ہوم << اردوان کو خطرہ صرف اردوان سے ہے - آصف محمود

اردوان کو خطرہ صرف اردوان سے ہے - آصف محمود

asif mehmoodطیب اردوان بلاشبہ اپنی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مقبول ترین رہنماءوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی ان کے ویسے ہی مقروض ہیں کہ جب ہماری اپنی حکومت خاموش رہی، اس وقت طیب اردوان نے بنگلہ دیش سے سفیر واپس بلا لیا تھا۔ ان کی مقبولیت کے بارے میں بھی ہماری آراء غلط ثابت ہوئیں۔ خیال تھا کہ اپنی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ خاصے غیر مقبول ہو چکے ہوں گے اور ان کے حق میں ترکی میں کوئی خاص آواز نہیں اٹھے گی لیکن ہم نے دیکھا کہ انہوں نے کال دی اور عوام نے ٹینکوں کا رخ موڑ دیا ۔ کوئی اور مانے نہ مانے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان کی مقبولیت کے بارے میں میری رائے غلط ثابت ہوئی۔ نہتے عوام نے تاریخ رقم کر کے ثابت کر دیا کہ اردوان آج بھی ایک مقبول اور محبوب رہنما ہیں۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردوان جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ ان کا مزاج اور ان کی افتاد طبع ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ عقیدت کی بجائے دیانت سے معاملہ کیا جائے تو اردوان کے طرز حکومت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کا عالی شان محل جو ایک ہزار کمروں پر مشتمل ہے اور وائٹ ہائوس سے کئی گنا بڑا ہے، نہ ایک مبینہ مرد مومن کو زیبا ہے نہ ہی کسی جمہوری رہنما کو ۔ کرپشن کے الزامات بھی ان پر لگے اور ان کے قریبی ترین عزیز رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ فتح اللہ گولن کے ساتھ بھی ان کا رویہ مبنی بر انصاف نہیں رہا ۔ اخبارات اور اہل صحافت بھی ان کا نشانہ بنتے رہے اور اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ان کے مزاج میں اگر تھوڑی برداشت ہوتی تو شاید موجودہ بحران کھڑا ہی نہ ہوتا۔
اب اس بحران کے بعد بھی طیب اردوان انصاف کے بجائے انتقام کی جانب مائل نظر آتے ہیں ۔ بغیر تحقیقات کے انھوں نے کھڑے کھڑے فتح اللہ گولن کو ملزم قرار دے دیا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے سے زیادہ یہ چاہتے ہیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی مخالفین کا صفایا کر دیا جائے۔ چنانچہ بغاوت فوج نے کی اور صاحب نے چن چن کر ایسے گستاخ ججز برطرف کر دیے جن سے معاندانہ فیصلوں کی تکلیف تھی یا امکان ہی تھا۔ ججز کا فوجی بغاوت سے کیا تعلق؟ لیکن طیب اردوان کو موقع ملا اور انہوں نے سوچا کہ سب مخالفین کو لپیٹ لیا جائے ۔ یہ رویہ آمرانہ ہے اور یہی رویہ ترکی کو بحران سے دوچار کرے گا۔ بغیر تحقیق کے کھڑے کھڑے اڑھائی ہزار جج فارغ کر دینا کہاں کا انصاف اور کہاں کی جمہوریت ہے؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ فتح اللہ گولن سے اردوان کے اختلافات کب شروع ہوئے؟ اس وقت جب انہوں نے اردوان کی کرپشن اور آمرانہ پالیسیوں پر تنقید کی۔ طیب اردوان اسے برداشت نہ کر سکے۔ آنے والے دنوں میں وہ زیادہ آمرانہ انداز سے مخالفین کو کچلیں گے اور ترکی کے سماج میں فکری خلیج گہری ہوتی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ترکی کو کیا فائدہ ہوگا؟
اردوان اپنی مقبولیت کو بروئے کار لا کر چاہیں تو ترکی کو مزید آگے لے جا سکتے ہیں اور چاہیں تو اب تک کی ساری کامیابیاں صرف شخصی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ انہوں نے ہی پہلے ترکی کو بنایا، اب ڈر یہ ہے کہ انہی کی پالیسیاں اس سارے عمل کو غارت نہ کر دیں۔ فوجی بغاوت تو ناکام ہو گئی ۔اردوان کو اب صرف اردوان سے خطرہ ہے ۔ اللہ اردوان کو اردوان سے محفوظ رکھے. آمین

Comments

Click here to post a comment

  • اردوغان انسان ہیں اور ان سے بحیثیت انسان یقیناً غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتی ہیں، لیکن اسکا تجزیہ معاندانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندان ہونا چاہیے، فتح اللہ گولان کے بارے میں یا تو آپ تجاھلِ عارفانہ کا شکار ہیں یا پھر عدمِ واقفیت کا۔