ہوم << کشمیر، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے - خورشیدہ رحمانی

کشمیر، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے - خورشیدہ رحمانی

قدرت نے کشمیر کو جنت نظیر بنایا ہے. یہی وجہ ہے کہ کشمیرکا تروتازہ، صحت بخش موسم و آب و ہوا، صاف و شفاف چشمہ ہائے پُر بہار سب کو بے حد عزیز ہیں۔ اللہ نے اس خطۂ زمین کودریاؤں، وادیوں، خوبصورت مرغزاروں اور قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کو جنت نظیر اور باغ سلیمان کہتے ہیں جبکہ ہنود اس کو زمین کا سر اور آنکھیں کہتے ہیں۔ دور دور سے سیاح اس کے خوبصورت مرغزاروں چشموں اور دریاؤں کو شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ کشمیر کے علاقوں میں جموں، لداخ، اسکرود، پرگنات اور چلاس وغیرہ شامل ہیں جہاں ہندو، پنڈت ، ڈوگری اہل سنت والجماعت اور اہل تشییع آباد ہیں۔
کشمیر کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے بھی پرانی ہے۔ یہ 1337ء سے لے کر 1818ء تک یعنی پونے پانچ سے زائد صدیوں تک مختلف ادوار میں مسلمانوں کے قبضے میں رہا ہے۔ اس دوران ہندؤوں اور چک خاندان کی وجہ سے کشمیر ریاست کو دو دفعہ اسلامی اقتدارسے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ راجہ رینچن ( صدر الدین )، سلطان شمس الدین شاہ میر ، سلطان جمشید ، سلطان علاؤ الدین، سلطان شہاب الدین ، سلطان قطب الدین ،سلطان سکندر اور سلطان علی شاہ وغیرہ اس دور کے مشہور حکمران رہے ہیں۔
مغلیہ دور حکومت میں کشمیر نے بہت سی بہاریں دیکھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد جب مغلیہ حکومت زوال پذیر ہوئی تو کشمیر میں بھی اس کا بہت برا اثر پڑا۔ کشمیری باشندوں میں فرقہ واریت اور خانہ جنگی شروع ہوگئی جس پر ایک خود مختار حکومت قائم ہوگئی۔ اسلامی تشخص برقرار رکھنے کے لیے کشمیریوں کی دعوت پراحمد شاہ ابدالیؒ یہاں آئے اور صورتحال پرقابو پاکر کشمیر فتح کرلیا۔ 1818ء کے بعد اسلامی اقتدار ختم ہوگیا اور کشمیر سکھوں کے ہاتھ چلاگیا۔ اس دوران وہ کشمیریوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے رہے۔ 26 سال بعد ایک جنگ میں انگریزوں سے شکست کے بعد انہوں نےریاست ان کے حوالے کردی جو انگریزوں نے ایک سازش کے تحت نیلام کرکے ڈوگروں کو بیچ دیا- حکومت اسلامیہ کے خاتمہ کے 27 سال بعد سے 1947 تک کشمیر ڈوگروں کے قبضے میں رہا۔
کشمیر پاکستان بننے کے بعد سے اب تک پاک بھارت تنازعے کا شکار ہے۔ اس دوران پاک بھارت کے درمیان کئی خونریز جنگیں ہو چکی ہیں۔ تا حال ہر ایک کشمیر کو اپنا خطۂ ارض ہونے دعوی کرتا ہے ۔
بھارت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی بے بنیاد واقعے کو کشمیر اور پاکستان سے جوڑ دیتا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف ایک سرد جنگ جیت سکے۔ وہ کبھی 1995 ء میں کشمیر کے پہاڑوں سے مغربی سیاحوں کی گمشدگی کو کشمیر کے ساتھ منسوب کرکے اس کو بدنام کرتا ہے، کبھی غلط اطلاعات دے کر دو تنظیموں کو آپس میں کشت وخون کرواتا ہے توکبھی اڑی حملے کو بنیاد بنا کر معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ عینی شاہدین اگر ان رازوں کو فاش کرے تو عسکریت پسندی اور شدت پسندی کا لیبل لگا کر انہیں گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ بھارتی درندے لوگوں کو اس وقت تک اذیت دیتے رہتے ہیں جب تک ان حملوں اور واقعوں میں ان کے ملوث ہونے کو تسلیم نہ کروالیتے حالانکہ ان کا حقیقی واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب ان حملوں اور سازشوں سے پردہ ہٹتا ہے تو بھارت سمیت سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
