اردو کے معروف نقاد جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے کلاسیکی اردو غزل میں شعریات کے دو بنیادی پہلو شمار کیے ہیں، یعنی علمیاتی (Epistemological) اور وجودیاتی (Ontological)؛ اول الذکر پہلو میں شعر کی مضمون آفرینی، خیال آرائی اور دیگر معنوی جہات کو دیکھا جاتا ہے، جبکہ ثانی الذکر پہلو میں شعر کے صوری محاسن کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ کلاسیکی عہد کے گزر جانے کے بعد شعر کے علمیاتی اور معنوی معاییر میں ہمیں ایک نئے بُعد (Dimension) کا اضافہ ملتا ہے، جسے ”پیغام“ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اردو تنقید کے عناصرِ ثلاثہ، یعنی آزاد، حالی اور شبلی سے شروع ہوتا ہے، اور جس کا اوجِ کمال علامہ اقبال کی شاعری ہے۔ 1857ء کے زوال کا اثر محض ہمارے سیاسی وجود تک باقی نہیں رہا، بلکہ اس نے تہذیب کی جملہ جہات کو متاثر کیا جس نے مسلمانوں میں بالعموم احیا و تجدید کا ذہن پیدا کیا کہ وہ کس طرح اپنی عظمتِ رفتہ کا سراغ پھر سے لگائیں اور قومِ آوارہ، سوئے حجاز عناں تاب ہو جائے۔ اقبال کا عہد ایک غیر معمولی تغیر سے گزر رہا تھا، جہاں نقوشِ کہن کی جگہ تہذیبِ جدید کی فتح مندیاں سایہ فگن ہو رہی تھیں اور علامہ راشد الخیری کے بقول صورتِ حال یہ تھی کہ پکی محل سرا ہو یا ٹوٹا ہوا گھر، بڑا شہر ہو یا چھوٹا ساگاؤں، دیوار و در سے بھی ترقی کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، معلوم ہوتا تھا کہ ملکۂ مغرب کی سواری اپنے وطن سے روانہ ہو کر دریائی مسافت طے کر رہی تھی اور کوئی دم جاتا تھا کہ شرقی حدود میں داخل ہو۔ اس سیم تن دلہن کی اقبال مندی کا نظارہ دیکھنے کے لیے مرد عورت تک سارے جھگڑے بھول کر اور گھر کے دھندے چھوڑ کر اس کے استقبال کی تیاریوں میں مگن تھے، ہر شخص اپنی کینچلی بدلے فلاح و بہبودی کے گل دستے ہاتھوں میں تھامے راتیں سحر اور مہینے دن بسر کیے جاتے تھے۔ علامہ اقبال اگرچہ خود استادگانِ فرنگ سے فیض یاب تھے اور ان کے خمستانِ تہذیب سے مدتوں سیراب ہوئے تھے، لیکن یہ کسی کا فیضانِ نظر تھا، سعادتِ ازلی کی یاوری تھی یا نہاں خانۂ دل میں چھپا وہ نورِ فطرت تھا جس نے اس سیلابِ بلاخیز کے سامنے ”رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور“ کے مصداق [pullquote]يَكَادُ زَيْتُھَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ[/pullquote]
کا منظر پیش کیا۔ ”بانگِ درا“ میں موجود نظم ”ایک آرزو“، ایک سالک کی ابتدائی بےچینی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پہلا شعر ہی دیکھیے :
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا ، جب دل ہی بجھ گیا ہو!
