خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد جامعہ ازہر میں خلافت کانفرنس بلائی گئی تھی جسے انگریزوں نے احیائے خلافت کے سدباب کے لیے سبوتاژ کردیا۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے شریف مکہ حسین بن علی نے جب اپنے لئے خلیفہ کا لقب استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کے آقا برطانیہ نے اسے انتباہ کیا کہ نہیں خلیفہ نہیں، تم صرف کنگ (بادشاہ) ہو گے۔ یوں برطانوی کٹھ پتلی حسین بن علی نے بادشاہ کہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
شریف مکہ کے بعد شاہ عبدالعزیز نے بھی برطانوی سامراج کی ناراضگی سے بچنے کی وجہ سے خلافت کے بجائے بادشاہت (مملکت) پر اکتفا کیا، اور یوں 653ء سے چلی آنے والی خلافت عثمانیہ 1924ء میں ہمیشہ کے لیے ختم کردی گئی۔
سوال یہ ہے کہ لفظ خلافت مغرب پر کیوں کوہ گراں بن کر گرتا ہے؟ اس میں پوشیدہ آخر کیا ہے، جس نے عالم مغرب کو اس سے دشمنی، بغض اور نفرت پر آمادہ کیا ہے۔
اگر اس سوال کا حل ہم اپنے ماضی میں تلاش کرنا چاہے تو جواب ملتاہے کہ:
جب خلافت زندہ تھی تو مسلمان حاکم تھے اور مغرب محکوم تھا۔
جب خلافت زندہ تھی تو مسلمان فاتح بن کر عزت سے جی رہے تھے۔
وسیع تر اسلامی مملکت
جب خلافت زندہ تھی تو اسلامی سلطنت کی وسعت کا عالم یہ تھاکہ خلافت عثمانیہ 2 کروڑ 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط تھی،جس میں یورپ کا 35 لاکھ 43 ہزار662 مربع کلومیٹر علاقہ،ایشیاء کا 57 لاکھ 29 ہزار 285 مربع کلومیٹر علاقہ اور افریقہ کا 1 کروڑ 37 لاکھ 27 ہزار 464 مربع کلو میٹر علاقہ شامل تھا۔مشرق میں انڈونیشیا ،مغرب میں مراکش،جنوب میں نائجیریا،چاڈ اور کینیا اور شمال میں یورپ کے اندر یونان ،مقدونیہ ،البانیہ ،کوسوو، مونٹی نیگرو، سربیا، بوسینیا، ہرزیگوونیا۔ کروشیا، ہنگری ،رومانیہ، بلغاریہ، یوکرین اور ایشیاء میں عراق اور ارمینیا وسیع عثمانی خلافت کی سرحدیں تھی۔ایران کی صفوی سلطنت، ہندوستان کی مغل بادشاہت اور سمرقند و بخارا اور خوارزم کی ریاستوں کے علاوہ پوری امت مسلمہ ایک خلیفہ کےایک پرچم کے تحت جمع تھے۔
مسلمانوں کا رعب و دبدبہ
جب خلافت زندہ تھی تو دنیا بھر میں اسلام کا وقار اور دبدبہ قائم تھا حتی ٰ کہ ملکہ الزبتھ عثمانی خلیفہ کو شکریے کے خطوط لکھا کرتی تھی۔دنیا بھر کے حکمران اور بادشاہ عثمانی خلیفہ کا دم بھرتے تھے۔جب خلافت زندہ تھی تو بحیرہ روم بلاشرکت غیرے مسلمانوں کے قبضے میں تھا، جس نے عیسائی دنیا اور یورپ کو سمندر سے بے دخل کردیا تھا۔عیسائی طاقتوں کی بحری نقل و حرکت صرف ساحلوں تک محدود ہوگئی تھی۔مکمل تین صدیوں تک مغرب سمندری رابطوں سے محروم رہا۔(Hennery’s .A History of Europe=95)
مؤرخین لکھتے ہیں کہ صلیبی عہد میں مصر اور شام پر عیسائی قبضہ اسی بحیرہ روم کے طفیل ہی ممکن ہوا تھا جس سے عثمانیوں کے ہاتھوں انہیں محروم ہونا پڑا۔
مغرب کی کسمپرسی
اورجب خلافت زندہ تھی تو اسلام کے عروج کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف 15ویں صدی عیسوی میں عیسائیوں نے اگرسپین پر واپس قبضہ کیا تو دوسری طرف اس کی جگہ اس سے کہیں بڑا رقبہ مشرقی یورپ سے نکل کر عثمانیوں کے پا س آچکا تھا۔اسی طرح تقریبا ایک ہزار سال تک مغربی معاشرہ مسلم دنیا سے محصور ہی رہا،جس میں مغرب شدید سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور مذہبی دباؤ کا شکار رہا۔بحیرہ روم کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پوری دنیا سے یورپ کا رابطہ کٹ گیا تھا۔ہنری لکھتے ہیں کہ مغرب بنیادی طور پر ایک تجارتی معاشرہ تھا۔لیکن بحیرہ روم کے زوال نے اسے شدید نقصان پہنچا دیا۔تجارت کے خاتمے کے باعث مغرب کیلئے سیاسی ادارے قائم رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔(ایضاً 77) فوج،سینٹ،عدلیہ، سول سروسز،تعمیرات اور بلدیہ غرض ہر ادارہ تحلیل ہو گیا تھا۔(ایضاً 110 تا 115)
متحد مسلمان اور منتشر مغرب
اورجب خلافت زندہ تھی تو اہل یورپ اس قدر انتشار کا شکار ہو گئے تھے کہ چوتھی صلیبی جنگ بجائے مسلمانوں کے خود مشرقی مسیحی دنیا سے لڑی گئی۔صلیبی افواج نے1203ء میں قسطنطنیہ فتح کر ڈالا اور بد حواسی کے عالم میں اپنے ہی عیسائیوں پرقتل وغارت گری کا ایک طوفان برپا کیا۔(ایضاً 194)
عیسائیت پر اسلام کے گہرے سائے
اورجب خلافت زندہ تھی تو دنیائے عیسائیت میں اسلام کے اثرات اس قدر پھیل چکے تھے کہ عام افراد سے لے کر پادریوں تک اسلامی فکر ،اسلامی عقائد ، اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت سے مرعوب اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔لوگ مسلمانوں کی چیزیں اور ان کا رہن سہن اپنانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔سسلی کے نارمن حکمران فریڈرک ثانی نے مسلم اثرات کے سبب ہمیشہ پوپ سے ٹکر لی۔فرانس کے ہنری نے پوپ کے خلاف کئی باراقدام کیا۔یورپ میں کلیسا کےخلاف بار ہا بے چینی پھیلی۔عوام کلیسا سے دور رہنے لگے۔پائٹزم(Pietism) کے نام سے ایک تحریک اٹھی جن کا نعرہ تھا کہ کلیساکے بجائے آپ کا گھر آپ کی عبادت کا مرکز ہے۔حتیٰ کہ سی ایف گبن لکھتے ہیں کہ جنگ طورس میں اگر مسلمان جیت جاتے تو شاید اکسفورڈ کی درسگاہوں میں قرآن و حدیث کا درس جاری ہوتا۔(The decline and fall of Roman empire P=15)
تثلیث میں توحید کی آمیزش
