سحری میں اٹھتے ہی میمونا کی نظر گھڑی پر پڑی تو دل بے چین سا ہو گیا۔ " بس یہ تو اتنا ہی وقت بچا ہے کہ سحری کی بمشکل تیار ہو گی اور جو رات نوافل میں سو آیات پڑھنے کا ارادہ کیا تھا؟؟ اس نے وضو کر کے دو نفل پڑھے اور گھر والوں کو جگا کر باورچی خانے کا رخ کیا۔
پراٹھے بناتے ہوٸے اس نے کمرے میں جھانکا تو دل میں درد کی اک اور لہر اٹھ کھڑی ہوٸی۔ اس کی ساس اور شوہر نوافل ادا کر رہے تھے۔ اللہ جی میں نے بھی نفل پڑھنے تھے۔ اس نے جیسے اللہ تعالی کے سامنے اپنا دکھڑا رویا۔ خوشگوار پرسکون ماحول میں اس کے ہاتھ کے بنے لزیز پراٹھوں اور آملیٹ سے اس کے سسر، شوہر اور بچے انصاف کرنے کے بعد جلدی جلدی مسواک کرنے اور باجماعت نماز فجر کے لیے مسجد پہنچنے کی فکر میں تھے جبکہ بیمار ساس اپنی پرہیزی سحری کرنے کے بعد اونگھنے لگی تھیں۔ میمونا کے اللہ کے فضل سے چار بچے تھے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ بیٹے گو کہ ابھی سکول کی عمر کے تھے اور کسی پر بھی روزہ فرض نہیں تھا لیکن شوق شوق میں وہ بھی روزے اور تراویح کا اہتمام کر رہے تھے۔ بیٹی ابھی سال بھر کی تھی اور سارا دن اسے بھرپور توجہ کی ضرورت رہتی۔
آٸے دن گھر میں کوٸی نہ کوٸی مہمان بھی ہوتا اور یوں ایک دو افراد کا اضافی کام بھی اس پر آن پڑتا۔ شعبان میں کی گٸی رمضان پلاننگ ڈانواں ڈول ہونے لگتی اور وہ دل ہی دل میں کڑھ کر رہ جاتی۔ اس وقت بھی دستر خوان اور گندے برتن سمیٹتے ہوٸے چند آنسو چپکے سے آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ اسے سب گھر والے، گھر کے کام اپنے اور رمضان کے درمیان ولن لگنے لگے تھے۔ سب تو نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کریں اور گندے برتن سمیٹتی دھوتی رہوں۔ اسے اپنا آپ بہت مظلوم لگا ہوں برتن بعد میں دھل جاٸیں گے۔
وہ کچن کا دروازہ بند کر کے جاٸے نماز پر آ گٸی۔ دل لگا کر نماز پڑھی اور رمضان المبارک کی ڈھیروں برکتیں سمیٹنے کے لیے دعاٸیں مانگتی رہی۔ اففف ابھی قرآن پاک کی تھوڑی سے تلاوت ہی کی تھی کہ چھوٹی بیٹی حلیمہ اٹھ کر رونے لگی۔ اس کو نمٹاتے بہلاتے اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ خود بھی سو گٸی۔جب آنکھ کھلی تو اشراق کے نوافل کا وقت نکل چکا تھا۔ رمضان میں حج و عمرہ کا ثواب ۔۔۔۔ اس نے دکھ سے سوچا دل چاہا ننھی حلیمہ کو ایک تھپڑ ہی لگا دے۔ برے مزاج کے ساتھ وہ گھر کے کام نمٹانے لگی کہ ساس امی اسے آوازیں دینے لگیں۔
"میمونا میمونا بیٹی میری ٹانگوں میں بہت درد ہے ذرا مالش تو کر دو۔" وہ کام چھوڑ کر ان کے پاس چلی آٸی۔ ٹانگوں کے درد سے بے چین ساس کو دیکھ کر اس کا ہمدرد دل دکھ سا گیا۔ جلدی سے زیتون کا تیل نکال کر وہ ان کی ٹانگوں پر مالش کرنے لگی۔"میمونا مجھے تم پر بہت رشک آتا ہے۔ میں سوچتی ہوں رمضان کی ساری رحمتیں برکتیں تو اللہ کے فضل سے تم ہی سمیٹ رہی ہو۔" اس کی ساس نے دل سے کہا۔"ہمم میں۔" اس نے طنزیہ سا سوچا مگر بولی کچھ نہیں۔ میں دیکھ رہی ہوتی ہوں صبح اٹھ کر کیسے اچھے سے تم نفل ادا کرتی ہو۔ صرف دس آیات کی تلاوت کے ساتھ۔۔۔اس کا دل جل کر رہ گیا۔
پھر کتنی مزے دار سحری بناتی ہو۔ میرے لیے تو سب سے الگ پرہیزی کچھ نہ کچھ سحری کھانا باعث ثواب اور برکت ہے تو سوچتی ہوںتم جو یقیناً استغفار کے ورد کے ساتھ ساتھ سحری تیار کر کے گھر کے ہر فرد کو محبت پیار سے جگا کر کھلاتی پلاتی ہو کیسا اجر ثواب اکھٹا کر لیتی ہو۔ اب کے میمونا کی آنکھیں ذرا حیرت سے کھلیں۔ سحری پکانے پر ثواب۔پھر تم نے قرآن کی تلاوت کا ثواب بھی پا لیا اور حلیمہ کو دودھ پلانے کے ہر گھونٹ پر اجر بھی کما لیا۔ یعنی حلیمہ کو دودھ پلانا بھی عبادت ہو گٸی۔ اور رمضان میں تو ہر عبادت کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ صبح جو حلیمہ کو مارنے کی خواہش تھی وہ اسے پیار کرنے میں بدل گٸی۔
پھر گھر کے باقی کام کاج کبھی حفظ کردہ سورتوں کی تلاوت کرتے ہوٸے، کبھی سنتے ہوٸے ہاں یہ تو ہے اس نے سوچا کام کرتے ہوٸے کبھی یا تو وہ خود آہستہ آواز میں تلاوت کرنے لگتی کبھی اپنے فون پر لگا کر سنتی۔ پھر اکیلے افطاری بنانا۔ میں سمجھتی ہوں یہ جان جوکھوں کا کام ہے پر ہم سب کو روزہ افطار کروا کر اپنے روزے کے ساتھ ساتھ بونس روزوں کا ثواب بھی تمہیں مل جاتا ہے۔ اس کی ساس ہلکے سے ہنسیں۔ مالش سےان کی دکھتی ٹانگیں قرار پانے لگی تھیں۔ تم پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہو، روزے رکھتی ہو میرے بچے کی خدمت گزار ہو میری دعا بھی ہے کہ تم جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس میں سے جنت میں داخل ہو نا چاہو اللہ رب العزت تمہیں اس دروازے سے داخل فرماٸیں۔
آمین آمین آمین اس کا دل کتنی ہی بار آمین کہہ گیا تھا۔ مالش سے درد کو قرار آ گیا ہے۔ اس نے انہیں کمبل اوڑھایا۔ میرے درد کو بھی۔ وہ کھل کر مسکراٸی اور خوشی خوشی گھر کا بقیہ کام سمیٹنے لگی۔ رمضان میرا بھی تو ہے کا شکوہ رمضان میرا ہی تو ہے کی خوشی میں بدل چکا تھا۔
تبصرہ لکھیے