ہوم << رجوع کا وقت - رضوان الرحمن رضی

رجوع کا وقت - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی اگر بارِ خاطر گراں نہ گذرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،ان کا اپنی پہلی رائے سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اہلِ نظر کو تو بات سمٹتی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کس و ناکس کو اب تک بھی نظر نہیں آ رہی تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروائے۔
خواہشات کے انبوہ اور نفرتوں کے انبار اپنی جگہ لیکن عام محاورہ یہی ہے کہ ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘ اور یوں قانون کے ایوانوں میں بیٹھے اس کے نمائندے وہی کچھ دیکھتے ہیں جو انہیں ثبوتوں کے ساتھ ان کی میز پر لا کر دکھایا جاتاہے۔ ہمارے ملک میں نافذ برطانوی قانون کے مطابق اگر جج اپنی آنکھوں کے سامنے کسی بے گناہ کا قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھ لے تو وہ اس کا فیصلہ اس وقت تک کرنے کا مجاز نہیں ہوتا جب تک کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے سامنے اس واقعے کے تمام ثبوت اور گواہیاں لا کر پیش نہ کر دیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’سووموٹو‘ (خود اختیار کردہ ) نوٹس کے تحت ان اداروں کو ثبوت جلدی اور ایمانداری سے پیش کرنے کاتو کہہ سکتا ہے لیکن اپنے آنکھوں دیکھے واقعے پر بھی کوئی فیصلہ سنانے سے عاری ہوتا ہے۔ جج تو خود کسی واقعے کی تحقیقات بھی نہیں کرسکتا اس کے لئے پھر اسے ریاست کے دیگر اداروں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔
دراصل ہماری عمومی عدالتوں میں جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) برانچ سے معاملات ذرا مختلف طریقے سے فیصل ہوتے ہیں ، اگرعدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کئے جانے معاملات اور ان کے ثبوت جیگ برانچ کے سامنے پیش ہوتے اور ملزم کوئی سویلئن ہوتا تو وہ یقینناً سزا سے نہ بچ پاتا، وردی پوش جرنیلوں کا معاملہ تا ہم دیگرہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ہی دراصل قانون ہوتا ہے۔ اس لئے کشمیر پر بھارتی فوج کے خلاف دفاع سے لے کر مشرقی پاکستان اور چار مارشل لاوں تک کے معاملے پر کسی ذمہ دار جرنیل کے خلاف یہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا، لیکن تخریب کاری کے ’شک‘ میں پکڑے جانے والوں کی پھانسیاں نان سٹاپ جاری ہیں۔ کہیں تو کس سے کہیں؟
گورے نے اپنی نوآبادیات میں جیگ برانچ متعارف ہی اس لئے کروائی تھی کی غلاموں کی فوج میں نظم و ضبط کے نام پر اپنے حکم اور حکمرانی کا شکنجہ اچھی طرح کس کے رکھا جائے کہ کسی کو ملکہ کے نام پر جان دینے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ سوچوں پر پہرے بٹھانا اسے ہی کہتے ہیں۔
سارے معاملات کی فائل اسی حوالے سے تیار کی گئی تھی لیکن وہ کیا ہے کہ مقدمہ ایک سویلئن عدالت میں پیش ہو گیا ہے اور چوں کہ ملک کی عدالتیں برطانوی ترکے میں چھوڑے رومن قانون کے تحت رو بہ عمل ہیں تو یہ انہی حقائق پر اسی معیار کی بناء پر فیصلہ کریں گی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے بیرونِ ملک اثاثے کیسے بنائے؟ اور اگر یہ اثاثے بنائے تو ان کے لئے ذرائع آمدن کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ذرائع آمدن موجود ہیں تو ان کا اظہار ان کاغذات میں کیوں نہیں جو انہوں نے اپنی نامزدگی کے وقت الیکشن کمیشن کو پیش کئے تھے؟ اور چوں کہ انہوں نے ایسا کرکے جھوٹ بولا ہے ، اس لئے ان کو نا اہل قرار دیا جائے۔
آج کل ویسے بھی بہت سے لوگوں کو چچا یاد آ رہے ہیں لیکن ہمیں ایسے وقت میں چچا غالب یاد آئے اور کیا خوب یاد آئے
مگس کو جنگل میں جانے نہ دیجیو
کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا
کیسی کیسی کہانیاں گھڑی ہیں ہمارے محترمین نے۔ جب حالات غیر معمولی ہوں تواقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر میاں شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں شکوک ہیں تو دونوں مواقع پر جب ان سے تمام کاروبار اور جائیداد چھین کر ان کو جلاوطن کیا گیا ، توکیا وہ حالات شکوک کے ہالے میں گھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جس قانون کے تحت ان کی اتفاق فاونڈری کو قومیایا گیا اور بعد ازاں صرف ان کو واپس تھمایا گیا جب کہ باقیوں کے اثاثوں کو سرکاری تحویل میں ہی رکھا گیا ، یا جس قانون کے تحت ان کو قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود سعودی شاہی جہاز پر جلاوطن کیا گیا تھا بس اسی قانون کے تحت یہ رقوم بھی ملک سے باہر گئی ہیں۔ چوں کہ ہم میں بحثیت قوم یہ یارا نہیں کہ ہم کسی وردی پوش جرنیل سے اس قانون کی کسی شق کے بارے میں استفسار کر سکیں تو پھر میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بھی یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے، یہاں پر یقینناً ہمارے معاشرے اور قانون کے پر جلتے ہیں۔
یہ تمام باتیں کسی مظاہرے یا دھرنے کے کنٹینر پر بنے سٹیج سے اوئے توئے کے ساتھ کرنے کے لئے تو اچھا مصالحہ ہیں لیکن ’اندھے قانون‘ کے سامنے ان کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ کوئی تین ماہ قبل میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے کچھ ہفتے سعودی عرب میں مقیم رہے۔ بظاہر تو مقصد اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ کچھ وقت گذار نا تھا لیکن دراصل اپنے ان اثاثوں کو قانونی غلاف پہنانا تھا۔ ایک شخص جو بیس کروڑ والی آبادی اور 270 ارب ڈالر سے زائد جی ڈی پی والے ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہو، کیا اس کو پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی دستیاب نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ میاں صاحب کی تمام ناجائز دولت اس کے تحفے کا شاخسانہ ہے؟ اور ظاہر ہے کسی نے کہہ دیا ہے اور ہمارے ملک میں نافذ ’اندھے قانون‘ نے تو پیش کیے گئے ثبوتوں پر جانا ہے۔
مقدمہ بنانے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ سال 2011 میں سالانہ ٹیکس ریٹرن کے فارم میں (Dependent)کا خانہ ہی نہیں تھا ۔ اس بات کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ملک کی سب سے بڑی چارٹرڈ اکاونٹنٹ فرم سے حاصل بھی کر لیا گیا ہے۔ رہی بات بیرونِ ملک اثاثوں کی تو اس کی ٹریل بھی مکمل کیا جا چکی ہے۔ اب تو ان ملزموں کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو آرمی ایکٹ مجریہ 1942 کے تحت گرفتار کرلیا جائے ، جس خواہش کا اظہار جناب شیخ رشید روزانہ ٹی وی کے مختلف حالاتِ حاضرہ (Entertainment ) کے پروگراموں میں بیٹھ کر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر ہی ان کو ان کردہ گناہوں کے الزام میں لٹکایا جا سکتا ہے۔
خاکسار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ان تمام امور کی رپورٹنگ کر رکھی ہے اور یہ تمام حقائق میری انگلیوں کے رستے ہی قرطاس پر منتقل ہوئے تھے اس لیے میری بہت واضح یادداشت کا حصہ ہیں۔ جن معاملات پر ہمارے ’دوست ‘ ہاتھ ڈال رہے ہیں، ان پر میاں صاحب کو پکڑا تو کیا انگلی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن جن معاملات پر پکڑ اجا سکتا ہے، اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر اینڈ بورڈ ملز کے لیے استعمال شدہ مشینری جب اتفاق فاؤنڈری کے سکریپ کے پردے میں بغیر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی دیے درآمد کر کے نصب کی گئی تھی تو پھر اس کے بدلے نیشنل بینک سے قرض جاری کرتے وقت اسے نئی مشینری کیسے ظاہر کیا گیا؟ اور بعد میں یہ قرض جان بوجھ کر ڈیفالٹ کیوں کر دیا گیا؟ اور دیگر اداروں کے ساتھ یہ ادارہ بینک کے حوالے کردیا گیا کہ بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لو؟ شاید اس لیے کہ سکریپ کے بدلے نئی مشینری کی قیمت وصول کر کے اب اس مل کو کون بےوقوف چلاتا۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ میاں صاحبان کی اس طرح کی بے شمار مالیاتی داستانیں اور ان کے کاغذات آج بھی خاکسار کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین کی نظر اس تک کیوں نہیں جاتی؟ تو کیا پھر معاملہ وہی ہے ناں کہ ہمارا سیاسی طبقہ اشرافیہ آپس میں ملا ہواہے، یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ’درست الزام‘ نہیں لگائیں گے تاکہ ان میں سے ہر فریق کا کام چلتا رہے اور ان کے ووٹرز ایک دوسرے سے لڑتے رہیں؟

Comments

Click here to post a comment