ہوم << دھرنا سسٹم- شاہد اقبال شامی

دھرنا سسٹم- شاہد اقبال شامی

Supporters of the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) political party of former cricket star Imran Khan protest during a rally to stop NATO supply routes into Afghanistan and drone attacks, in Peshawar November 23, 2013. Khan, whose political party is now in charge of the volatile Khyber Pakhtunkhwa (KP) province bordering Afghanistan, has threatened to cut NATO supply lines through his region from November 23 if U.S. drone strikes do not end. REUTERS/Fayaz Aziz (PAKISTAN - Tags: CIVIL UNREST POLITICS)

شاہداقبال شامی
پاکستان کی موجودہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے ــ سب اپنے مفاد کیلئے کو شاں ہیں ،اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیئے ہر حد پھلانگنے کے لیئے تیار ہے عوامی خدمت کی دعوے دار جماعتیں بھی یہ روش اپنا چکی ہیں ،
اپنے جا ئز و ناجائز مطالبات منوانے کے لیئے مختلف قسم کے حربے استعمال کر رہی ہیں،آج کل پاکستان میں ایک '' دھرنا سسٹم '' رواج پا چکا ہے جس نے بھی اپنی بات منوانی ہوتی ہے وہ اپنے چند کار کنو ں کو لے کر سٹرکو ں پر آ کر عوامی راستے بند کر دیتے ہیں ان دھرنو ں کی وجہ سے لو گوں کوجو تکالیف ہوتی ہیں اس کا اندازہ ایئر کنڈیشن کمر وں میں T V کے سامنے بیٹھ کر نہیں کیاجا سکتا اس "دھرنا سسٹم" کو دیکھتے ہو ئے مجھے چند سال پرانا ایک واقعہ یاد آگیا. سوچا اپنے قارئین کو بھی یہ واقعہ سناؤں،
یہ 2010 کی بات ہے جب ایک "طلبہ کنونشن" میں شامل ہونے کے لیے چند طلبہ کے ہمراہ ایبٹ آبادکا سفر کیا تھا ،ہم شکردرہ سے جب اٹک سٹی لاری اڈہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج ڈرائیوروں نے اس بات پر ہڑتال کی ہوئی ہے کہ جب تک کامرہ روڈکو گاڑیوں کیلئے نہیں کھولا جاتا تب تک کے لیے ہم گاڑیاں چلائیں گے اور نہ ہی اس روڈ سے ہٹیں گے تمام دو ستوں نے مشورہ سے طے کیا کہ چلو حسن ابدال تک ریل میں سفر کرتے ہیں جب ریلوے اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہواکہ ریل آج بھی حسب معمول لیٹ ہے، ٹکٹ لینے گئے تو "خو ش خبری '' ملی کہ یہ ریل حسن ابدال نہیں رکے گی بلکہ سیدھا راولپنڈی جا کر دم لے گی ۔
جون کی چلچلاتی دھوپ میں ہم طلباء کے ہمراہ ویران سڑک پر بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جا ئے؟ مشورہ سے طے ہوا کہ کسی گاڑی والے سے بات کی جا ئے کہ ہمیں ایبٹ آباد تک چھوڑ آئے بڑی مشکل سے ایک ڈرائیور راضی ہوا اور اڈے سے باہر اس کو گاڑی لانے میں ایک گھنٹہ لگ گیا ۔
خدا کا شکر ادا کرتے گاڑی میں سوار ہوئے ابھی 200 گز کا فاصلہ طے ہوا ہی تھا آگے روڈ پھر بند تھا، وجہ معلوم ہوئی کہ نرسوں نے اپنے حقوق کیلئے روڈ بند کیا ہوا ہے
ڈرائیور نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی کو تنگ گلیوں سے گزار کر پھر جی ٹی روڈ پر لے آیا، حسن ابدال تک کا سفر خیریت سے گزرا لیکن جونہی خیبر پختونخواہ کی سرزمین کو چھوا پھر پہلے والا معاملہ. سوچنے لگے کہ یہ راستہ کامرہ کی طرف جاتا ہے اور نہ ہی ان کے" حقوق"شہباز شریف نے دبا رکھے ہیں،پھر یہ کیوں آتش جوالہ بنے ہوئے ہیں اور راستوں کو ٹائر جلا کر بند کیا ہوا ہے۔
پریشانی کی حالت میں گاڑی سے باہر قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ بابا حیدر زمان نے ہزارہ صوبہ بنوانے کیلئے صبح 6 سے شام6 تک ہزارہ میں داخل ہونے والے تمام راستوں کو بند کرایا ہوا ہے تمام طلبہ گاڑی سے اتر کر درختوں کے سائے میں بیٹھ کر خربوزہ تناول فرمانے لگے اور گاڑی کے ذمہ داران باحفاظت سفر کیلئے رابطہ کرنے لگے، معلوم ہوا کہ حطار کی طرف سے راستہ کھلا ہوا ہے،راستہ بھولتے،پوچھتے حطار کی طرف جونہی ہری پور میں داخل ہوئے تو آگے پھر دھرنا پارٹی کے 6افراد نے ایک ٹائر جلا کر راستہ بند کیاہوا تھا ، یہاں پہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ دھرنے اور ٹائر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
بہرحال جمعہ کی نماز کا بھی وقت قریب تھا، دوستوں کے رابطے ایک بار پھر کام کرگئے اوراطلاع ملی کہ نماز جمعہ تک فلاں روڈ کھلا ہے ڈرائیور نے پھرتی دکھائی اور گاڑی کو اس طرف دوڑا دیا ،لیکن ایبٹ آباد سے چندکلومیٹر پہلے پھر "دھت تیرے کی" والا معاملہ، ڈرائیور کی بھی ہمت جواب دے گئی اور وہ بھی منتیں کرنے لگاکہ میں نے ایک نکاح کیلئے بکنگ لی ہوئی ہے ، مجھے جانے دو ! بالآخر "دھرنا سسٹم" کو ملامت کرتے ہوئے ہم نے ڈرائیور کو ایسے رخصت کیا جیسے وہ ہمیں سرحد پر چھوڑ کر جا رہا ہو،چھوڑ کے تووہ ہمیں سرحد ہی پر جا رہا تھا، لیکن یہ لوگ سرحد کو ہزارہ بنانا چاہتے تھے اور کچھ لوگ "خیبرپختونخواہ" بنو ا چکے تھے، 10گز کے دھرنے سے آگے ایک گاڑی کھڑی ہوئی نظر آئی تو دوستوں نے اس گاڑی والے سے بات کی،ڈرائیور نے اس شرط پر بات مانی کہ جہاں تک راستہ صاف ہو گا وہاں تک چلوں گا "مرتا کیا نہ کرتا"کے مصداق عازم سفر ہوئے،3 کلومیٹر کے بعد چند پتھروں نے دھرنا دیا ہوا تھا ، ڈرائیور نے آگے جانے سے انکار دیا" گلے پڑے ڈھول"کی طرح آگے کا سفر پیدل ہی طے کرنا پڑا، منزل مقصود تک پہنچے سے پہلے اس جگہ سے بھی گزر ہوا جس مقصد کیلئے ان لوگوں نے اپنے علاوہ تمام لوگوں کو جوکھم میں ڈالا تھا۔
شہداء چوک پر چند سو لوگ اکٹھے ہیں اور زوروشور سے نعرہ بازی چل رہی ہے کہ" ہماراایک ہی نعرہ ،صوبہ ہزارہ" قائدتحریک خود بھی اس نعرے کا مکا لہراتے جواب دے رہے ہیں کہ"دیکھو دیکھو کون آیا۔بابا آیا بابا آیا" جب ہم چند سو نفوس کی یہ"دھرنا پارٹی" عبور کرآئے تو تمام طلبہ نے یک زبان ہو کر بڑے جوش سے ایک نعرہ لگایا "ہمارا یک ہی نعرہ۔آنا نہیں یہاں دوبارہ"
آج اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جب کہیں دھرنا دیکھتا ہوں تو یہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور وہ مناظر آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں،خدارا اپنے آپ کو بدلو اس دھرنا سسٹم کو چھوڑو کوئی متبادل حل تلاش کرو عام آدمی کو اذیت میں ڈال کر کون سے مطالبات منوائے جاسکتے ہیں؟؟؟ ان دھرنوں نے ملک کو دیا ہی کیا ہے؟ ان کی وجہ سے ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے، لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں،کئی مسائل جنم لے رہے ہیں ، کئی مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں،اپنے آپ پر رحم کریں ،اپنے لوگوں پر رحم کریں،حکومت کو بھی چائیے کہ وہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے اورایسی پالیسیاں مرتب کرے کہ دھرنے دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔

Comments

Click here to post a comment