‘ کچھ اور ہو جائے تو الگ بات ہے) خدا اپنی امان میں رکھے‘ خبر ہے کہ شیخ رشید کا جلسے کے دوران بلڈ پریشر کم ہو گیا۔ ہسپتال لے جا کر طبی امداد دی گئی جس سے وہ ازسرنو ’’بلند‘‘ ہو گیا۔

خدا کا شکر ہے‘ معاملہ ان کے خطاب سے پہلے سلجھ گیا۔ بلڈ پریشر کم ہی رہتا تو ان کی تقریر رہ جاتی‘ جلا دو‘ آگ لگا دو‘ مار دو‘ مر جاؤ‘ اڑا کر رکھ دو‘ میم سے جیم اور س سے ش نکلے گی والا رزمیہ سننے سے خلق خدا محروم ہی رہ جاتی۔وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان نے فرمایا‘ ان حالات میں تو اچھا ہے افغانستان چلے جائیں۔ یعنی اپنی حکومت نہ ہو تو اس ملک میں رہنا بھی گوارا نہیں۔ مرحوم غفار خان یاد آ گئے۔ ویسے محمود میاں‘ طالبان کا امر بالمعروف آپ کے امر بالمعروف سے 180 درجے الٹ ہے۔ آپ وہاں گزارا کیسے کریں گے؟ زیادہ مناسب ہے کہ امریکہ کا رخ کیا جائے۔

Comments

Click here to post a comment