ہوم << اعمال نامہ ، دنیا سے آخرت تک - رانا اقبال

اعمال نامہ ، دنیا سے آخرت تک - رانا اقبال

احمد دفتر میں داخل ہوا تو سامنے بیٹھے مینیجر کی طرف متلاشی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے وہ کچھ امید باندھے ہوئے ہو۔ احمد اور اس کا مینجر ایک ہی آفس میں بیٹھتے تھے اور روز مرہ کام کے ساتھ ایک بات کا ذکر معمول بن گیا تھا اور وہ تھی تنخواہ. تنخواہ کا ذکر کچھ روز سے پھر زوروں پر تھا. چونکہ احمد کا کمپنی کی ساتھ دوسالہ کنٹریکٹ پورا ہونے کے قریب تھا، اس لیے اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس مرتبہ تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو وہ کسی اور کمپنی میں کام کرے گا.
خلاف معمول مینیجر نے ہی اس بات کا تذکرہ کیا اور احمد کو بتایا کہ اُس کی تنخواہ میں اضافہ کےلیے تشخیصی کارکردگی کا پرچہ انتظامیہ کی طرف سے مرتب کیا گیا ہے جس میں اس کی مکمل عادات و صفات سے لے کر کام میں دلچسپی اور پیداوار، تجربہ، سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت، دوسروں کے ساتھ رویہ، فیصلہ کرنے کی قوت اور عمل درآمد، دکھاوی شخصیت، نت نئے راستے سوچنا اور اختیار کرنا اور تعلیم پر مشتمل ہے۔
مینیجر احمد کو وہ فارم دکھاتے ہوئے بتا رہا تھا کہ پچھلے دو سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فارم مرتب کیا گیا ہے اور اسی فارم کی بنیاد پر اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا. احمد نے اپنی دو سالہ کارکردگی کا پرچہ پڑھنا شروع کیا اور تمام نکات کا بغور جائزہ لیا. واپسی پر تمام راستہ ہی وہ اپنے کارناموں کے پرچے کے بارے میں سوچتا رہا اور اسی فکر میں غلطاں اپنے راستے پر رواں دواں تھا کہ ٹریفک حادثہ پیش آ گیا۔ تب اس کا ماتھا ٹھنکا کہ اب اسے زندگی کے تمام کارناموں کا کتابچہ دیا جائے گا۔ تمام تر گزری زندگی کی فلم اُس کی آنکھوں میں چل رہی تھی کہ اُدھر ریڈیو پر سورہ الکہف کی آیات کی تلاوت اسے مزید پشیمان کر رہی تھیں۔
ترجمہ۔
اور جب اعمال کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی تو تم گناہ گاروں کو دیکھو گے جو کچھ اس میں لکھا ہو گا اس سے ڈر رہیں گے اور کہیں گے، ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو، کوئی بات بھی نہیں مگر اسے لکھ رکھا ہے اور جو عمل کیے ہوں گے سب کو حاظر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ سورت الکھف۔
ہائے کاش کہ مجھے کچھ مہلت مل گئی ہوتی، میں کیونکر اپنے پروردگار کے احکامات کو بھول گیا تھا. سب جانتے ہوئے بھی میں امتحان کی تیاری نہ کر سکا. احمد انھی سوچوں میں کراہ رہا تھا کہ ہسپتال کے ایک کمرہ میں اس کی آنکھ کھلی. موت کی ایک جھلک نے اُسے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھ گیا تھا. وہ اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار تھا اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ وہ اپنے رب کے احکامات بجا لائے گا۔ وہ اپنے رب کی لگائی ہوئی ڈیوٹی پوری کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گا.

Comments

Click here to post a comment