یہ پہلا حقیقی سیاسی معرکہ تھا جو عمران خان کو درپیش ہوا۔کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکے؟
28 اکتوبر تمام سیاسی کرداروں کے لیے یومِ حساب تھا۔ تحریک انصاف نے 28 اور 29 اکتوبر کو 2 نومبر کے آخری معرکے کے لیے عوام میں تحریک پیدا کرنا تھی۔ انہی دنوں میں یہ طے ہونا تھا کہ فیصلہ کن مرحلے پر تحریکِ انصاف کی کامیابی کا کتنا امکان ہے۔ اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو متحرک کرنا تھا۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک عامی بھی جانتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت جس شہر میں قوت کا مظاہرہ کرتی ہے، اس کی کامیابی کا انحصار اصلاً اس شہر کے شرکا پر ہوتا ہے۔ باہر سے نسبتاً کم لوگ آتے ہیں۔ ان دو دنوں میں یہ معلوم ہو جاتا کہ کتنے لوگ اصل معرکے میں بھی شامل ہوں گے۔ اس بار تحریکِ انصاف کو پہلی بار ریاست کی قوت کا سامنا کرنا تھا۔
دھرنا ایک مختلف عمل تھا جس میں ریاست نے مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ لوگ اپنے کام کاج نمٹا کر، سرِشام تیار ہوتے اور پنڈال کا رخ کرتے‘ جیسے کسی میلے میں چلے ہوں۔ نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص اس اجتماع میں ایک کشش تھی۔ شام ڈھلتے ہی جب میڈیا کی تیز و تند روشنیوں میں رنگ برنگے پیرہن اور توانائی سے بھرپور نوجوانوں کا جوش و خروش سماں باندھ دیتا تو ابرارالحق ہی کا نہیں، سب کا عمران خان کے جلسے میں ناچنے کو جی کرتا۔ دوسری طرف عمران خان صبح جاگتے، حسبِ معمول گھنٹہ بھر ورزش کرتے، من پسند ناشتہ کرتے، جو میڈیا کے شکریے کے ساتھ لوگ براہ راست دیکھتے اور ان کے منہ میں پانی آ جاتا۔ پھر وہ تیار ہوتے اور رات کے آغاز کے ساتھ جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوتے جہاں چاہنے والوں کے نعرے ان کا استقبال کرتے۔ رات ڈھلنے لگتی تو وہ اپنی آرام گاہ کا رخ کرتے۔ میڈیا لمحہ بہ لمحہ عوام کو اس سرگرمی میں شریک رکھتا۔ اس بارصورتِ حال مختلف تھی۔ اب امکان تھا کہ پولیس کی لاٹھیاں، وفعہ144 اور بند راستے ان کا استقبال کریں گے۔ کسی سیاسی جماعت اور لیڈر کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ ایسی مخالفانہ فضا میں وہ کس حد تک اپنی سخت جانی اور عوامی تائید کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
حکومت کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ریاست کی انتظامی صلاحیت اُس عوامی قوت پر قابو پا سکتی ہے، جس کا دعویٰ تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ اسے یہ بتانا تھا کہ عمران خان اب ایسے مقبول بھی نہیں ہیں کہ ان کے کہنے پر لاکھوں لوگ پولیس کی لاٹھیاں کھانے پر تیار ہوں۔ اگر وہ 28 اکتوبر کو محض ایک شہر کی پولیس کی مدد سے ایک جلسے کو ناکام بنا سکتی ہے تو 2 نومبر کو ایک بڑی قوت کے ساتھ بڑے مظاہرے پر بھی قابو پا سکتی ہے۔ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس معرکے کی خاموش فریق تھیں۔ انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ حکومت کو زچ کرنا تنہا عمران خان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا، ان کی مجبوری ہے۔
اس ابتدائی معرکے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ راولپنڈی میں جلسہ نہیں ہو سکا۔ لوگوں کی بہت کم تعداد گھروں سے نکلی حالانکہ اس شہر کے دونوں حلقے عمران خان اور شیخ رشید نے جیتے ہیں۔ عمران خان گھر سے نکل ہی نہیں پائے۔ شیخ رشید نے ایک ڈرامائی منظر پیدا کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں گرفتار کیا جائے مگر انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ سب چینلز نے دکھایا کہ انہوں نے بھرے بازار میں ناشتہ کیا‘ اور شام کو کئی ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیے۔ میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ میرا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ مری روڈ کے علاوہ پورے شہر میں حسبِ معمول سرگرمیاں جاری تھیں۔ مری روڈ کے کئی متبادل فراہم کر دیے گئے تھے۔ تحریکِ انصاف شہر کی زندگی کو متاثر نہیں کر سکی حالانکہ اب سڑکوں پر اتنا رش ہوتا ہے کہ پچاس افراد یہ کام باآسانی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے 29 اکتوبر کا اسلام آباد شہر کا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ گویا 2 نومبر کے لیے ٹیمپو بنانے کا سارا عمل معطل ہو گیا۔ یوں تحریکِ انصاف پہلے ہی امتحان میں ناکام ثابت ہوئی۔
