ہوم << اللہ دے اور بندہ لے - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

اللہ دے اور بندہ لے - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1096_96255163بظاہر طیب اردگان صاحب نے ایک شاطر سیاستدان کی طرح اپنے خلاف بغاوت کو موقع غنیمت جان کر بھرپور طریقے سے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. اس ناکام فوجی بغاوت کا الزام پوری طرح سے فتح اللہ گولن صاحب پر لگا دینے کے بعد اب ان کے پاس جوابی کارروائی کا قریباً ویسا ہی اخلاقی جواز آ گیا ہے جیسا کہ 9/11 کے حملوں کے فوراً بعد بغیر کسی بھی باقاعدہ یا سرسری تحقیق اسامہ بن لادن کو موردِ الزام ٹھہرا دینے کے بعد صدر بش اور امریکہ کے ہاتھ آ گیا تھا. یہاں ایک اور مماثلت بھی دلچسپی سے خالی نہیں .. امریکہ، افغانستان سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا تھا اور ترکی اب امریکہ سے فتح اللہ گولن کی.
اس بات کا ایک بڑا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ اردوان صاحب نے چھوٹتے ہی 2500 سے زائد ججوں کو برطرف کر دیا. ان ججز کا اس بغاوت میں کیا رول ہو سکتا تھا، اس بابت مبصرین کچھ کہنے سے قاصر ہیں. کہا جاتا ہے کہ نظام انصاف، پولیس اور پڑھی لکھی مڈل کلاس میں گولن صاحب کا اثر بہت نمایاں ہے. اس ضمن میں ان کی "خدمت" تحریک کے جامع اور وسیع تعلیمی اور سکول نظام اور ان کے میڈیا ہاؤسز کا بہت بڑا دخل بتایا جاتا ہے. عوام (بالخصوص سرکاری ملازمین) میں گولن صاحب کے اس رسوخ کو صدر اردوان "ریاست کے اندر ریاست" سے تعبیر کرتے ہیں. اگر فتح اللہ گولن "نیٹ ورک" کے خلاف منظم کارروائی کے خدشات درست ہیں تو ان کا اسکولوں کا نظام بھی آنے والے دنوں میں نشانہ بنے گا اور ساتھ ہی وہ سب بھی جو دامے درمے، سخنے، کسی بھی طرح گولن صاحب سے وابستہ ہیں.
فوج کے ساتھ تعلقات ترکی کی سول حکومتوں کے لیے بالعموم آزمائش کا میدان رہے ہیں. تین مارشل لاء اس کشمکش کی طرف ایک واضح اشارہ ہیں. اردوان بھی اس سے مستثنٰی نہیں. بلکہ ان کو یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی درپیش رہا کیونکہ ان کے بہت سے ناقدین کی نظر میں وہ ترک ریاست کی فکری و نظریاتی سمت اور اس کے دستوری ڈھانچے کو سرے سے ایک مختلف رنگ دینے میں مصروف تھے. اس بغاوت کی ناکامی کے بعد جس طرح ترک فوجیوں کی عوام کے ہاتھوں تذلیل کی تصاویر جاری کی گئی ہیں، اس پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد فوج کو پچھلے قدم پر دھکیلنا یے تاکہ جب اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوں تو وہ کسی قسم کی مزاحمت کی پوزیشن میں نہ رہے. اگر ایسا ہی ہے تو یہ ایک خطرناک بات ہو سکتی ہے. اس سے حکومت اور فوج کے درمیان بد اعتمادی اور مخاصمت میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جو ترکی کے لیے موجودہ بین الاقوامی و علاقائی صورتحال کے تناظر میں سخت نقصان دہ ہو سکتا ہے. فوج میں "اپنے بندے" کسی تحفظ کی ضمانت نہیں. مصر اور صدر محمد مرسی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح انھیں اپنے ہی منتخب کردہ جنرل سیسی کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونا پڑا.
سیاسی موقع سے فائدہ اٹھانا سیاست دان کا حق ہے. لیکن اس سے کتنا فائدہ اٹھانا ہے کہ ملک اور قوم کو نقصان نہ پہنچ جائے، یہ طے کرنا اس کا فرض ہے. صدر اردوان کے سامنے بھی یہی سوال ہے. ان کے اقدامات سے ترک سوسائٹی میں سول سول تقسیم گہری ہوجانے کا امکان بھی ہے اور سول ملٹری تقسیم بھی. دیکھنا یہ ہے کہ اردوان "کتنا کافی ہے" کا اندازہ لگانے میں کامیاب رہیں گے یا پھر "مکمل" کے چکر میں پڑ کر ترکی کو ایک نئے بحران کی راہ پر دھکیل دیں گے

Comments

Click here to post a comment

  • کل تک تو اسے مثبت اندازمیں لینے کے شواہد تھے لیکن جتنے بڑے پیمانے پر چھانٹی ہو رہی ھے اس سے معلوم ہوتا ھے کہ اس کے پیچھے طویل ہوم ورک ھے ۔یہ اقدامات کو کو بھی مشکوک بنا سکتے ہیں ۔