ہوم << نواز شریف اور عمران خان دونوں احتساب سے بھاگ رہے ہیں-انصار عباسی

نواز شریف اور عمران خان دونوں احتساب سے بھاگ رہے ہیں-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
چاہے نواز شریف ہوں یا عمران خان یقین کر لیں کہ احتساب کے نام پر صرف سیاست ہو رہی ہے۔ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے دعوے بھی سب دکھلاوا اور سیاسی چالیں ہیں۔ ورنہ جب عمل کا وقت آتا ہے تو سب اپنے کہے سے بڑی آسانی سے پھر جاتے ہیں اور عوام کا حال یہ ہے کہ کوئی نوٹس بھی نہیں لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں احتساب کا ایک ایسا نظام جو بغیر کسی ڈر اور خوف کے ہر کرپٹ کو پکڑے، اُس کے لیے نہ کوئی کوشش کر رہا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے سیاستدانوں کا مقصد ہے۔ تمام تر سیاسی چالوں اور ایک دوسرے کے خلاف دائو پیچ کا مقصد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا یا اُسے اپنے لیے محفوظ بنانا ہے۔ویسے تو وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل اُن سے اور اُن کے خاندان سے شروع کریں۔ عمران خان صاحب بھی کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں کیوں کہ اُن کے پاس تو چھپانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔
رہی بات آصف علی زرداری صاحب کی تو وہ کہتے ہیں کہ اُن کا احتساب بہت ہو چکا لیکن کچھ ثابت نہ ہوااور محض الزامات کی بنیاد پر انہیں گیارہ سال جیل میں گزارنا پڑے۔ کاش جو یہ سب کہہ رہے ہیں سچ ہوتا۔ لیکن حقیقت میں کوئی بھی احتساب کے حق میں نہیں۔ صرف دوسرے کے احتساب کی بات ہوتی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اُن کی سیاست کے لیے ایسا کہنا اور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کا یہ ڈرامہ نجانہ کب تک جاری رہے گا۔ اگر سچ جاننا ہے تو عوام کو چاہیے کہ صرف یہ دیکھ لیں کہ الیکشن کمیشن میں کیا ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور کچھ دوسری سیاسی جماعتوں نے پاناما لیکس کی بنا پر الیکشن کمیشن کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے ریفرنس دائر کیے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا ئے گئے۔ اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کے پاس عمران خان کی نااہلی کا ایک ریفرنس دائر ہے۔ ان ریفرنسوں میں ان رہنمائوں کو کرپشن، ٹیکس چوری، اثاثہ جات چھپانے اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ ن لیگ والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے خلاف الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ عمران خان کی ایمانداری پر تو کوئی ویسے ہی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ جو یہ کہتے ہیںاگر سچ ہے، اگر سب اپنے آپ کو احتساب کے سامنے پیش کرنے کے لیے واقعی تیار ہیں، اگر اُن کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے ذریعے ان دونوں رہنمائوں کے پاس سنہری موقع ہے کہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو جھوٹا قرار دلوائیں۔ زرہ سنیے کہ ہو کیا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ کے اوائل میں خان صاحب کے وکیل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور سوال یہ اٹھا دیا کہ الیکشن کمیشن تو ایسے معاملات کو سننے کا قانونی اختیار ہی نہیں رکھتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے خان صاحب کے وکیل کو بولا کہ ایک طرف تو تحریک انصاف وزیر اعظم کے خلاف کمیشن کے سامنے ریفرنس دائر کر کے مطالبہ کرتی ہے کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جائے لیکن دوسری طرف عمران خان کے خلاف ایسے ہی ایک ریفرنس کے متعلق یہ قانونی نقطہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کمیشن کے پاس تو اختیار ہی نہیں کہ اس معاملہ کو دیکھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل جب الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو اُنہوں نے بھی الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اس ریفرنس کو تو کمیشن سن ہی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم کے خلاف دائر ریفرنس کے سلسلے میں حکومتی وکیل نے بھی یہی کہا اور سوال اٹھا دیا کہ الیکشن کمیشن تو یہ معاملہ سن ہی نہیں سکتا۔ یعنی دونوں ن لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے رہنمائوں کی نااہلی کے لیے تو قانونی طور پر الیکشن کمیشن کو جائز ادارہ سمجھتے ہیں لیکن جب اپنے اپنے رہنما کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو یہ اختیار ہے ہی نہیں۔
اور پھر جو میاں صاحب نے کہا تھا کہ میں احتساب کے لیے تیار ہوں اور جو عمران خان نے کہا تھا کہ احتساب اُن سے شروع کرو کیوں کہ اُن کے پاس تو چھپانے کو کچھ ہے ہی نہیں، اگر وہ سب سچ تھا تو پھر یہ چھپنا کیسا، الیکشن کمیشن کے اختیار کو ہی چیلنج کرنے کی کیا وجہ، جو دوسروں کے لیے پسند کرتے ہو اپنے لیے کیوں ناجائز سمجھتے ہو۔ جو لوگ جانتے ہیں اُن کے مطابق اگر ن لیگ اور میاں نواز شریف فیملی کے لیے پاناماپیپرز کے متعلق معاملات نازک ہیں تو عمران خان صاحب کے ٹیکس اور آف شور کمپنی کے مسائل بھی کچھ آسان نہیں جبکہ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی گڑبڑہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر احتساب سے بھاگنے کا کیا جواز ہے۔ کیسوں کا سامنا کرو اور مخالفین کو جھوٹا ثابت کرنے کے اس موقع کو ضائع مت کرو۔
اگر تکنیکی اور قانونی بہانہ بازی پر زور رہا تو پھر ہمارے نظام میں کسی کرپٹ کو سزا مل ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کو درست کرنے کی بات کیوں نہیں ہو رہی، اس کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے۔ سب کچھ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے کے سامنے ہونے کے باوجود ہمارے اداروں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو خود بخود کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے معاملات میں بغیر کسی سیاسی دبائو کے میرٹ کے مطابق کرپٹ کو پکڑے اور اسے سزا دے چاہے اُس کا تعلق حکومت سے ہو، اپوزیشن سے یا کسی اورادارے سے۔ یہاں تو تکنیکی بنیادوں پر ہی ایک ہر کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو قانون، قا عدے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ مشکوک اور کرپٹ لوگوںکو بچ نکلنے کا موقع مل جائے۔ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے سب نعرہ تو لگاتے ہیں، اپنے اپنے پارٹی منشور میں بھی بات کرتے ہیں لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست صرف کرسی کے حصول کی جنگ بن کر رہ گئی ہے۔