اللہ کے اولیا کے حالات میں ملتا ہے کہ ان کی سیر الی اللہ کا سفر ابتدا میں ایک بے چینی سے ہوتا ہے، ان کا دل دنیا کی رونقوں سے بالاتر ہو کر کسی ابدی حقیقت کی تلاش میں کھویا جاتا ہے، سوال کی خلش بیدار ہوتی ہے، طلب کی کسک بے قرار کرتی ہے، وہ خلوت کے گوشوں اور تنہائی کے ویرانوں کا شائق ہوتا ہے، وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے ازدحام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقامِ عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آ جائے تو اپنے ان سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لیے وہ ہمہ وقت تشنہ اور بے قرار ہے۔ جب شام کی دلہن سنہری سرخی لگا کر نمودار ہوتی ہے، ندیا کا صاف پانی چھماچھم بہتا ہوا سہانی جلترنگ چھیڑتا ہے تو ”ایک آرزو“ کے سالک کو اپنی تمنا کا جواب ملتا محسوس ہوتا ہے۔ ذرا اس بے قراری کا موازنہ کیجیے ”المنقذ من الضلال“ والے امام غزالی ؒ کے ساتھ جس نے اپنی تلاشِ حق کے سفر کی سرگزشت میں کہا ہے کہ کبھی یہ سوچتا کہ بغداد سے نکل جاؤں اور جاہ و ثروت کے ان احوال سے دست کش ہو جاؤں، کبھی موانع آ گھیرتے، ایک قدم آگے بڑھاتا تو دوسرا پیچھے ہٹاتا، اگر کسی صبح عقبیٰ کی طلبِ صادق دل میں کروٹ لیتی تو شام کو جنودِ شہوت ہلہ بول دیتے۔ ایک طرف دنیا کی خواہشات بغداد ہی میں رہ جانے پر مجبور کرتیں اور دوسری طرف داعیۂ آخرت کوچ! کوچ! پکارتا۔ زندگی اور کائنات کی حقیقت کو پانے کی یہ بے چینی اصل میں ان انسانوں میں پیدا ہوتی ہے جو قدرت کی طرف سے بلند فطرت کا عطیہ لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ انھیں لفظ کے بجائے معنیٰ، مجاز کے بجائے حقیقت اور قشر کے بجائے مغز کی جستجو ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نبوت ملنے سے پہلے اسی تلاشِ حقیقت کے بے قرار جذبے سے آبادیوں سے دور حرا کی تنہائیوں میں تعبد یا تحنث میں مصروف ہوجاتے اور بالاخر ایک شاہدِ ربانی نے آکر حقیقتِ منتظر کا مژدہ سنا دیا ہے۔ ایک غیر پیغمبر لیکن حقیقت کا متلاشی انسان ساری عمر اسی طلب کے لذت میں گزار دیتا ہے اور موت کے بعد اس ابدی حقیقت کو پانے سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ اقبال کے سیر الی اللہ کے اس ابتدائی پس منظر کو سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان کی فطرت کے حقیقی رخ کا اندازہ لگایا جائے۔
علامہ اقبال کو عموما فلسفی، شاعر ، مفکر اور تجدیدی فکر رکھنے والے سیاسی مفکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن اقبال کی ان تمام جہات سے برتر اور فائق حیثیت اس کے ایمان کے داعی کی ہے۔ اقبال کی اس جہت کو سب سے زیادہ جس شخصیت نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، وہ شاید مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت ہے۔ فکرِ اقبال پر علماء کی طرف سے حصہ ڈالنے میں غالبا سب سے بڑا حصہ ندوی علما کا ہے۔ سب سے پہلے اقبال پر اس حلقے میں سے مولانا عبدالسلام ندوی ؒنے ”اقبال کامل“ لکھی جس کو فہمِ اقبال کے تین ابتدائی ستونوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اصل میں تخلیق کے بجائے ایک نہایت حسین تالیف ہے جس میں 1948ء سے پہلے پہلے اقبال کی زندگی میں جو کچھ شائع ہوا تھا، اس میں سے تحریروں اور افکار کا ایک عمدہ انتخاب عمدہ تصنیفی حسن کےساتھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ اقبال کی حیات وفکر کے جملہ گوشے آسان الفاظ میں سامنے آجاتے ہیں۔
اس حلقے سے دوسری کتاب مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے عربی میں ”روائع اقبال“ کے نام سے لکھی، جس کا اردو ترجمہ ندوہ ہی کے ایک فاضل مولوی شمس تبریز خان نے ”نقوشِ اقبال“ کے نام سے کیا۔ اقبال کے شعر کے ایمانی اور پیامی پہلو پر لکھنے کے لیے چوں کہ محض الفاظ کا علم کافی نہیں، جب تک اقبال کے دل کا سوز وگداز ، نالۂ نیم شب اور خداوندِ باری کے سامنے تڑپنے پھڑکنے کا کچھ حصہ مصنف کو نہ ملا ہو، اس لیے اس پہلو کو قدرتی طور پر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت نے عمدگی سے نمایاں کیا ہے، کیوں کہ وہ خود وقت کے اعلیٰ شیوخ اور اہلِ دل کے تربیت یافتہ بزرگ تھے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف اقبال کی فکر سے آگہی ملتی ہے، بلکہ پڑھنے والے کو دل کا سوز و گداز بھی میسر ہوتا ہے اور یہ وہ گوہرِ بےبہا ہے جو آج کے مادیت پرستی اور نظارۂ مجاز کی کشتہ محفل میں دولتِ کونین لٹا کر بھی ملے تو ارزاں سودا ہے۔ چناں چہ کتاب کے اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب ماہر القادری نے لکھا: ”مولانا علی میاں نے علامہ اقبال کی نظموں اور شعروں کے انتخاب میں بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے اس خریطۂ جواہر سے سب سے زیادہ تابناک لعل وگہر چنے ہیں۔ فاضل مصنف نے جس حسنِ نزاکت اور دیدہ وری کے ساتھ اشعارِ اقبال کی تشریح و ترجمانی کی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابنِ تیمیہ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے۔ اقبال پر بڑی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر یہ کتاب اس مجاہد عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے ”مردِ مؤمن“ کا مصداق ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ”نقوشِ اقبال“ میں خود اقبال کی فکر اور روح اس طرح گھل مل گئی ہیں، جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی۔“
