ہوم << ایسی عادت جس پہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی رہی - سید ثمر احمد

ایسی عادت جس پہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی رہی - سید ثمر احمد

سید ثمر احمد یاروں کی مجلس سجی ہو۔ اجلی سفید چادر خوش نظر غالیچے موجود ہوں۔خوش گپیاں چل رہی ہوں۔ کڑاہی گوشت دستر خوان کی زینت بن چکا ہو۔ رائتہ سلاد خوبصورت سجاوٹ کے ساتھ موجود ہوں۔ سافٹ ڈرنکس سلیقے سے آراستہ ہوں۔ اڑتی بھاپ مست مہک چہار سو پھیلا رہی ہو۔ لیموں کا چھڑکائو گوشت کو لذیز تر بنا رہا ہو۔ اور …پہلا ٹکڑا منہ میں رکھتے ساتھ ہی واااااااااااہ ہ ہ ہ، کیا ااااااا بات ہے، مزہ ہی ی ی ی ی آگیاجیسے نعرہ ہائے تحسین بلند ہورہے ہوں اور مجلس آہستہ آہستہ مزے دار ی کے عروج تک پہنچ چکی ہو۔…… ایسے میں آپ کے ایک دوست اپنی انگلی کو اکڑائیں اور اٹینشن حالت میں عروج کی طرف لے جاتے ہوئے ’نوزی‘ کے ایک نتھنے میں گھسا دیں۔ پھر اس کی ڈوئی بناکے پورے’ مکان ‘کی تلاشی لیں۔ جگہ کی کمی کے باعث’ ڈوئی ‘ کی حرکات باآسانی ملاحظہ کی جاسکیں۔ چور کو ’کونے کونے‘ میں تلاش کیا جائے اور پھر واپسی پہ ’گرد و غبار‘ اور ’لیکوڈ‘ کی کئی انچ تک کھِچتی لکیر پیروی میں’مبارک‘ سفر طے کرتی نظر آئے۔پھر اس شکاری(انگلی) کا ’اوپرا‘ حصہ گھما کے اپنی آنکھوں کی طرف موڑا جائے ، دیکھا جائے کیا شکار ہاتھ آیا ہے۔پھر وہ انگلی مطلوبہ شکار کوحاصل کرنے؍ نہ کرنے کی صورت میں سفید اجلی چادر یا قالین یا کپڑوں کے کسی حصے پر ’لوٹنیاں‘ لیے رہی ہو۔ تو…سچ بتائیے کھانے کا لطف دوبالا ہوگا کہ نہیں؟
یہ کوئی افسانہ نہیں، خام خیالی نہیں، تراشیدہ ’گھَٹنا ‘نہیں، لفاظی کا کھیل نہیں، ایک عام بات ہے، ایک عام عادت ہے۔اتنی عام عادت کے روز مرّہ بھی کہا جاسکے۔ ہم کتنے ہی لوگ دیکھتے ہیں جو سب جہان کو گواہ بناتے ہوئے پورے ’خشوع و خضوع‘ سے اپنی اس خدمت میں جْتے نظر آتے ہیں۔ یہ حضرات اس معاملے میں بازار، بس، گھر، محفل، جلوت، خلوت، صحن، واش روم سب کو برابر پہ رکھتے ہیں۔یہ ان کی عادت بن چکی ہوتی ہے۔
عادت آسان لفظوں میں اس چیز کو کہتے ہیں جو لاشعوری طور پہ بھی ہوتی چلی جائے۔ جیسے کسی کا کندھے جھکا کے چلنا، ناخن کاٹنا، بالوں میں بار بار ہاتھ پھیرنا وغیرہ۔ لطف یہ ہے کہ مندرجہ بالا منظر کَشی اگر انہی کے سامنے کی جائے تو دعوت کا مزہ ان کا بھی کِرکِرہ ہوا کہ ہوا۔ ہم نے کئی ’مہذب ‘ لوگوں کو بھی اس ’کارِ خیر‘میں ملوث دیکھا، جو ناک میں ایک ’ذرے‘ کو بھی ’قتل‘ کیے بغیر چھوڑنے کے حق میں نہیں۔ اور جب ’شکار‘ ہاتھ لگتا ہے تو ان کے بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی انگوٹھے کے ساتھ مل کر اْس کو اِس بری طرح مسلتی ،دباتی اور پٹختی ہے کہ بے چارے کے کَس بل نکل جاتے ہیں۔ اور ’مرنے‘ کے بعد خشک یا تَر ’شکار‘ کی ’ممی‘ کسی صوفے کے پیچھے ،کسی کرسی کے نیچے،کسی شلوار کے ابتدائی حصے یا قمیض کی الٹی طرف اپنا ’انمٹ نقش‘ چھوڑ جاتی ہے۔ بعضوں کو اسی مسلتی تڑپتی ’لاش‘ کو دیکھتے رہنے کا بھی شوق ہوتا ہے۔کچھ بائیں کے ساتھ اپنی چھنگلیا اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو بھی میدان میں اتارنے ماہر ہیں۔
اگر انہیں کسی طرح یہ محسوس ہی ہوجائے کہ ہماری پاکیزہ ناک شریف میں کچھ غیر ضروری عناصر نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔ تو بے چینیاں ان کی سرکوبی کے لیے فوراََ سے پہلے کروٹیں بدلنے لگتی ہیں۔ ان کے ہاتھ خود بخود مقامِ مطلوب تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہونے لگتے ہیں…ہم نے کئی دفعہ ایسے مناظر اپنی ناپختہ آنکھوں میں محفوظ کیے ۔ کئی بار کِہ دیا ، کئی بار لحاظ نے ہمارے اندرونی ماحول کی ایسی تیسی پھیر دی۔ یوں ہم یہ تحریر لکھنے پہ مجبور ہوئے۔
’شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت یہ تحریر پڑھیں ۔ آپ کو منہ میں کھانے کے سوا بھی کوئی چیز چبتی ہوئی محسوس ہوگی ۔ اگر یہ عادت آپ میں ہے اور آپ اسے مفید اور ایسی پرکشش عادت سمجھتے ہیں جس سے آپ کی فیس ویلیو اور معاشرتی قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا ہے تو بصد شوق جاری رکھیے۔ اور اگر پوری شخصیت ایک نہایت معمولی سی عادت کی وجہ سے دھڑام نظروں سے گر جاتی ہو تو واش روم حاضر ہے، تنہائی اختیار کیجیے۔
نوٹ: کوئی مضمون کو اپنے پہ نہ لے۔ لے بھی لے تو کوئی بات نہیں