عامر خاکوانی صاحب کی رفاقت میرے لیے اللہ کے خاص انعامات میں سے ہے. میری مشکلات کی ان تمام گھڑیوں میں وہ میرے ساتھ آخری لمحے تک کھڑے رہے جب میرے بعض سگے بھی دغا دے چکے تھے۔ سو آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ میرے دل میں ان کا مقام کتنا بلند ہے۔ آج اپنے اس شاندار دوست کو تھوڑا چھیڑنے کو جی کررہا ہے اور یقین مانیے صوفی اول ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی پھونک کا ڈر بھی دامن گیر ہے۔
محمد عامر ہاشم خاکوانی بڑے ہی درویش آدمی ہیں۔ صحافت کے صوفیائے کرام میں سے ہیں، لیکن صوفیوں کی سیاست سے کنارہ کش قسم سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ فتح اللہ گولن اور طاہر القادری جیسے ان صوفیاء میں سے ہیں جو سیاست کے راستے سماج کو مرتعش رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے دلچسپ ان کی فکری پوزیشن ہے۔ جدید سیاسی فکر ہمیشہ سے لیفٹ اور رائٹ کی بنیاد پر منقسم چلی آئی ہے، لیکن ہمارے اس درویش نے اپنے لیے ایک تیسرا مقام چنا ہے۔ لیفٹ رائٹ سینٹرک۔ عشق کے ساتویں مقام سے ملتے جلتے اس مقام سے مراد یہ ہے کہ میں نہ رائٹ کے ساتھ ہوں اور نہ ہی لیفٹ کے ساتھ بلکہ بیچوں بیچ یعنی ”ایمپائر“ والے مقام پر کھڑا ہوں۔ اس مقام کا ایک زبردست فائدہ تو یہی دیکھ لیجیے کہ وہ سوشل میڈیا پر آتے ہی چھا جانے والی رائٹ ونگ کی نمایندہ ویب سائٹ ”دلیل“ کے روح رواں بھی ہیں اور لیفٹ کی تحریکِ انصاف کے پرزور حامی بھی۔ شائد ایمپائر والی اس پوزیشن کا ہی اثر تھا کہ جب بھی دھرنے والے دنوں میں عمران خان کہتے ”ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے“ تو خاکوانی بھائی اپنی انگلی کی دَم کیے زیتون سے مالش شروع کر دیتے۔ میں تو فکری مباحث میں ان کی اسی زیتونی انگلی کے خوف سے کسی ٹیم میں شامل نہیں ہوتا کہ کیا خبر وہ اسے کس کے حق میں اٹھا دیں۔
ترکی کے حوالے سے ہمارا یہ درویش بڑی دلچسپ پوزیشن پر کھڑا ہے۔ جب طیب اردگان اور سیکولر مقابل ہوں تو وہ اردگان کی خوبیاں گنوانی شروع کردیتے ہیں اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کو اردگان کی حمایت کرنی چاہیے۔ اور اگر معاملہ اردگان اور گولن کا ہو تو پھر ان کے اندر کا صوفی سامنے آجاتا ہے۔ ایسے موقع پر وہ اردگان کی خامیوں والی فہرست مرتب کرکے عالم اسلام کو اردگان کی حمایت پر نظرِ ثانی کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔ ایسے نازک مواقع پر وہ اردگان کی خامیوں میں نواز شریف سے ان کی اس رفاقت کو نہیں شامل کرتے جو اس درجے کی ہے کہ اردگان میاں صاحب کو بیٹی کے نکاح کا گواہ بنالیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ خاکوانی بھائی کی شفقت ہے ورنہ صوفیائے سیاست کے ہاں اس قسم کے جرائم ناقابلِ معافی ہیں، یقین نہ آئے تو طاہر القادری یا فتح اللہ گولن سے پوچھ سنیے۔ طیب اردگان باغیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہے ہیں اور شومئی قسمت کہ بغاوت کے تانے بانے صوفی زماں فتح اللہ گولن سے جاکر ملتے ہیں سو آنے والے ایام میں ہمارا یہ درویش بھائی سیاسی تصوف کو ہی بروئے کار لائے گا اور ہم جیسے ان کے عاشق ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والے امتحان سے گزریں گے۔
« لیفٹ کی تحریکِ انصاف»
یہ کونسی پارٹی ہے حضور؟
ترینوں، علیموں اور قریشیوں وغیرہ جیسے سٹیٹس کو کے پرانے خوشہ چینوں
سے ہٹ کے کوئی نئی سوشلسٹ پارٹی وجود میں آئی ہے کیا؟
تحریک انصاف لیفٹ کی پارٹی نہیں ہے حضور، آپ کو یقینأ غلط فہمی ہوئی ہے، یہ رائیٹ یا سنٹر آ ف دی رائٹ کی پارٹی ہے۔۔۔