کورٹ میں آئے دن کئی کیسز قتل یا اقدام قتل کے ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کے مجرم پر کالا جادو کا اثر تھا یا ملزم کالے جادو کے ذریعے قتل میں ملوث تھا۔
عدالت کیونکہ ایسی بعید از عقل باتیں نہی مانتی، اس لیے کہا جاتا ہے کہ عدالت یا قانون اندھا ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ غلط فیصلے کرتا ہے بلکہ ان ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے جو اس کو دکھائے جاتے ہیں۔
ان سارے کیسیز کا جائزہ لیا جائے اور حقیقت معلوم کی جائے تو سوائے چند گھٹیا مگر چالاک دماغ کی سازش کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
جادو کی حقیقت :
کسی بھی طرح کا جادو چاہے وہ کپڑے پر کیا گیا ہو، ہانڈی پر ہو یا گڑیا پر کہ جس کا ہاتھ مروڑیں تو وکٹم کو اثر ہو۔ اس کی کوئی خاص حقیقت نہیں، اکثر یہ وہم اور گمان ہوتا ہے۔ کئی بابے اور روحانی عامل جھاڑ پھونک کے ذریعے جسمانی علاج کرتے ہیں۔ وہ سب Acupunctureist ہوتے ہیں جو کہ جسم کی ساری نسوں کو اور پریشر پوائنٹس کو جانتے ہیں۔
کچھ لوگ تحریر پڑھ کر ممکن ہے سوچیں کہ قرآن میں جادو کا ذکر ہے، اور یہ کہ جادو برحق ہے۔ مجھے اس بات سے ہرگز انکار نہیں، جادو کا اثر ہو سکتا ہے مگر یہ مذموم اور شنیع فعل ہے، اور قرآن میں اس کا استعمال مذمت کے معنی میں ہے. سورہ البقرہ میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ جادوگر زوجین اور دوستوں میں جدائی اور عداوت کا جادو کرتے یا لوگ کرواتے۔ مگر یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ اثرات ہوتے بھی تھے یا نہیں۔ اس بات کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت کے معاشرے کی ذہنی گراوٹ کتنی تھی۔
سورہ طحہ میں فرعون کے دربار جادوگروں کا موسیٰ علیہ السلام کے حق میں اپنی ہار ماننا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کے عصا کا ناگ بن جانا وہم یا گمان نہیں، حقیقت ہے، اور آیت کے مطابق جو کہ جادوگروں کے جھوٹ کو نگل رہا تھا۔
ہاروت و ماروت کا اﷲ کی طرف سے بنی اسرائیل پر نزول اس لیے ہوا کہ وہ بد بخت قوم اس وقت کے نبی سلیمان علیہ السلام کو نہیں مانتی تھی بلکہ اپنی اخلاقی گراوٹ کے سبب جادوگروں کے جال میں تھی۔ اسی لیے ان فرشتوں کو جادوگر کا روپ دے کران کا نزول ہوا کہ شاید ان کی بات سن کر ﷲ کی طرف رجوع کریں۔
علم النفسیات کا عمل دخل :
میرے حساب سے زیادہ تر وکٹم ہی مجرم ہوتا ہے یا پھر ان کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ہوتا ہے جو کہ بڑھاوے کا سبب بنتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس پر جادو کیا گیا ہے تو اس پر اثر کیسے ہوجاتا ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جب اس کو معلوم پڑتا ہے کہ اس پر جادو ہوگیا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے بدخواہ یا دشمن کا تصور کرتا ہے۔ اور پھر اپنے دل میں اس احساس کو پختہ کر لیتا ہے کہ اب تو اس کے ساتھ برا ہونا ہی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ جب جادو وغیرہ کا سامان اپنے گھر سے پاتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ خود کو اس وقت مضبوط کرلے تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سانپ کا ڈسا اگر اپنے حواس بحال رکھے اور فرسٹ ایڈ لے، اور آدھے گھنٹے میں ڈاکٹری مدد حاصل کرلے یا زہر نکال لے تو بچ جاتا ہے، حتیٰ کہ گولی لگنے والا بھی بچ سکتا ہے، اگر اوسان خطا نہ کرے اور خود کو ڈاکٹری مدد آنے تک سونے نہ دے، تو ایسے لوگ جانبر ہو سکتے ہیں۔
اکثر شادی شدہ جوڑے جو جادو کے ذریعے طلاق یا جدا ہوتے ہیں، اس میں جادو تو کروایا جاتا ہے، لیکن اصل کام گھریلو معاملات یا حالات اور لوگ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے حالات بنادیتے ہیں کہ دل پھٹ جاتے ہیں اور زوجین \دوستوں وغیرہ میں بدگمانی بڑھ کر جدائی کا سبب بن جاتی ہے۔ بسا اوقات قتل تک ہو جاتے ہیں۔ گھر اور شاپنگ مالز وغیرہ کا ویران ہونا وغیرہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ اس پر کسی اور وقت لکھوں گی۔ اگر بات کو سمجھیں تو جادو محض hypnosis ہے۔ اور اس hypnosis سے خود اعتمادی کے ساتھ لڑا جاسکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے