ہوم << خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

آج بات کرتے ہیں خلفاء اور ان کے عجز و انکساری پر، انکی کفایت شعاری پر، ان کی خدا خوفی پر، انکے مخلوق کے لیئے سوچ رکھنے والی ذہنیت پر
بات شروع ہوتی ہے خلیفہ اول امام وقت خلیفتہ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے... آپ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت اڑھائی سالوں پر محیط تھا. اس دوران آپ رضی اللہ عنہ کے زیر کمان خطہ عرب سے ارتداد کے فتنوں کو کچل دیا گیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ کی بھیجی ہوئی فوجوں نے جزیرۃ العرب سے کذابوں کا خاتمہ کر دیا تھا اور زکوٰۃ کے منکرین کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے تھے، اسلام واپس اپنی آب و تاب کے ساتھ ویسے کا ویسے ہی عرب میں دوبارہ نافذ ہو گیا تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تھا، ناصرف عرب بلکہ آپ نے اپنی افواج یمن، عراق اور شام میں بھی بھیجیں جن کو دن دوگنی رات چونگی فتح و کامرانی نصیب آئی
خلیفتہ الرسول رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ حکم دیا کہ ان کو نئے کپڑوں کو دفن نا کیا جائے کیونکہ نئے کپڑوں پر زندہ مسلمانوں کا حق ہے، اس کی بجائے خلیفتہ الرسول رضی اللہ عنہ کو پرانے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے، آپ رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور آپ کو پرانے کپڑوں میں ہی دفن کیا گیا
وفات سے قبل خلیفتہ الرسول نے اپنی بیٹی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا کہ "میری بیٹی میں خدا کے حضور اس حال میں نہیں پہنچنا چاہتا کہ میرے ذمے مسلمانوں کا مال ہو، میری موت کے بعد میری اونٹنی کو بیچ کر ملنے والی رقم خلیفہ کو بھجوا دینا تاکہ ان دو سالوں میں میں نے بیت المال سے تنخواہ کی مد میں جو رقم لی اسکو لوٹایا جا سکے" ام المومنین نے ایسا ہی کیا. جب رقم امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی تو آپ اتنا روئے کہ داڑھی تر ہوگئی اور بار بار یہ کہتے رہے "ائے ابوبکر اللہ آپ پر رحم کرے، آپ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیئے کوئی گنجائش نا چھوڑی"
خلیفہ ثانی، امام وقت امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب عراق کے بعد ایران اور شام کے علاقے فتح ہوتے گئے تو مال غنیمت کی مد میں مسلمانوں کے پاس دولتوں کے انبار لگنے لگے، مدینہ میں دولت کی ریل پیل ہونے لگی لیکن امیر المومنین تنگ دستی کی زندگی ہی گزارتے، وہ نمود و نمائش اور ظاہری دیکھ رکھ پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ہر چیز کا حساب اللہ کے حضور دینے سے ڈرتے تھے
دورِ خلافت عمر تھا، جمعہ کا دن تھا، لوگ مسجد میں جمع ہونا شروع ہوئے لیکن امیر المومنین جنہوں نے خطبہ دینا تھا، جماعت کروانی تھی وہ کہیں نظر نہیں آرہے تھے، انکو آنے میں دیر ہوگئی، کچھ دیر میں وہ تشریف لے آئے، لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ میں خدا کا خوف نہیں؟ دیر کیوں لگائی؟
امیر المومنین بولے "خدا کی قسم میرے پاس اور کُرتا ہوتا تو وہ پہن کر آجاتا، یہی تھا، اسکو دھو کر سوکھنے کے لیئے ڈالا اور پھر پہن کر آیا اس لیئے دیر ہوگئی" اور لوگوں نے دیکھا کہ اس کُرتے پر بھی آٹھ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے
جب اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو بیت القدس میں فتح نصیب فرمائی تو وعدے کے مطابق امیر المومنین شہر کی چابیاں لینے کے لیئے خود قدس تشریف لے گئے، اور وقت اس بات کا شاہد ہے کہ وہ امیر المومنین جن کے رعب و دبدبے سے عرب و عجم کانپتے تھے کوئی سرکاری وفد لے کر نا گئے بلکہ اپنے ساتھ اپنے غلام حضرت اسلم کو ساتھ رکھا، آپ کی سواری بھی بس ایک خچر تھی جس پر کبھی غلام سوار ہوتا تو کبھی امیر المومنین
قدس کی سرحد پر پہنچے تو مسلمان وفد امیر المومنین کو لینے کے لیئے پہلے سے موجود تھا، جب وفد نے دیکھا کہ امیر المومنین کی سواری بھی عام سی ہے اور کپڑے کی عام سے ہیں تو تجویز پیش کی کہ سواری اور کپڑے تبدیل کر لیئے جائیں تاکہ کفار پر رعب و دبدبہ قائم کیا جا سکے، امیر المومنین نے تاریخی جملہ کہا کہ "ہم پہلے ذلیل و خوار تھے پھر اللہ نے ہمیں اسلام سے نوازہ، اسلام کی بدولت ہمیں عزت نصیب ہوئی، اب اگر ہم کسی اور چیز کے ذریعے عزت تلاش کریں گے تو ذلیل ہو جائیں گے"
ہماری کتب احادیث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ، سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدنا حسن المجتبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں بھی ایسی ہی روایات سے بھری پڑیں ہیں
امام وقت اور چھٹے خلیفہ راشد امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ منسب خلافت ملنے سے پہلے شہزادوں کی سی زندگی گزارنے کے عادی تھے، وہ جو خوبشو لگا کر کہیں سے گزرتے تو کئی پہروں بعد بھی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ یہاں سے عمر بن عبدالعزیز گزرے، کپڑے خریدنے کے لیئے جب خادم کو بھیجتے تو حکم کرتے کہ دکان پر موجود سب سے مہنگا کپڑا لے کر آنا... ایسا شہزادہ جب منسب خلافت پر بیٹھتا ہے تو زندگی میں بلکل بدلاو آجاتا ہے
اپنی اور اپنے رشتہ داروں کے نام سبھی جاگیریں بیت المال میں جمع کروا دی جاتی ہیں، بنو امیہ کے پاس جس دولت کے انبار لگ گئے تھے وہ لے کر واپس بیت المال میں دے دیتے ہیں، آپ بھی سنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی تنخواہ اتنی ہی رکھواتے ہیں جتنی ایک مزدور کی ہوتی ہے، آپ ذاتی استعمال کے لیے ایک جوڑا رکھ لیتے ہیں باقی سب بیت المال کے سپرد کر دیتے ہیں
ایک مرتبہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپ کی بیٹیاں آپ سے بات کرتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتیں، جب اس مد میں آپ نے سوال کیا تو بیٹیوں نے کہا "ابا آپ جو خرچہ لیتے ہیں اس سے ہم صرف پیاز کے ساتھ ہی روٹی کھا سکتے ہیں" امیر المومنین یہ سن کر رو دیئے اور کہا کہ بچو ادھر صبر کر جاو تاکہ اگلی دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے مجھے رسوا نا ہونا پڑے
عید قریب آئی تو امیر المومنین نے بچوں نے نئے کپڑوں کی ضد کی، آپ کے پاس اتنی رقم نا تھی کہ نئے کپڑے خریدے جا سکتے، آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہا کہ اگر وہ آپ کو ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دیں تاکہ بچوں کے کپڑے سل سکیں تو خزانچی نے کہا رقم مل جائے گی اگر آپ لکھ دیں کہ اگلے ماہ آپ زندہ رہیں گے اور کارِ خلافت انجام دیتے رہیں گے
یہ تو تھی خلافت راشدہ جو کہ بلکل نبوت کے طریق پر تھی اور جس کو ہم سب دوبارہ واپس چاہتے ہیں، اب بات کرتے ہیں وڈے دانشوروں کی ممدوح جمہوریت کے بارے میں
یہاں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والا نواز شریف اپنی تقریب حلف برداری کے لیئے کروڑوں کی شیروانی سلواتا ہے، یہاں کا صدر جس کو پہننے کا ڈھنگ نہیں لاکھوں کے ملبوس زیب تن کرتا ہے، یہاں وزیر اعظم اپنا کھانا منگوانے کے لیئے خصوصی طور پر ہیلی کاپٹر روانہ کرتا ہے، یہاں کا وزیر فرماتا ہے کہ کرپشن پر ہمارا حق ہے، یہاں کرپشن کرنے والوں سے حساب مانگنا جرم ہے، باعث تذلیل ہے، یہاں زرداری جیسا کرپشن کا بے تاج بادشاہ جب وعدہ کر کہ مکر جاتا ہے تو کہتا ہے قرآن حدیث تو نہیں تھا جو پورا نہیں ہوا، یہاں مخالفوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کر کہ ووٹ لینے والے انہی کے ساتھ ظہرانے اڑاتے ہیں
میاں... آپ کی ہمت کیسے ہوئی ان دو نظاموں کا آپس میں موازنہ کرنے کی اور پھر موازنے کے بعد جمہوریت کو بہتر کہنے کی، افیم کی ڈلی چوس لی آپ نے یا پکوڑوں میں بھنگ ڈال کر کھانا آپ کا مشغلہ ہے، یا پھر آپ سڑک کنارے بھنگ والی سردائی پی کر لکھتے لکھاتے ہیں؟ مشورہ یہی ہے کہ سستے نشے یا کسی بھی قسم کے نشے کو فلفور ترک کریں، تاریخ کی مسخ شدہ روایات پڑھنے کی بجائے کتب حدیث پر آئیں، آپ کو اصلی خلافت وہیں سے مل جائے گی
تحریر: فاروق الخطاب

Comments

Click here to post a comment