27 اکتوبر کو اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کی جو گرفتاریاں ہوئیں، اس پر عمران خان نے جمعہ کو ملک گیر احتجاج کی اپیل کر رکھی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس اپیل کا کیا انجام ہوا۔ جتنا احتجاج ہوا ہے، وہ حسب توقع ہوا ہے۔ اس بات کا کون انکار کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک قابلِ ذکر بلکہ اب تو وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے؛ تاہم اس واقعے سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس کی تنظیمی صلاحیت اور عوامی تائید اتنی نہیں ہے کہ وہ ریاست کو معطل کر دے‘ جیسا کہ اب عمران خان خیال کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ واقعہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ہوتا تو وہ اس سے کہیں موثر ملک گیر احتجاج کرتی۔
اس معرکے میں عمران خان ذاتی طور پر بھی متاثر نہیں کر سکے۔ چند سو کارکن رات بھر بنی گالہ میں پڑے رہے۔ انہوں نے اپنے تین سو کنال کے گھر کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھولا۔ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ رات کو باہر آتے اور کہتے کہ وہ یہ رات کارکنوں کے ساتھ گزاریں گے۔ وہ شب بھر ان سے غیر متعلق رہے۔ کاش وہ خواتین ہی کو اندر آنے کی دعوت دیتے۔ میں سوچتا رہا کہ ان کی جگہ اگر کوئی پاکستانی کلچر اور روایت سے واقف آدمی ہوتا تو اس کا رویہ کیا ہوتا؟ اگر چوہدری شجاعت ہوتے؟ اگر ان کارکنوں میں سیاسی حمیت ہوتی تو وہ فیض کی زبان میں یہ شکوہ تو ضرور کرتے: ؎
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
اس واقعے کے بعد عمران خان کے بارے میں میری وہ رائے پختہ ہوئی‘ جس کا میں اظہار کرتا رہا ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس لیے پیدا ہوا ہوں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں‘ میں کسی کے ساتھ محبت کرنے کا پابند نہیں ہوں۔
اس معرکہ میں حکومت کامیاب رہی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی۔ حکومت نے یہ ثابت کیا کہ عمران خان کی سیاسی قوت اتنی نہیں جو ریاست کے لیے چیلنج بن سکے۔ سیاسی جماعتوں نے لاتعلق رہ کر عمران خان کو پیغام دیا ہے کہ ان کی مدد کے بغیر وہ تنہا حکومت نہیں گرا سکتے۔ عوام نے بھی بتا دیا کہ وہ عمران خان کے موقف کی تائید کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کے احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتے۔ وہ زندگی کو مفلوج کرنے کے حق میں نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ 'تھرڈ امپائر‘ کی مدد کے بغیر حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں۔
عوام نے عمران خان کی احتجاجی سیاسی کو مسترد کر دیا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام نے انہیں مسترد کیا ہے۔ وہ چاہیں تو اب بھی اپنے طرزِ سیاست کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کا پہلا انتخاب بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے لیکن انہیں ایک بار پھر واپسی کا راستہ چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس بار ان کی مدد کو موجود ہے۔ وہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں جلسہ کریں‘ اور یہ کہیں کہ وہ آئین اور عدالت کے احترام میں اسلام آباد کو بند کرنے کے پروگرام سے دست بردار ہو رہے ہیں لیکن کرپشن کے خلاف جدوجہد سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے۔ تحریکِ انصاف کے کارکن اور رہنما اس باب میں عوامی شعور بیدار کرتے رہیں۔ یوں وہ ایک ڈیڑھ سال کی محنت سے، اسے 2018ء کے انتخابات کا مرکزی نکتہ بنا دیں۔ ساتھ وہ کے پی کو اپنی اصلاحی کوششوں کا مرکز بنائیں۔
عمران خان کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ اس میں کامیابی کا امکان احتجاج سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کی سیاست ملک کے لیے تو نقصان دہ ہے ہی، ان کے لیے بھی سیاسی خود کشی ہے۔ اس کا اندازہ انہیں 28 اکتوبر کے واقعات سے ہو جانا چاہیے۔ یہ راستہ لیکن وہ اس وقت تک اختیار نہیں کر پائیں گے جب تک شیخ رشید جیسوں کی فکری راہنمائی سے باہر نہیں نکلتے۔ انہیں باشعور لوگوں کے مشورے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے اپنے ہی ہاتھوں، ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی بربادی ایک قومی المیہ ہو گی۔
تبصرہ لکھیے