ہوم << فیس بک اب آزاد نہیں رہا - کاشف نصیر

فیس بک اب آزاد نہیں رہا - کاشف نصیر

مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالیہ کشیدہ حالات پر اہل کشمیر اور پاکستانیوں کا ردعمل ہمیشہ کی طرح فطری تھا اور اس فطری جذبے کی عکاسی سوشل میڈیا پر بھی بھرپور انداز میں نظر آئی۔ لیکن کچھ دنوں سے فیس بک پر ان جذبات کو سینسر کرنے کوشش ہو رہی ہے۔ ابتدا میں عام فیس بک صارفین شکایت کر رہے تھے، پھر مختلف پیج ایڈمنز نے بھی یہی گلہ کیا اور اب سینئر صحافی اور مشہور شخصیات بھی اس پابندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ نہ صرف حریت پسند مقتول کمانڈر برہان وانی کی تصاویر بلکہ کشمیر میڈیا سروس کی کئی خبروں اور حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کی تازہ پریس کانفرنس کو بھی فیس بک سے ہٹادیا گیا ہے۔
برطانوی اخبار گارجین نے اس معاملے پر فیس بک انتظامیہ کا ایک بیان شائع کیا ہے۔ بیان میں ادارے کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر دہشت گردوں کی حمایت اور تحسین پر کسی مبنی مواد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق اس حیران کن اور سمجھ سے بالاتر بیان کے پس پردہ دراصل فیس بک ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ہندوستانی ملازمین کی سرتوڑ کوششیں ہیں۔ یہ ملازمین جہاں ایک طرف لابنگ کرکے اپنے ادارے سے برہان وانی کو دہشت گرد قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں وہیں متعلقہ پوسٹوں کو فیس بک سے ہٹانے کے معاملے میں بھی وہی مسلسل پھرتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسی غیرملکی ادارے میں اپنی پیشہ ورانہ حیثیت کو اپنے "ریاستی بیانیے" کی ترویج کے لیے استعمال کرنا ہرگز کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب آپ کا ریاستی بیانیہ انتہائی متنازع اور حق خودارادیت کے بنیادی انسانی حق کے سراسر منافی ہو۔ ہندوستانی آئی ٹی ایکسپرٹس فیس بک جیسے ادارے بیٹھ کر جس طرح آزادی اظہار رائے کے مسلمہ تصور کو پامال کررہے ہیں اور یہ ادارہ خود جس طرح اپنے ان ملازمین کی ہاں میں ہاں ملارہا ہے، وہ سوشل میڈیا پر آزادی فکر کے ضمن میں یقینا ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے۔
دوسری طرف یوں لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر سے متعلق "ریاستی بیانیے" کا دفاع کرنے اور اس معاملے میں مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹس کو جانبدارانہ کردار سے باز رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ چلیں سول حکمران نہ سہی، سوشل میڈیا پر انہیں ڈس کریڈٹ کرنے کی مہم میں شب و روز مصروف عمل "وقار سوشل میڈیا سروس" اور پاکستانی سوشل میڈیا کے خودساختہ ٹھیکےدار "بولو بھی" ایسے ادارے ہی کچھ بول دیتے۔