اورجب خلافت زندہ تھی توعیسائیوں کے بنیادی عقیدے تثلیث میں مسلمانوں کے توحید ی عقیدہ نے تزلزل برپا کیا تھا۔لاکھوں عیسائی عقیدہ تثلیث پر معترض بن کرسامنے آئے۔حتیٰ کہ 13ویں صدی عیسوی میں عیسائیوں میں ایک ایسا فرقہ بھی وجود میں آگیا جو تثلیث کا بلکل منکر تھا۔انکے عقیدے میں وحدہ الوجود کی امیزش واضح چھلکتی تھی۔ایک اور فرقہ ارس(Arras) کے نام سے پیدا ہواجن کے نزدیک بپتسمہ بے فائدہ کام تھا۔ان کے مطابق نااہل پادریوں سے کوئی مقدس کام نہیں لیا جاسکتا۔چرچ سوائے پتھر کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں ۔صلیب انسانی ہاتھوں کی صنعت کے علاوہ اور کیا ہے؟(W. Stark. The sociology of Religion. P=322)
ان عقائد نے عیسائیت میں کھلبلی مچادی تھی۔ یہ اسلام کے اثرات ہی کا نتیجہ تھا کہ کلیسا کے خلاف تحریکوں میں شدت پیدا ہوئی۔مذہبی اصلاحات کے مطالبے ہونے لگے،کالون اور لوتھر نے سرے سے پوپ کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ آسمانی صحائف میں تحریف قبول کیا گیا۔تحریک اصلاح میں اسلامی عقائد کی چھاپ پوری طرح واضح تھی۔
عربی زبان کی حکمرانی
اورجب خلافت زندہ تھی تو عربی زبان بھی زندہ تھی۔مسلم فاتحین جہاں جہاں جاتے،عربی وہاں کی زبان بن جاتی۔مقامی زبانوں پر عربی کے اثرات کا مشاہدہ آج تک کیا جاسکتا ہے۔سیریائی ،یونانی اور لاطینی زبانیں عیسائیت کی علمی اور مذہبی زبانیں تھی۔جب تک یہ زبانیں رائج رہی وہاں کی ثقافت عیسائیت کے رنگ میں رنگی رہی۔تمام علوم ان زبانوں میں ہونے کی وجہ سے عیسائیت کے اثرات سے ڈھکے ہوئے تھے۔خلافت کے غلبے کے بعد عربی زبان نے ان زبانوں کی جگہ لی جس کی وجہ سے علم کے تمام شعبوں سے عیسائیت کی اجارہ داری ختم ہوئی۔زبان کی تبدیلی نے وہاں کی ثقافت بدل ڈالی اور وہاں اسلامی اثرات غیر شعوری طور پر پھیلنے لگے۔کلیسا اس صورت حال سے خاصی پریشان تھی۔عہد وسطیٰ کے ایک پرجوش ہسپانوی عیسائی لکھتے ہیں :
صدمہ تو یہ ہے کہ عیسائی خود اپنی زبان سے نابلد ہوگئے ہیں۔مشکل سے ہزار میں سے ایک ملے گا جو معمولی لاطینی میں اپنے کسی دوست کو خط بھی لکھ سکے۔لیکن عربی کی بات ہو تو بے شمار ایسے ہیں جو اپنے مافی الضمیر کا اظہار نہایت بلند پایہ انداز میں کرسکتے ہیں۔بلکہ ایسے اشعار بھی کہہ لیتے ہیں جو صحت اور اسلوب میں خود عربوں کے اشعار سے بہتر ہوتے ہیں۔(Quoted by :R Dozy. Spanish Islam. Translated by FG Stokes. P =268)
اسلامی تہذیب و ثقافت کا غلبہ
اورجب خلافت زندہ تھی تواسلامی ثقافت یورپ میں فخر کی علامت سمجھی جاتی تھی۔مغرب سے تاجر ، سیاح اور علماء و طلباء ہسپانیہ اور سسلی کا رخ کرتےاور واپسی میں یہاں کی تہذیب و ثقافت اپنے ساتھ لے جاتے۔آج بھی لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ہزاروں الفاظ عربی کے موجود ہیں۔ریاضی ،جیومیٹری سے لے کر میڈیکل وفارمیسی تک اور فن تعمیر و اسلحہ سازی سے لے کر سائنس تک اکثر علوم و فنون کے بنیادی اصطلاحات عربی زبان سے ماخوز ہیں،جو درحقیقت مسلمانوں ہی کے تخلیق کردہ تھے۔یہ سب اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ علم و ادب کے میدانوں میں بھی مسلم ثقافت نے مغرب کو پوری طرح متاثر کیا تھا۔
ایک ہسپانوی مؤرخ کاسترو (Castro) نے لکھا ہے کہ عورت کے نقاب سے لے کر فرش و قالین پر نشت کے آداب تک،شہسواری کی شائستہ روایات سے لے کر مہمان نوازی اوراپنے گھر کو مہمان کے حوالے کر دینے تک،خود بھوکا رہ کر اوروں کو کھلانے ،دست بوسی کا انداز سوال ،انکارکی صورت میں معذرت کے آداب ،یہاں تک کہ مسلم لباس خصوصاً زنانہ لباس سے شدید رغبت ، یہ سب وہ طورو طریقے ہیں جو بلا شک و شبہ اسلامی ثقافت سے اخذ کئے گئے تھےاور ہسپانوی عیسائیوں میں مسلمانوں کے بعد عرصے تک قائم رہے۔( A Castro. The structure of Spanish history. P=128)
مقدس رومن سلطنت کے شہنشاہ تخت نشینی کے وقت ایک خاص قسم کا عباء زیب تن کیا کرتے تھے۔اس عبا کا پورا حاشیہ عربی خطاطی سے مزین تھا۔(ایضاً 299 )اسی طرح جرمن شہنشاہوں کی عبا ئیں بھی عربی رسم الخط سے مزین ہواکرتی تھی۔
اسلامی سکے کی ترویج
اورجب خلافت زندہ تھی تو مغرب پر اسلام کے اثرات اس قدر بڑھ چکے تھےکہ وہاں رائج اکثر سکوں پر عربی رسم الخط اور حضرت محمد ﷺ کا اسم گرامی کند ہ ہوتا تھا۔برٹش میوزیم میں مرشیا(Mercia)کے عیسائی بادشاہ اوفا(Offa)کا ایک طلائی سیکہ مجریہ 774 محفوظ ہے۔یہ سکہ عربی دینار سے بیحد مشابہ ہےعربی رسم الخط میں ایک جانب اوفا کا نام اوردوسری جانب کلمہ طیبہ کندہ ہے۔(Museum No Pl 3 No 1) صلیبی جنگوں کے بعد مغرب میں جو اولین طلائی سیکہ بنایا گیا وہ 1249 تک عربی رسم الخط میں مضروب ہوتا رہا۔اس پر قرآنی آیت اور آپﷺ کا اسم گرامی منقش ہوتا تھا۔یہ سکہ انہوں نے فلسطین میں جاری کیا تھا تاکہ اس کے زریعے مسلمانوں سے تجارت کی جاسکے۔
مسلمانوں کی مضبوط ترین عسکری قوت
اور جب خلافت زندہ تھی تو اسلامی فوج کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طاقتور بحریہ سے عثمانی فوج نےٹیکس (جزیہ) وصول کیا۔ یہ امریکہ کی تاریخ کا واحد ٹیکس ہے جو اس نے مغلوب ہو کر کسی ملک کو دیا ہو۔ کریمیا کے والی کے ہمراہ عثمانی فوج جب 1571ء کو روس پر حملہ آور ہوئی تو کم ہی عرصےمیں روسی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ 24 مئی 1571 کو عثمانی فوجیں ماسکو میں داخل ہوئیں۔اس لڑائی میں 8 ہزار روسی فوجی مارے گئے اور 15 ہزار قیدی بنا لئے گئے۔ 1572 ء میں روس پر دوسرا حملہ ہوا جس کے بعد روس نے سالانہ 60 ہزار طلائی لیرے خراج دینا قبول کیا۔
اور کہانی ختم ہوگئی
اسلامی تاریخ کا یہ سنہری دور ،جس کی ابتداء ہجرت مدینہ کے متصلاً بعد ہوئی، 13 صدیوں کی کامیابی اور شادمانی دیکھنے کے بعد 3 مارچ 1923 ء کو ترک ناداں کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد سے امت مسلمہ پر بحثیت مجموعی تاریخ کا سب سے برا وقت گزر رہا ہے۔ ترک ناداں کی نادانی کے بعد آج یہ منتظر ہے، ایک ترک داناں کی جو زمام اقتدار ہاتھ میں لے اور ہم پر ہمارا ماضی واپس لوٹا دیں۔
تبصرہ لکھیے