ہوم << دہشت گرد مسلمان نہیں، تم ہو! عابد محمود عزام

دہشت گرد مسلمان نہیں، تم ہو! عابد محمود عزام

دہشت گردی دنیا کو درپیش خطرات میں سے ایک انتہائی بڑا اور مہیب خطرہ ہے، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک تباہیوں اور بربادیوں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ لاکھوں زندگیاں اس خونخوار عفریت کی نذر ہوگئی ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسلامی ممالک پر مغربی یلغار کی وجہ سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی لہر نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے، جس سے خصوصی طور پربعض مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے اور لاکھوں لاشیں اٹھانے کے بعد بھی امن و سکون اور استحکام عنقا ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو جھٹلانا آسان نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں بدامنی وخونریزی کی آگ کو اسلام کے نام پر بھڑکانے والے عسکریت پسندوں نے مغرب کی چھتری تلے جنم لیا ہے، مسلم ممالک میں دہشتگردی کی وارداتیں کرنے والے اگرچہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ان کی ڈوریاں اہل مغرب کے ہاتھ میں ہیں۔ مغرب کے پیسے اور اسلحے سے چلنے والی بہت سی عسکریت پسند تنظیمیں انھیں کے اشاروں پر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مشغول ہیں۔ مغربی ممالک نے اپنی جنگ کو مسلم ممالک میں دھکیل کر خود کو اس کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھا ہے، لیکن مکمل طور پر محفوظ وہ بھی نہیں رہ سکے۔ اسلامی دنیا میں لگائی گئی آگ کے شعلوں سے کسی نہ کسی حد تک تو آگ لگانے والوں کو بھی متاثر ہونا ہی تھا۔ مغرب کے مختلف ممالک میں کبھی کبھار دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا اسی آگ کے اثرات ہیں، جو مغرب نے مسلم ممالک میں لگائی ہے۔
ایک طرف تو اہل مغرب نے مسلم ممالک میں خونریزی کرنے والی جماعتوں کو سپورٹ کیا اور دوسری جانب افغانستان و عراق سمیت متعدد مسلم ملکوں میں بمباری کر کے بے گناہ مسلمانوں کا بے تحاشہ خون بہایا، جس سے بہت سے مسلم ممالک عدم استحکام کا شکار اور امن وسکون کو ترس گئے ہیں،لیکن اس سب کچھ کے باوجود کمال چالاکی کے ساتھ شاطر مغرب نے دہشت گردی کی ساری ذمے داری مسلمانوں پر ہی ڈال دی۔ داڑھی، حجاب اور شعائر اسلام کوبدنام کیا جانے لگا اور پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ اپنے ہی اشاروں پر رقصاں چند سر پھرے مسلم دہشت گردوں کی آڑ میں دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کرکے مسلمان کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کروائی گئی۔ حالانکہ بے گناہ لوگوں کا قتل کسی بھی ملک اور مذہب کا شخص کرے، وہ دہشت گردی ہی کہلاتا ہے، لیکن مغرب نے مسلمانوں کے حق میں ہمیشہ ناانصافی سے کام لیا اور دہرا معیار اپنایا ہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک، افغانستان سے لے کر عراق تک، شام سے برما اور یمن سے پاکستان تک لہو لہو اسلامی دنیا مغرب کی استعماری پالیسیوں کی تباہ ناکی کی داستان سنا رہی ہے۔ امریکا تین درجن سے زاید ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیں، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ پورے ملک میں کوئی ایسا انسان ملنا مشکل ہے، جس کے خاندان میں کوئی شخص امریکا کے ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنا ہو۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر ان کا ہی جینا حرام کر رکھا ہے، اسرائیل جب اور جہاں چاہے، امریکا سمیت عالمی بدمعاشوں کی سرپرستی میں کمزور فلسطینیوں پر بمباری شروع کردیتا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ کئی ماہ سے بھارتی فورسز کشمیر میں سفاکیت و درندگی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ بے گناہوں لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور باپردہ خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں 96 ہزار کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت پاچکے۔ برما میں بودھوں نے مظلوم مسلمانوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، ایسا کونسا ظلم ہوگا جو نہتے و مظلوم برمی مسلمانوں پر بدھسٹ دہشتگردوں نے نہ کیا ہو، آج بھی یوٹیوب پر برما میں مسلمانوں پر مظالم کی ویڈیوز پڑی ہیں، جن کو دیکھ کر پتھر دل انسان بھی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان حالات میں اگر مسلمان صرف اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتا ہے تو دہشت گرد قرار پاتا ہے۔
امریکا، افغانستان، عراق، وزیرستان میں حملے کر کے لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لے تو یہ دہشت گردی نہیں، لیکن اگر مظلوم مسلمان عوام امریکا کی درندگی کی مذمت کردیں تو یہ دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔ اگر اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرے اور بلڈوزر وں سے ان کے گھروں کو مسمار کردے تو یہ دہشت گردی نہیں اور اگر اس کے ردعمل میں نہتے فلسطینی پتھر اٹھاکر پھینک دیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ بھارتی فوجی کشمیری مسلمانوں کا قتل کریں، ان کی عزتیں نیلام کریں، ان کو آزادی سے بھی محروم کردیں تو دہشت گردی نہیں، لیکن اگر کشمیری عوام آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں توانہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ افغانستان، عراق، برما اور دیگر کئی مسلم ممالک میں ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے والے پر”امن“ اور یہ مظالم برداشت کرنے والے مسلمان ”دہشت گرد“ ٹھہرتے ہیں۔
ایک عرصے سے دنیا بھر میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کی لپیٹ میں صرف مسلمان ہی آتا ہے، حالانکہ دہشتگرد مسلمان نہیں، بلکہ مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والے خود دہشتگرد ہیں۔ اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے تو دنیا میں ہونے والی دہشتگردی میں مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والے ملوث رہے ہیں۔ خود یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول کے مطابق یورپ میں گزشتہ 5 برس کے دوران ہونے والے حملوں میں ملوث مسلمانوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے۔ ایف بی آئی نے 1980ءسے 2005ءتک امریکی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا مطالعاتی جائزہ لیا، جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ 94 فیصد حملوں کا ارتکاب غیر مسلموں نے کیا تھا۔ 42 فیصد حملے لاطینیوں سے متعلق گروپوں نے کیے تھے، جبکہ 24 فیصد حملوں میں بائیں بازو کے انتہاپسند گورے ملوث تھے۔ یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں۔ اگر انصاف کا دامن تھاما جائے تو یہ حقیقت واضح ہوسکتی ہے کہ دنیا میں زیادہ خونریزی کس نے کی ہے؟ انقلاب فرانس کے دوران میکس ملن رابسپیری نے 5 لاکھ سے زاید افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے 40 ہزار کو قتل کیا گیا اور دو لاکھ سے زاید کو بھوکا رکھ کر مارا گیا تھا۔ ہٹلر نے لاکھوں لوگ قتل کیے۔ جوزف اسٹالن نے 2 کروڑ افراد کو قتل کیا۔ مسولینی نے چار لاکھ افراد کو قتل کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں 3 کروڑ70لاکھ انسان ہلاک ہوئے اور 2 کروڑ 23 لاکھ 79 ہزار53 انسان زخمی ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں 6کروڑانسان ہلاک ہوئے۔ امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے نتیجے میں ایک لاکھ 66ہزار انسان ہیروشیما اور 80 ہزار ناگاساکی میں ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جانے والے ان کروڑوں انسانوں میں سے کسی کا بھی خون کسی مسلمان کی گردن پر نہیں ہے، لیکن پھر بھی دہشت گرد مسلمانوں کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ ”گلوبل ڈیٹابیس ٹیررازم“ کے اعدادوشمار کے مطابق اگر 1970ءسے 2007ءکے دوران پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طورپر دنیا بھر میں دہشت گردی کے87000 واقعات ہوئے، جن میں سے 2695 یعنی صرف 3 فیصد واقعات خود کو مسلمان کہلانے والے لوگوں نے کیے، جبکہ باقی 97 فیصد واقعات غیرمسلموں نے کیے، لیکن پھر بھی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، امریکیوں کی گردنوں پر بھی لاکھوں ریڈانڈینز کا خون ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہردہشت گردی کو مسلمانوں کے سرتھوپنا سراسر انصاف کا قتل ہے!

Comments

Click here to post a comment