ہوم << ہمیں آئینی نہیں بنیادی حقوق چاہییں - سعید الرحمن

ہمیں آئینی نہیں بنیادی حقوق چاہییں - سعید الرحمن

سعید الرحمن یونیورسٹی کے چند طلبہ ایک جگہ اکھٹے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ قریب سے ایک اور طالب علم وہاں آیا اور ان کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا کہ تم لوگ یہاں کس بات کی خوش گپیوں میں مصروف ہو، پاکستان نے ہمارے خطے کو 69 سالوں سے آئینی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے، اور جتنا فائدہ اٹھا رہا ہے، اتنا ہمیں نہیں دیتا، اس کے الفاظ پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ دوسرے نے کہا کہ صحیح بات ہے، گلگت بلتستان میں معدنیات اور قیمتی جواہر کے ذخائر زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں آئینی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ اس علاقے سےگزر کر پاکستان میں داخل ہو کر اس کو سیراب کرتا ہے مگر ہمیں اس کے بدلے کچھ نہیں مل رہا۔
یہ خدشات اور اعتراض اس وجہ سے ہے کہ گلگت بلتستان کو ایک پیکج کے تحت چلایا جارہا ہے جس کے مطابق صوبائی اسمبلی 32 ممبران پر مشتمل ہے، دیگر صوبوں کی طرح یہاں کا بھی وزیر اعلی ہے، اس کے علاوہ چیف سیکرٹری بھی ہوتا ہے جو دراصل پورے صوبے کے معاملات چلاتا ہے، لیکن ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے. اسمبلی ممبران سے کوئی کام نہیں ہوتا، بس سردیوں میں حکومتی خرچے پر اسلام آباد جا کر عیاشیاں کرتے دن گزارتے ہیں۔ وزرا ء کو اپنے حلقہ جات کی کوئی فکر نہیں ہوتی جیسے دوبارہ ان کو وہاں سے انتخابات میں حصہ نہیں لینا۔ سبھی ایسے نہیں ہیں کچھ بہترین اور اچھے وزراء بھی گلگت بلتستان اسمبلی کا حصہ ہیں جو نہ صرف اپنے حلقے پر توجہ دے رہے بلکہ دیگر حلقہ جات میں بھی عوامی مسائل کے حل کے لیے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بجلی کا مسئلہ شروع دن سے سردرد بنا ہوا ہے، ستمبر کے مہینے سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ہردن اضافہ کیا جاتا ہے، جیسے تیسے دن گزرتے ہیں بجلی بھی یہاں کے کوگوں کے لیے نایاب ہوتی جاتی ہے، اور جب دسمبر شروع ہوجاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس خطے میں کبھی بجلی آئی ہی نہ ہو، لوگ بھی ایسے سوئے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بجلی کے اس شدید بحران میں بھی یہاں لوگ اس کے لیے کبھی سڑکوں پر نہیں نکلتے کیونکہ ہمارے معاشرے میں چند سرکاری لاڈلے بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں، اب عوام کو بجلی ملے یا نہ، ان لاڈلوں کے گھروں میں ایک منٹ کے لیے بھی بجلی نہیں جانی چاہیے۔گلگت بلتستان میں ویسے سردیاں اکتوبر سے اپریل تک ہوتا ہے اور اس طویل سردیوں کے موسم میں بجلی میسر نہ ہو تو سوچیے کس اذیت اور کرب سے اس خطے کے لوگ گزر رہے ہونں گے۔ سردیوں میں بجلی کی اتنی کمی کی جب وجہ پوچھی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ بھیا پانی کی کمی کی وجہ سے مشینیں زیادہ نہیں چلائی جاسکتیں، اس لیے ایک ہی مشین چلا کر بجلی پوری کی جا رہی ہے. یہ کہہ کر محکمہ برقیات والے عام لوگوں پر احسان بھی جتانے لگ جاتے ہیں اور عوام بھی اتنی سادہ ہے کہ ان کی باتوں پر یقین کرلیتی ہیں۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں بھی بجلی کی آنکھ مچولی کم نہیں ہوتی۔ گرمیوں میں نالوں کے پانی کی مقدار ذیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی پاور ہاوس کے پائپ پھٹ جاتے ہیں یا پھر پانی میں مٹی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے مشین بند کرنی پڑتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، جب بھی بارشیں ہوتی ہیں، بجلی اس لیے بند کردی جاتی ہے کہ کہیں کوئی شارٹ سرکٹ نہ ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے نئے بجلی گھر بھی تعمیر کیے جاتے رہے ہیں مگر لوڈشیڈنگ کا بھوت ہے کہ کنٹرول ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ امیر وں کے لیے سپیشل لائنیں لگاکر چوبیس گھنٹے ان کو بجلی مہیا کی جاتی ہے مگر غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دسمبر کے مہینے میں اکثر سکولوں کے سالانہ امتحانات کا آغاز ہو جاتا ہے، بجلی کی اس آنکھ مچولی سے طلبہ امتحانات کی تیاری بھی ٹھیک سے نہیں کرپاتے۔
گلگت بلتستان کے دارلحکومت میں عوام کوپینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔گرمیاں ہوں یا سردیوں کا موسم، کنوداس،جٹیال سکوار جیسے علاقے تو پانی کے لیے ترستے رہ جاتے ہیں،گرمیوں میں پانی ملے گا مگر وہ آلودہ ہوگا۔گرمیوں میں ندی نالوں میں پانی کے ساتھ مٹی بھی ملتی ہے جس کی وجہ سے وہ پانی پینے لائق نہیں ہوتا مگر حکومت کی طرف اس پانی کو صاف کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا اور ان علاقوں کے غریب لوگ یہ پانی پی کر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ سردیوں میں تو ندی نالوں میں پانی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور کئی ندیوں میں تو پانی بالکل سوکھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے علاقے میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ پانی کے اس قلت کوختم کرنے کے لیے اب تک حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آیا اور مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کے مسائل کے حل نہیں ہوں گے۔ ان علاقوں کے لوگوں کے گھروں میں روزانہ ایک بار ایک یا دو گھنٹوں کے لیے پانی آجاتا ہے جس سے یہ لوگ پینے کے لیے پانی اکھٹا کر کے رکھ لیتے ہیں مگر گلگت بلتستان جیسے خطے میں جہاں سے پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ بہتا ہے، وہاں کے شہریوں کے لیے ہی پینے کے لیے صاف پانی نہیں ملتا۔ ان علاقوں کے لوگ کئی مرتبہ اپنے حلقوں کے منتخب وزراء کے پاس جاتے ہیں تو سوائے جھوٹے وعدوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، اس لیے ان لوگوں نے ان وزراء کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لے دے کرکچھ این جی اوز اس مسئلے کے حل کے لیے کام کر رہی ہیں مگر یہ لوگ بھی اپنی اپنی کمیونٹی میں کام کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ این جی اوز بھی تعصب کی عینک سے دیکھیں گی تو عوام کا خدا حافظ ہے۔
قارئین ! 70 کی دہائی کی بات ہے، جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں گلگت بلتستان کو گندم پر سبسڈی دی جانے لگی، جس کے نتیجے میں اس علاقے کے لوگوں کو آٹا بہت کم قیمتوں پر ملنے لگا۔ یقینا ذولفقار علی بھٹو کی یہ بہت بڑی مہربانی تھی جسے اس خطے کے لوگ کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے مگر جب سے گلگت بلتستان میں آئینی حقوق اور صوبے کی بات کی جانے لگی ہے، موجودہ پیکج کے تحت صوبے کا درجہ دینے کے بعد وفاقی حکومت نے گندم سبسڈی کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس اقدام کا جب عوام کو پتا چلا تو سڑکوں پر نکل آئے اور دھرنے دے کر سبسڈی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا جس کو حکومت نے تسلیم کیا اور ابھی تک سبسڈی پر گندم دی جا رہی ہے مگر اس کی مقدار میں کمی کی گئی ہے۔ اتنا سب کرکے صوبائی حکومت کا دل بھرا نہیں تھا کہ گلگت بلتستان میں ٹیکس کے نفاذ کی باتیں ہونے لگیں۔ کہا گیا ہے کہ اب جب صوبائی سیٹ اپ دیا گیا ہے تو قانونا اس خطے میں بھی ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے۔ جس خطے کو وفاق خود متنازعہ قرار دے چکا ہے، وہاں ٹیکسز کا نفاذ ممکن کیسے ہے، اگر ٹیکسز کا نفاذ کرنا ہی تھا تو گلگت بلتستان کو باقاعدہ پاکستان کاآئینی صوبے بناتے، پھر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی۔ مگر یہاں یہ بات سمجھنے سے بالاتر تھی کہ ٹیکسز کے نفاذ کا خیال ہی وفاق کو کیوں آیا؟
یہ ساری بحث دراصل یہ سمجھانا ہے کہ آئینی حقوق بڑی چیز ہے، دودھ پیتا بچہ اچانک نئی گاڑی مانگ لے گا تو کیا کوئی اس کو کوئی لاکھوں کی گاڑی خرید کے دے گا؟ کبھی نہیں ۔ٹھیک اسی طرح یہاں بھی سیدھے آئینی حقوق کی بات کرنا جیسے بچے کی گاڑی مانگنے کے مترادف ہے۔ ذرا سوچیے عام عوام کو آئینی حقوق سے کیا لینا دینا۔ ایک غریب کو تو زندگی پرسکون گزارنے کے لیے سہولیات چاہییں جس کی کوئی بات نہیں کرتا۔ الٹا طرح طرح کی نئی اصطلاحات کی ایجاد کرکے اس سادہ لوح عوام کو الجھن میں ڈال دیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان کی غریب عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی کیونکہ سہولیات کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ کچھ لوگ اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس خطے کی سادہ عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب اس کھیل کو ختم کر کے عوام کو ان سستی شہرت کے متلاشیوں کو بے نقاب کرنا چاہیے ۔