ہوم << ڈونلڈ ٹرمپ کیوں کامیاب ہوئے؟ محمد عامر خاکوانی

ڈونلڈ ٹرمپ کیوں کامیاب ہوئے؟ محمد عامر خاکوانی

ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن کامیابی سے دنیا بھر میں حیرت کی لہر دوڑ گئی ہے، خود امریکہ میں لاکھوں لوگ ابھی تک شاک کی سی کیفیت میں ہیں۔ جس دوست سے وہاں بات ہو، وہ یہی بتاتا ہے کہ ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ٹرمپ کے امریکہ میں رہنا پڑے گا، مگر اب ایسا ہوگیا ہے۔ امریکہ ہی نہیں، اب دنیا بھر کو ٹرمپ سے واسطہ پڑے گا، کس پر کیا گزرتی ہے، یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مختلف تبصروں اور جائزوں میں ان ممالک کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے، جن کے حوالے سے امریکی پالیسی زیادہ سخت ہونے کا امکان ہے، پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ اس بحث کو سردست ہم الگ رکھتے ہیں کہ اس کے لیے مستقبل میں شاید بہت مواقع ملیں۔ اس وقت تو اہم ترین سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ حیران کن کامیابی کیسے ممکن بنائی؟ اس کے ساتھ ضمنی سوال یہی ہے کہ اس کامیابی سے ہمارے ہاں کیا سیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے میڈیا کا ایک حصہ بڑے زور شور سے پاکستانی سیاست کے ایک اہم ترین کھلاڑی کو ہدف بناتے ہوئے اسے پاکستانی ٹرمپ قرار دے رہا تھا۔ یہ حلقہ تو شاید اس لیے ایسا کر رہا تھا کہ اس وقت تک ٹرمپ کی امریکہ میں شکست یقینی سمجھی جا رہی تھی اور مسٹر ٹرمپ بےوقوفی، اجڈ پن اور بدتمیزی کا ایک آئیکون بن چکے تھے، پاکستانی سیاسی لیڈر کو ٹرمپ قرار دے کر انہیں ویسا ہی ایک آئیکون بنانا مقصود تھا۔ اب معلوم نہیں کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھی وہ حلقے ٹرمپ کا طعنہ دیتے ہیں یا اب کوئی نئی حکمت عملی تشکیل دی جائے گی۔ ٹرمپ کی کامیابی میں چند فیکٹرز ایسے ہیںِ جن سے ہمارے ہاں بھی کوئی اگر چاہے تو سیکھ سکتا ہے، ضروری نہیں کہ صرف وہی ایسا کرے جسے ٹرمپ ہونے کا طعنہ ملا بلکہ جن کی پارٹیاں دھوپ میں رکھی برف کی طرح تحلیل ہورہی ہیں، وہ بھی نئے سرے سے دال دلیہ کر سکتے ہیں۔
میڈیا کی اپنی حدود ہیں
مین سٹریم میڈیا کو اپنی قوت پر بڑا ناز رہا ہے۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے بڑے میڈیا ہاؤسز اس خبط کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ بادشاہ گر ہیں، اور حکومتیں اتار اور لا سکتے ہیں۔ کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی کئی دوسرے فیکٹرز کار فرما رہتے ہیں، مگر زیادہ کریڈٹ میڈیا کو مل جاتا ہے۔ میڈیا کی مگر کچھ محدودات ہیں، ایک خاص حد سے زیادہ وہ پلے نہیں کر سکتا، اس پر بہت زیادہ تکیہ کرنا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ میڈیا ایک خاص تاثر بنا دیتا ہے، مختلف اینکرز، خبروں اور رپورٹوں کے ذریعے کسی لیڈر یا جماعت کا مخصوص امیج بنایا یا مسخ کیا جاتا ہے۔ اس تاثر کی چادر میں شگاف کیے جا سکتے ہیں، اگر عقلمندی اور ہوشیاری سے تیر چلائے جائیں۔ پھر میڈیا کے اندر بھی ایک تقسیم ہوتی ہے، مکمل یا نیم آمریت والے ممالک چھوڑ کر ہر جگہ کم وبیش ایسا ہے، اس تقسیم اور اندرونی تضادات سے سیاستدان اگر سمجھدار ہوں تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مختلف ریجنز میں میڈیا کا مختلف انداز کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جیسے پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو اخبار یا چینلز اندرون سندھ بالکل بیکار ہیں، وہاں سندھی اخبارات اور چینل کا اثر بہت گہرا ہے۔ جنوبی پنجاب میں نیوز چینلز کا اثر سنٹرل پنجاب سے مختلف ہے، بلوچستان اور کے پی کے کا اپنا تناظر ہے۔ اسے سنجیدگی سے سمجھنے اور پھر ایکسپلائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس لیے زعم ان میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ سوشل میڈیا کی حدود خاصی کم ہیں، اس کا حقیقی زندگی میں اثر بھی زیادہ نہیں، جنرل مشرف اس سامنے کی بات کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ اگرچہ یہاں پر بھی منظم مہم چلائی جائے تو کسی حد تک تاثر بن سکتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر لہریں چلتی رہتی ہیں، ایک کےگزر جانے کے بعد اس کے نقش زیادہ دیر باقی نہیں رہتے۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح کی اینٹی میڈیا کامیابی ہے۔ امریکہ کے تمام بڑے میڈیا گروپس ہیلری کے ساتھ اکٹھے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے، مگر اس بار ہوگیا تھا۔ یہ سب بڑے مگرمچھ اس وقت الٹ چکے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جو نقصان ہوگیا، اس کی تلافی کیسے ہو۔ یہی تجربہ پاکستان میں بھی دہرایا جا سکتا ہے، صرف میڈیا کے ٹرینڈز اور اس کی فالٹ لائنز کو سمجھنا ہوگا۔
کامیابی کے ماڈلز کی نفی
ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے ماڈلز کی ناکامی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بےپناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز SUCCESS STORIES موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں، سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ملیں گے، کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔
دوسری طرف ٹرمپ ایک اور اینٹی ماڈل ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار، جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ کامیابی کی داستانوں کا سحر پاش پاش کرنے والی ایک کتاب ہمارے نوجوان دوست عاطف حسین نے لکھی ہے، کامیابی کا مغالطہ۔ اس ایک کتاب نے کامیابی کی درجنوں فسوں خیز کتابوں، لیکچرز کا نشہ اڑا دیا۔ ٹرمپ نے بھی اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر اینٹی ہیرو امیج کے ساتھ وہی کچھ ہیلری کلنٹن کے ساتھ کیا۔ کامیابی کا ماڈل تباہ ہوگیا اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔
کرشمہ کیسے تخلیق ہوا؟
ٹرمپ کی کامیابی ایک کرشمہ، معجزہ کی طرح ہے، مگر یہ انسانہ کرشمہ ہے، جسے تخلیق کیا گیا۔ ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے، یہ اس کا کارنامہ ہے۔ جو ٹرمپ کی طرح کرشمہ تخلیق کرنا چاہتا ہے، اسے بھی ایک خاص پیٹرن میں کام کرنا ہوگا۔
ٹرمپ نے اصل کام یہ کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نبض پر اپنی انگلیاں رکھ کر ان کے دلوں کی خواہش کو بھانپ لیا اور وہی بیانیہ اختیار کیا جو ان کی آواز تھی۔ عام امریکی، خاص کر چھوٹے شہروں، پسماندہ علاقوں میں رہنے والے جن کے مسائل خاصے بڑھ چکے تھے، مشی گن، وسکانسن، اوہائیو، پنسلوانیا ٹائپ ریاستیں جہاں صنعتیں پہلے تھیں، پھر سست رفتار امریکی معیشت کے باعث وہاں سے منتقل ہوگئیں، کچھ باہر چلی گئیں، مقامی لوگ پریشان حال ہوگئے۔ ٹرمپ نے ان سب کو بہتر معیشت، بہتر مستقبل کی امید دلائی۔ یہ بتایا سمجھایا کہ میں نے اچھے طریقے سے اپنے ادارے چلائے ہیں، میں ملک بھی اچھے طریقے سے چلاؤں گا، اور عام امریکی کے مفادات سب سے مقدم رکھوں گا، ایک طرح سے سب سے پہلے امریکہ والی سوچ۔ یہ بات ان لوگوں کے دلوں میں اتر گئی ، وہ دیوانہ وار باہر نکلے اور ہیلری کلنٹن کی تمام ترانتخابی مہم ، میڈیا کے پروپیگنڈے اور کامیابی کے ماڈل کو بہا کر لے گئے۔ ٹرمپ کا فوکس بڑا پرفیکٹ رہا، اسے معلوم تھا کہ اس نے کن کے لیے بات کرنی ہے، انھی نکات پراس کی توجہ مرکوز رہی، اس نے یہ نہیں دیکھا کہ ایسے بولڈ، جارحانہ سٹانس سے کچھ اور طبقے ناراض ہوجائیں گے، مسلمان، کالے، ہسپانوی حلقے اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ اس نے اچھی طرح تجزیہ کیا کہ اکثریت سفید فام امریکیوں کی ہے، جو تارکین وطن سے ناراض اور برہم ہیں، جنھیں امریکی حکومت کی سپرپاور والی پالیسیوں سے اب چڑ ہونے لگی ہے، ان کے نزدیک ان کی معیشت، زندگی زیادہ اہم ہے، بجائے دنیا بھر کے مسائل حل کرنے اور نیٹو پر اربوں ڈالر کی رقوم خرچ کرنے سے۔ ٹرمپ نے ان تمام فیکٹرز کو ایکسپلائیٹ کیا۔ اس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے لیے ایسے پرکشش نعرے لگائے جو ان کی توجہ کھنچنے میں کامیاب رہے۔ ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے درمیانہ اور خوشحال طبقہ بھی متوجہ ہوا۔ نسل پرستی کے جذبات کو بھی استعمال کیا، میل شاونزم کو بھی اچھے طریقے سے برتا، یہ احساس بھی لوگوں کو دلایا کہ کالے تو باہر آ کر ہیلری کو جتوا دیں گے، اگر تم لوگ باہر نہ آئے تو ایک بار پھر محروم رہ جاؤ گے ۔
ٹرمپ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے ہیلری کلنٹن کو سٹیٹس کو کا حصہ ثابت کر دیا۔ یہ بات اچھے طریقے سے امریکی ووٹروں کو سمجھا دی کہ ہیلری تو اسی روایتی امریکی نظام کا حصہ ہے، اس کے جیتنے سے کوئی بڑی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ یہ تو پچھلے پچیس تیس سال سے چلتے معاملات کو اسی انداز میں چلائے گی۔ اگر تبدیلی چاہتے ہو تو میرے جیسے بولڈ اور دبنگ شخص کو جتواؤ۔ اگرچہ مجھے کوئی سیاسی تجربہ نہیں، میرا انداز زیادہ شائستہ اور مہذب نہیں، بولتا بدتمیزی سے ہوں، اپنے مخالفین سے رعایت نہیں برتتا، ان پر تند و تیز حملے کرتا ہوں، مگر میں بہرحال اس سٹیٹس کو کا حصہ نہیں رہا، میں کوئی روایتی سیاستدان نہیں ہوں، سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتیں یا گروہ بھی میرے اتحادی نہیں ہیں، اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود چونکہ میں تبدیلی لانے میں مخلص ہوں، میں کچھ کر دکھانا چاہتا ہوں، اس سسٹم کو ہلاجلا کر، اس میں شگاف پیدا کر کے عام آدمی کی زندگی بہتر بنانا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ہی حکمران بناؤ۔ نو نومبر کے دن امریکی ووٹروں نے دنیا کو بتلا دیا کہ انہوں نے ٹرمپ کی یہ دلیل اور یہ بیانیہ قبول کر لیا۔ اسے موقع مل گیا۔ اب ٹرمپ پرفارم کر پائے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے، مگر اس کا فیصلہ دوتین برس بعد ہی ہوسکے گا۔
پاکستان میں بھی کوئی چاہے تو ٹرمپ کی کامیابی سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ یہ جان سکتا ہے کہ کس ہوشیاری اور سمجھداری سے ٹرمپ نے امریکی سیاست کے تضادات سے فائدہ اٹھایا، روایتی اور منظم سیاست کا حصہ نہ ہونے، منفی پبلسٹی اور بد تمیزی کا آئیکون بننے کے باوجود کس طرح کامیابی کے آئیڈیل ماڈل کو پاش پاش کیا جا سکتا ہے، کامیابی کا ہما جن کے سروں پر ہمیشہ بیٹھا کرتا ہے، ان سے الیکشن کس طرح چھینا جاتا ہے۔ یہ سب سیکھا جا سکتا ہے، اگر کوئی سیکھنے والا ہو۔