ہوم << ترکی میں اصل بغاوت - انعام رانا

ترکی میں اصل بغاوت - انعام رانا

بیوی کا میسج آیا کہ استنبول میں دھماکہ ہوا ہے اور میرا دل ڈوب گیا۔
میری بیگم آکسفورڈ میں پی ایچ ڈی کررہی ہے اور میں لندن میں وکالت۔ سو ہم ایک دوسرے کو اپوائنٹمنٹ سسٹم پہ ملتے ہیں۔ امسال فروری کے آخر میں ترکی کی بکنگ ہم نے دسمبر 2015ء میں کی تھی اور اگلے کئی مہینوں تک یہ واحد اکٹھے تین دن تھے جب ہم دونوں ہی فارغ تھے۔ سو جب سفر سے تین دن قبل استنبول لرزا تو میرا دل بھی لرز گیا، اور یقیناً اس میں امت کا درد نامی کوئی وجہ نہیں تھی۔
طے یہ پایا کہ اگر اگلے دو دن کوئی دھماکہ نہ ہوا تو ہم تیسرے دن ضرور جائیں گے۔ شکر ہے میرے مجاہد بھائیوں نے میری مجبوری اور بٹوے کا خیال رکھا اور تیسرے دن ہم اتاترک ائرپورٹ پہ اترے۔ سفر میرے نزدیک صرف جگہیں دیکھنے یا کھانے کھانے کا ہی نہیں، بلکہ مقامیوں کو قریب سے جاننے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ مسجد، ہوٹل، ٹرین، بس اور میخانے؛ ہر جگہ آپ کو وہ لوگ ملتے ہیں جو آپ کو اپنے ملک کی اصل شکل دکھاتے ہیں۔ میک اپ سے پاک حسن یا وہ چیچک کے داغ جو ٹورسٹ مقام پر اٹریکشنز پیدا کرکے چھپائے گئے ہوتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ سب سے بہتر اس معاملے میں ٹیکسی ڈرائیور ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کو بولنے کا شوق ہوتا ہے اور دوسرا طرح طرح کے لوگوں کی سن کر حالات جانچنے کا ایک مخصوص ذوق بھی۔ ترکی جتنے دن رہا یہ سب ہنر آزماکر مجھے ایک بات تو ضرور سمجھ آئی کہ میک اپ کے نیچے بدصورتی نا سہی، داغ ضرور ہیں۔
ترک قوم زیادہ کھلنے والی قوم نہیں (اگر محبوب ہو تو بات دوسری ہے)۔ مگر پاکستان سنتے ہی ذرا اعصاب ڈھیلے ضرور کر لیتے ہیں۔ میں نے اپنے بے ڈھنگے سوالات کے جوابات سے اخذ کیا کہ اردوان مقبولیت کھو رہے ہیں۔ عوام کو یہ لگتا ہے کہ اس کی شام کے لیے پالیسی ترکی کو خطرے میں لے آئی ہے۔ ویسے تو علامہ اقبال نیل سے تابخاک کاشغر ہمیں ایک ہی لڑی میں پرو گئے تھے، مگر استنبول میں ترکوں کو شامیوں کے لیے امت والا تصور کچھ خاص پسند نہیں آرہا تھا۔ اردوان کی ڈکٹیٹرشپ کا شکوہ بھی عام ملا۔ کرپشن کے الزامات اپنی جگہ موجود تھے جو شاید ہر سیاسی لیڈر کا (ہمارے مقدر والے سیاسی لیڈر) مقدر ہوتے ہیں۔ شہروں میں اردوان کی حمایت دہقانیوں کی نسبت یقیناً کم تھی۔ میرا ہوٹل مینیجر ایک دن کسی ترنگ میں تھا اور ایک عجیب جملہ بولا؛ ”ترک گولن(فتح اللہ) اور اردوان کی شخصی لڑائی میں پس رہے ہیں۔“
جب جمعہ کی رات ایک دعوت کے دوران ترکی میں ”فوجی بغاوت“ کی خبر ملی تو دل کو دھچکا سا لگا۔ سب کی طرح ہم نے بھی سٹیٹس داغا مگر پھر میں خاموش ہو گیا۔ انقلاب سے زیادہ اس کا کاؤنٹر انقلاب یا رد انقلاب اہم ہوتا ہے۔ میں پچھلے چار دن سے خاموش رہ کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ رد انقلاب کیا کررہا ہے۔ میرے کچھ نکات ہیں جو شاید آپ کو پسند نہ آئیں؛
۱- بغاوت یقیناً فوجی بغاوت تھی، ڈرامہ نہ تھا۔
۲- یہ بغاوت کسی انتہائی نا تجربہ کار اور نا اہل شخص کی ترتیب دی ہوئی تھی جس میں بغاوت کی مستقل تو کیا وقتی قیادت کی بھی اہلیت نہ تھی۔