1999ء میں انڈین ائیر لائن کے طیارے آئی سی 841 کے ہائی جیک ہونے والے معاملے میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے 'را' کے ایک افسر نے واجپائی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسافر بردار طیارے کو اڑا دے۔ جب یہ قوم اپنے ہم وطنوں سے وفا نہیں کرسکتی، مسافر ہونے کی صورت میں ان کے اور وطن میں موجود ان کے عزیز و اقارب کا خیال نہیں رکھ سکتی تو پاکستان اور کشمیر کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ تو بھارتی سفاکیت کے کچھ چہرے سامنے نظر آئے ہیں ورنہ اس ریاست میں نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو منظر عام پر آنے سے ان کی درندگی مانع ہے۔ بھارت کو پاکستان کی آزادی 69 سال پہلے بھی نہیں بھائی تھی نہ اب اور کبھی وہ اس کو پاکستان کا حق سمجھیں گے۔ وہ کشمیر سمیت پاکستان کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے اہم معاہدوں کو توڑنے میں وہ باک نہیں کرتے۔
کنٹرول لائن اور سرحدی محاذات پہ بات بے بات جنگی ہنگامے کھڑا کرنا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ جنگ و پیکار کے ہنگامے برپا کرنے شوقین جارحیت پسند بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی پر جب پاکستانی فوج کی طرف سے منہ توڑ جواب ملتا ہے تو بھارتی میڈیا اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہرزہ سرائی کرتی ہے جس سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ بلاجواز پے در پے حملے کرے تو ان کو کچھ نہ کہا جائے پاکستانی فوج سوئی رہے۔
پاکستان چھ دہائیاں مکمل کرنے کے بعد ساتواں عشرہ پورا کرنے والا ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے عوام و خواص امریکی سامراج ، یو این او اور اقوام متحدہ کی فائلوں پر نظر جمائے بیٹھے ہیں کہ قراردادیں منظور ہونے والی ہیں، اب مسئلہ کا حل ہوا چاہتا ہے، فائل اور ڈاکومنٹس دستخط ہوکر بند ہونے والے ہیں ۔
مگر یہ پوری دنیا کو ایک معمولی سا وار ایریا سمجھتے ہیں جہاں وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی مدد سےاستعماریت کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں ـ وہ نہ پاکستان کا ہے نہ بھارت کا۔ عالمی یہودی استعمار کی گھناؤنی سازشوں کے تحت بھارت اب تک انگریزوں کا مہرہ بنا ہوا ہے۔ وہ افغانستان جیسے دوسرے خطوں میں قبضہ جما کر چین ، بھارت ، افغانستان،ایران وغیرہ پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔
تاریخ کے پس منظرمیں جھانک کر دیکھا جائے تو کشمیری مسلمانوں نے اس وقت بھی مسلمان حکمرانوں کا خیر مقدم کیا تھا، کوئی بھی اس خطے کو قبضہ کرنے کے ارادے سے آیا تو انہوں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے جوان، بزرگ، خواتین، بچے اور نوجوان قربان کیے۔ آج بھی وہ مسلمانوں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ کشمیری عوام نظریاتی اور جغرافیائی مماثلت کی بنا پر پاکستان کے ساتھ مدغم ہونا چاہتی ہے۔ اب کشمیری عوام میں پاکستان اور عالمی یہودی استعمار سے مایوسی کے بعد خود مختار ریاست کا نظریہ جنم لے رہا ہے۔
پاک بھارت کبھی کبھی مفاہمت اور دوستی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی بات کرتے ہیں ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو نہ بھولیں کہ ہے چھری ان کے بغل میں اور منہ میں رام رام کے مصداق بھارت جس کو پاکستان پہلے دن سے ایک آنکھ نہیں بھایا وہ اس مفاہمت اور دوستی میں ہندو مسلم منافرت ور پاک بھارت مخاصمت کو نظر انداز کردیں گے۔ دوستی مفاہمت مذاکرات اور باہم گفتگو اچھی چیز ہیں، اس پر عمل در آمد ہونا چاہیے اور پاکستانی حکمرانوں کو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی فرصت میں کشمیر کا مسئلہ حل کروانا چاہیے مگر بھارت چونکہ ہزاروں معاہدوں کے باجود اپنی پرانی روش پر اتر آتا ہے تو منافرت و مخاصمت کے تاریخی اسباب کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کا حل بظاہر ممکن نہیں چار و ناچار اس کا حل یہی نکلتا ہے کہ اقوام متحدہ ، یو این او اور اس کے ذیلی اداروں کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز رہے.. ورنہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے..!!

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment