ہوم << نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

ایمرجنسی کیس کا مطلب ہی زندگی کو خطرہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اسپتال میں مریض کے انتقال کی صورت میں لواحقین اور میڈیا عفریت بن کر اسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں. گویا نجی اسپتال مذبح خانے ہیں، جہاں لائے جانے والی جان اگر بچائی نہیں جا سکی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسے ارادتا قتل کیا گیا ہے. ایسی صورتحال دو طرح کے گروپس کری ایٹ کرتے ہیں. ”غمزدہ لواحقین“ جو اپنے پیارے کی مرگ کو قبول نہیں کر پا رہے ہوتے. یہ لوگ اپنا رنج و غم ظاہر کرنے کے لیے اسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں، ان کا نشانہ فرنیچر کھڑکی دروازے مشینری کے علاوہ ہاتھ لگنے والے ڈاکٹرز اور اسپتال کا عملہ کچھ بھی ہو سکتا ہے. دوران کالج ملحقہ سرکاری اسپتال میں ایک معمر بزرگ انتہائی شدید ایمرجنسی میں لائے گئے، ان کا 90 فیصد جسم جل چکا تھا، ایسے کیس میں مریض کے بچنے کے امکانات صفر کے برابر ہوتے ہیں. رات گئے ڈیوٹی پر ایک ینگ ڈاکٹر موجود تھا، جو ہاؤس جاب کر رہا تھا اور ایمرجنسی آؤٹ ڈور کو بھی ہینڈل کر رہا تھا. باقی تمام ڈاکٹرز اس وقت بھی آپریشنز میں مصروف تھے. آؤٹ ڈور ہیوی تھا، اور عملہ کم، نوجوان ہاؤس سرجن نے مریض کے ریسیونگ نوٹس ڈال کر ابتدائی درد کش ٹیکے لگا دیے. سینئر کو اطلاع / کال بھجوا دی، لیکن آپریشن درمیان میں چھوڑ کر آنا ایک ناممکن امر ہوتا ہے. جتنی دیر میں سینئر ڈاکٹر صاحب آپریشن سے فارغ ہو کر آتے، جاں بلب بزرگ نے آخری سانسیں لیں اور رب کو پیارے ہوگئے. غمزدہ لواحقین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نوجوان ڈاکٹر کو مار مار کر کومے میں پہنچا دیا. وہ ڈاکٹر چند روز کومے میں رہ کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا. کسی نے ان لواحقین سے نہیں پوچھا کہ مریض اتنا جلا کیسے؟ کسی نے ڈاکٹر سے ہمدردی نہیں کی؟ کیوں؟ ایسی ناگہانی کے خوف سے نجی اسپتال اب سیریس مریض نہیں لیتے.
دوسرا گروپ موقع پرست ”پریشر بلیک میلر گروپ“ ہوتا ہے جو ہر موقع پر کٹے سے دودھ دوہنے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے. مریض اپنے وقت پر رخصت ہو جاتا ہے، اور اس کے شایان شان رخصتی کے اخراجات اسپتال سے نکلوائے جاتے ہیں، کیونکہ شومی قسمت عزرائیل کو مریض کی جان اسپتال میں قبض کرنے کے احکامات ملے تھے. عموما ایسے لواحقین یا ان کو مشورہ دینے والے حضرات وہ ہوتے ہیں جن کے لیے میڈیا میں بات اچھالنا اور کورٹ کچہری کے چکر نئی چیز نہیں ہوتی. میڈیا جن کیسز کو پبلیسائز کر کے اپنے تئیں لواحقین کو انصاف دلاتا ہے اور ڈاکٹر یا اسپتال انتظامیہ کو بدنام اور بلیک میل کرتا ہے، وہی میڈیا مریض کو ڈاکٹر اور فوری طبی مدد سے دور بھی کرنے کا باعث بن رہا ہوتا ہے.
ایک دفعہ اسپتال ایسے کسی میڈیائی عفریت کے چنگل میں آ جائے، پھر وہ اسپتال اور اس کے دور و نزدیک کے دوسرے اسپتال آئندہ کے لیے ایسی ایمرجنسی لینے سے محتاط ہو جاتے ہیں.
جس کا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے، اس کا غم سمجھ آتا ہے، لیکن یاد رکھیں ڈاکٹر آپ کا دشمن نہیں ہوتا، وہ آپ ہی کے مریض کی جان بچانے کے لیے ٹیکہ لگاتا ہے یا آپریشن کرتا ہے. ظاہر ہے مریض سیریس تھا، تبھی اسپتال لایا گیا تھا لیکن آپ لوگ اسی مریض کی اپنے گھر کے بیڈ پر وفات کو قبول کرتے ہیں اور گھر کے شیشے نہیں توڑتے،گھر کے مالک کو جان سے مار دینے یا پھانسی پر لٹکا دینے کا مطالبہ نہیں کرتے، اس پر دفعہ 302 کا پرچہ کٹوانے کے بینرز آویزاں نہیں کرتے.
ہم سب مسلمانوں کا ماننا ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے، لیکن اگر یہ جگہ اور وقت اسپتال میں ہو تو کیا موت اللہ کی طرف سے نہیں؟ کیا وہ ڈاکٹر یا عملے یا اسپتال کی غفلت کا نتیجہ ہے؟ گھر میں فوت ہونے والے عزیزوں کی وفات کس کی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے؟ ہاں اسپتال میں ایمرجنسی ادویات اور مشینری کا موجود ہونا ہم سب کا حق ہے. اور جان بچانے والی ادویات میں مہنگی ادویات بھی شامل ہونی چاہیے لیکن یاد رکھیں نجی اسپتال بیشتر اوقات معاشرے میں موجود آپ جیسے متوسط طبقے کے افراد ہی چلا رہے ہوتے ہیں. ایک پرائیویٹ ڈاکٹر روٹی، گھر،گاڑی اور بچوں کی تعلیم کے بعد بچنے والی کمائی کا ایک ایک پیسہ اسپتال میں مزید سہولیات فراہم کرنے پر صرف کر رہا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں وہ ہر مہنگی دوا اپنی جیب سے مہیا نہیں کر سکتا، یہ شعبہ گورنمنٹ کا ہے. اسی طرح ہر نجی اسپتال میں ہر قسم کی مہنگی مشینری موجود نہیں ہوسکتی.
ہمارے ہاں اس مسئلے کا بہترین حل میڈیکل انشورنس ہے، اس سسٹم کوگورنمنٹ کی سرپرستی میں شروع کیا جانا چاہیے.
اگلا سوال ہے کہ نجی اسپتال مہنگے کیوں ہیں؟
اسپتال کو کچھ بھی مفت نہیں ملتا بلکہ عام صارفین کی نسبت یوٹیلیٹیز مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں. بجلی کا نرخ کمرشل ہے یعنی جو بجلی عام صارف 12 روپے فی یونٹ خریدتا ہے، وہی بجلی اسپتال اس سے دگنے دام میں حاصل کرتا ہے. اس پر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی سبسڈی نہیں، یہی حال کمرشل گیس کے میٹرز کا ہے. نجی اسپتال آنے والا مریض فوری آرام کا طالب ہوتا ہے، اس صورتحال میں اسے جینریک نان برانڈڈ ادویات استعمال نہیں کروائی جا سکتیں جبکہ برانڈڈ ادویات کی قیمت متعلقہ فارماسوٹیکل کمپنی طے کرتی ہے.گورنمنٹ اسپتال میں موجود وہی برانڈ مفت یا سبسڈائزڈ ہوتا ہے جبکہ پرائیویٹ وہ پوری قیمت پر مہیا کیا جاتا ہے. سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس اور نرسنگ اسٹاف ماہانہ بنیاد پر تنخواہ لیتے ہیں جبکہ نجی اسپتال میں عموما یہ سب فی کیس شئیر کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اسی طرح نجی اسپتال میں سیکھنے کے شوقین ڈاکٹرز مفت کام نہیں کرتے بلکہ سیکھے سکھائے ڈاکٹرز اور طبی عملہ پروفیشنل سروسز قیمتا مہیا کرتا ہے.
غریبوں کا مفت علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟
ڈاکٹر معائنہ مفت کر بھی دے تب بھی ادویات اس نے اپنی جیب سے لینا ہیں یا آپریشن کے کچھ نہ کچھ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے ہیں. مریض مستحق نہ بھی ہو تب بھی علاج کرواتے وقت مستحق ترین بن جاتا ہے. ایک فری کیمپ میں، جس میں، میں نے اپنے تین کولیگز کے ساتھ دو دن میں بارہ سو مریض دیکھے، اور ابتدائی دو دن کی دوا بھی مہیا کی، اس میں مریضوں کا رویہ یہ تھا کہ کیمپ سے باہر نکلتے ہی دوا کی پرچی پھاڑ کر پھینک جاتے تھے، اور اگر کسی نے دوا کھا لی تو مہینے بعد بھی مفت معائنے کے لیے ہی دوبارہ آیا. جبکہ فری کیمپ دو دن کا تھا. ایک نجی اسپتال نے اپنا سسٹم چلانے کے لیے آمدنی اپنے مریضوں سے ہی جنریٹ کرنی ہے. بنا تیل کے تو کوئی گاڑی نہیں چل سکتی.
حکومت کی پالیسیز پریکٹس فرینڈلی نہیں!
ڈاکٹر کو اوور آل/سفید کوٹ نہ پہننے پر معطل کر دیا جاتا ہے. کیوں بھائی! آپ نے اسپتال کے وارڈ میں اے سی لگائے ہیں، جہاں گرمی نہیں یا وہاں بجلی نہیں جاتی. پرائیویٹ اسپتال ہو یا سرکاری، لوڈ شیڈنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. دوران آپریشن بجلی چلی جائے تو تھیٹر لائٹ اور بھاری مشینیں ایمان کی روشنی پر نہیں چلتیں. کم از کم پہلے قدم کے طور پر سرکاری اسپتال کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنٰی قرار دیا جائے. اور پھر اسے نجی اسپتال تک بھی بڑھایا جائے ورنہ وہ چند لمحات جس میں بجلی کے جھٹکے لگا کر کسی کا بند دل چلایا جا سکتا ہے، وہ قیمتی لمحات لوڈشیڈنگ اور چینج اوور کی نظر ہو جائیں گے. ایک سرکاری اسپتال میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آنکھ کا آپریشن درمیان میں چھوڑ دیا گیا، اور تین گھنٹے بعد لائٹ آنے پر آپریشن مکمل تو کیا گیا لیکن آنکھ ضائع ہو چکی تھی.
چند تجاویز. .
ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز کی مناسب حفاظت کا بندوبست کیا جائے.
ڈاکٹرز کی تنخواہیں اتنی کر دیں کہ انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا رخ ہی نہ کرنا پڑے، اور وہ درست معنوں میں شعبہ طب کو مسیحائی میں تبدیل کر سکیں.
جان بچانے والی مشینری بےحد مہنگی ہے اور اسے باہر سے منگوانا پڑتا ہے، جس پر ہوشربا درآمدی ٹیکس نے ایسی مشینری کو بیشتر نجی اسپتالوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے. اس طرف ہمدردانہ غور کیا جائے اور اس پر عائد ٹیکس کم یا ختم کیا جائے. یہ ذاتی عشرت کا سامان نہیں، عوامی خدمت کے لیے اہم ہے.
نئے ڈاکٹرز کو پریکٹس اسٹیبلش کرنے کے لیے اور اسٹیبلشڈ اسپتالوں کو سہولیات بہتر بنانے کے لیے آسان اقساط میں بلاسود قرض فراہم کیے جائیں.
اسی طرح نیا اسپتال بنانے کے لیے مناسب ترین بلڈنگ اسٹرکچر کی تیاری میں بھی پیشہ ورانہ خدمات گورنمنٹ لیول پر مہیا کی جائیں.
ڈاکٹرز کے ریفریشر کورسز بھی گورنمنٹ لیول پر کروائے جائیں نہ کہ اس معاملے کو میڈیکل کمپنیز کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، تاکہ ڈاکٹر بیماری کا نیا علاج سیکھیں نہ کہ بیماری کی نئی دوا.
میڈیکل انشورنس ڈاکٹرز اور مریض کے باہمی تعلقات کی بحالی کی طرف ایک عمدہ قدم ثابت ہو سکتا ہے، جہاں مریض کو ڈاکٹر کی تشخیص اور طریق علاج پر شک صرف اس لیے نہیں ہوگا کہ شاید پیسوں کے لیے ٹیسٹ /ادویات/آپریشن تجویز کیا جا رہا ہے اور اسی طرح جب ڈاکٹر کو محنت کا مناسب معاوضہ ملنے کا یقین ہوگا تو اس کی دلچسپی ٹو دا پوائنٹ تشخیص اور بہترین طریق علاج کی طرف مبذول رہےگی.

Comments

Click here to post a comment