۳- ترک عوام، خواہ اسلامسٹ یا سیکیولر، نے ایک ہو کر اس بغاوت کا سامنا کیا اور یہ زیادہ دیر نہ چل سکی اور ویسے بھی انتہائی بری منصوبہ بندی اور پوائنٹ چار کی موجودگی میں یہ زیادہ دیر نہ چلتی۔
4- اردوان حکومت اس بغاوت منصوبہ سے آگاہ تھی اور اسے ناکام کرنے اور بعد از فتح کی منصوبہ بندی حکومت کے پاس موجود تھی۔
میں جانتا ہوں کہ نکتہ چار اکثر کو پسند نہیں آیا ہوگا۔ مگر حالات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بغاوت پہ ابتدائی گھنٹوں میں، جب باغی فوج کو اپنی پلاننگ اور جذبے کے معراج پہ ہونا چاہیے تھا، جس طرح قابو کرلیا گیا، یہ اچنبھا پیدا کرتا ہے۔ اردوان کی کال کے ایک ہی گھنٹے میں جیسے عوام سڑکوں پہ تھی، یہ مزید حیرتناک ہے۔ اردوان کی گرتی مقبولیت، فوج کا فطری رعب داب عوام کو یوں اچانک ہی اتنا منظم باہر نہیں نکلنے دیتا۔ ہاں، پہلے سے پلاننگ موجود ہو تو اور بات۔ اردوان نے جس طرح استنبول آمد فرمائی جب بقول ان کے فضا میں باغی طیارے موجود تھے، مجھے تو جیمز بانڈ ہی لگے۔ ویسے ہیں بھی جیمز بانڈ جیسے پیارے سے، سو شاید باغی طیاروں نے احترام کیا ہو۔ بغاوت پہ قابو پاتے ہی جو اقدامات اٹھائے گئے، وہ بھی یہی اشارہ کرتے ہیں کہ بغاوت کا منصوبہ حکومت کے علم میں تھا اور اس نے اسے استعمال کیا۔
میرے لیے سب سے اہم بغاوت کے بعد اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔ پچیس سو سے زائد جج رات بھر میں ہی فارغ ہوگئے، کیا کوئی پروسیجرز اپنانا ضروری نہ تھا؟ فوری طور پر گولن تحریک اور ان کے حمایتیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اس تمام صورتحال میں انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ یہ سب ثابت کر رہا ہے کہ اردوان نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک معاشرہ انتہائی تقسیم کا شکار تھا سیکیولر اور اسلامسٹوں کے درمیان۔ افسوس کہ اردوان کے اقدامات نے اسلام پسندوں میں بھی ایسی تقسیم پیدا کر دی ہے جو ان کو کمزور کرتی جائے گی۔
گو پیشینگوئیاں کرنا لکھاری نہیں نجومیوں کا کام ہے۔ مگر لکھاری حالات کے تجزیئے کے تحت بعض اوقات ممکنہ صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اردوان کے اقدامات گولن تحریک کو بہت کمزور کردیں گے۔ اردوان کے عشق میں گرفتار پاکستانی بھول جاتے ہیں کہ گولن تحریک ایک اسلامسٹ تحریک ہے اور اردوان کی بیساکھی رہی ہے۔ گولن تحریک کی تباہی یا کمزوری دراصل ترک معاشرے میں اسلامسٹ تحریک کو شدید کمزور کرے گی۔ اردوان کے ایسے ہی اقدامات سے سیکیولر طبقہ پہلے ہی اس سے ناراض ہے۔ افسوس اردوان خود کو مضبوط کرتے کرتے اتنا کمزور ہوجائیں گے کہ اگلی بار شاید بغاوت ناکام نہ ہو۔ اگلے چھ سے بارہ ماہ اہم ہیں۔ اصل بغاوت تو ابھی ہونا ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • اردوان کو اللہ خوش رکھے ۔ ہمارے معصوم پاکستانیوں کی اکثریت کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں اس سے ۔ مجھے تو ننانوےوالا مشرف کا مارشل لا لگانے والا واقعہ یاد آگیا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشرف ڈکٹیٹر تھا اور اردوان جمہوری ڈکٹیٹر ۔