شعرِ اقبال کا وہ اصل ایمانی اور پیامی پہلو، جو آج کے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، واضح کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں:
”اقبال کو پسند کرنے کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں اور ہر شخص اپنی پسند کے مختلف وجوہ بیان کر سکتا ہے۔ انسان کی پسند کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی فن پارے کو اپنے خوابوں کا ترجمان اور اپنے دل کی زبان پانے لگتا ہے۔ انسان بہت خود بین و خود پسند واقع ہوا ہے۔ اس کی محبت و نفرت اور دلچسپیوں کا مرکز بڑی حد تک اس کی ذات ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اسے ہر وہ چیز اپیل کرتی ہے، جو اس کی آرزوؤں کا ساتھ دے سکے اور اس کے احساسات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ میں بھی اپنے آپ کو اس کلیہ سے الگ نہیں کرتا۔میں نے کلامِ اقبال کو عام طور پر اسی لیے پسند کیا ہے کہ وہ میری پسند کے معیار پر پورا اترتا اور میرے جذبات اور محسوسات کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ وہ میرے فکر و عقیدہ ہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، بلکہ اکثر میرے شعور اور احساسات کا بھی ہم نوا بن جاتا ہے۔ سب سے بڑی چیز جو مجھے ان کے فن کی طرف لے گئی، وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا حسین امتزاج ان کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا ان کے معاصرین میں کہیں پتا نہیں لگتا۔ میں بھی اپنی فطرت اور طبیعت میں ان تینوں کا دخل پاتا ہوں۔ میں ہر اس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیارانہ بڑھتا ہوں، جو بلند نظری، عالی حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیرِ کائنات اور تعمیر انفس و آفاق کے لیے ابھارتا ہے، جو مہر و وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمانی شعور کو بیدار کرتا ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت و ابدیت پر ایمان لاتا ہے۔ میری پسند اور توجہ کا مرکز وہ اس لیے ہیں کہ وہ بلند نظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدہ ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گذشتہ کے لیے سب سے فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔“
اقبال کے شعر کا یہ وہ پہلو ہے جو انھیں کسی روایتی شاعر یا ادیب کی پہچان سے ہٹا کر انھیں اصحابِ دعوت کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اگرچہ ان کے یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں، لیکن ان پہلوؤں کی حیثیت ضمنی ہے۔ وہ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:
مری نواے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ
اقبال کی سیاسی فکر کو تھوڑی دیر کے لیے موجودہ عالمی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں کسی درجے میں irrelevant بھی قرار دے دیا جائے، یہ ان کی شخصیت کی حقیقی عظمت کا پہلو شاید نہ ہو جس کے نتیجے میں فکرِ اقبال کی عصری معنویت سے انکار کیا جا سکے؛ بلکہ اقبال کی حقیقی پہچان یہ ہے کہ حیات وکائنات کے راز ہاے سربستہ کی جستجو میں وہ ابتدا میں ایک طلبِ صادق کے حامل سالک کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اس غور و فکر، آہ و بکا اور تڑپ کے نتیجے میں اللہ طرف سے انھیں دردِ دل کا حقیقی گوہر عطا ہوتا ہے جس سے ان کے پیغام میں ایمان کی ابدی دعوت کا وہ عنصر شامل ہوتا ہے جو نہ صرف آج کے انسان کی ضرورت ہے بلکہ ہر عہد کے انسان کی۔یہ ایمانی دعوت غیر اللہ سے بے نیازی، اہلِ ثروت سے استغنا، تعریف وشہرت کی حرص سے دوری جیسے اوصاف کو اپنے اندر سموئے ہے۔ اس میں اللہ کو پانے کی سچی تڑپ اور حبیبِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے لو لگانے کی پکار ملتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے پہلو سے آج کا انسان جتنا مفلس اور تہی دامن ہے، جتنا شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔
تبصرہ لکھیے