ہوم << کیا بادشاہ رخصت ہونے والا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

کیا بادشاہ رخصت ہونے والا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

سائرس اعظم تاریخ کے عظیم ترین بادشاہوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جنوبی ایران سے تعلق رکھنے والے اس جنگجو بادشاہ کی سلطنت مشرق میں دریائے سندھ اور سرزمین ترکستان سے لے کر مغرب میں ساحل اناطولیہ اور خطہ یونان تک پھیلی ہوئی تھی۔ سائرس کو خورس، خورش، کیخسرو اور کوروش کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔ سائرس کی قبر ایک وسیع اور خاموش وادی پاسارگاد میں واقع ہے۔ فارس کے اس عالی مرتبت فرزند نے مرنے کے بعد زندگی کے شور سے دور پرسکون جگہ کا انتخاب کیا تھا۔
1970ء کی دہائی کی ایک صبح وادی پاسارگاد میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ ایک شاندار جشن شاہی منایا جانے والا تھا۔ سائرس کی قبر سے کچھ فاصلے پر ایک چبوترا بنایا گیا جس کے آگے ٹی وی کیمرے اور لائٹس نصب تھیں۔ اچانک پوری وادی ہیلی کاپٹر کے پروں کے شور سے گونجنے لگی۔ دروازہ کھلا اور ہزامپیریل میجسٹی شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی زرق برق لباس میں ملبوس اترے۔ شہنشاہ ایران نے وزراء کے جلو میں چبوترے کا رخ کیا اور سائرس کی قبر کی طرف منہ کرکے گونجیلی آواز میں گویا ہوئے،
”اے کوروش اعظم، اے بادشاہوں کے بادشاہ، اے ہخامنشی شہنشاہ، میں شہنشاہ ایران، فارس کا ایک فرزند، آپ کو پوری ایرانی قوم کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم آج آپ کی ابدی آرام گاہ کے سرہانے صرف یہ کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ اب آپ اطمینان کے ساتھ سو سکتے ہیں کیونکہ ہم بیدار ہوچکے ہیں۔“
یہ شاہ ایران کا نکتہ عروج تھا۔ مارچ 1950ء میں پاکستان کا پہلا دورہ کرنے والا محمد رضا شاہ جو امور مملکت جاننے اور سیکھنے آیا، اب دو عشروں بعد بزعم خود دنیا کا ذہین ترین حکمران بن چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا وارث اور امین ہے۔ امریکی اس کی پشت پر تھے اور عرب صحافی برملا شاہ کو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا پولیس مین قرار دیتے۔ شاہ کا دعویٰ تھا کہ میں نے ایرانیوں کو جدید اور مہذب دنیا سے روشناس کرایا ہے۔ میرے عوام کو وہ سب کچھ میسر ہے جس سے مغربی دنیا کے بہت سے باسی بھی محروم ہیں۔ شاہ ایران کو ایک دن سوجھی کہ ایرانی بادشاہت کو مزید قدیم بادشاہت بنایا جائے۔ اس نے کیلنڈر میں ایک ہزار اور پینتیس برسوں کا اضافہ کردیا۔ یہ عجیب و غریب اقدام ایرانیوں کی اکثریت کو نہ بھایا۔ آخر صرف سات برسوں بعد اسے منسوخ کرنا پڑا۔ شاہ کے سب سے بڑے حریف علماء اور لیفٹسٹ تھے اور وہ سب سے زیادہ خطرہ نوجوانوں سے محسوس کرتا تھا۔ وہ سوشلسٹ ممالک کے آہنی ڈسپلن اور تعلیمی اداروں پر ان کی مضبوط گرفت سے متاثر تھا۔ اس کے خیال میں امریکی اور یورپی ممالک کی درسگاہوں میں طالب علم محض گمراہ اور سرکش بنتے ہیں۔ جب آیت اللہ خمینی نے شاہ کے خلاف آواز اٹھائی تو اس نے انھیں جلا وطن کر دیا۔ شاہ کی حکومت کا خیال تھا کہ امام خمینی کی جبری جلاوطنی سے انہیں اپنی مرضی کا منظرنامہ ترتیب دینے میں آسانی ملے گی۔ باہر جاکر امام کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اب اعتدال پسند اور مغرب سے متاثر حلقے میں بھی ان کی آواز پہنچنے لگی۔ امام خمینی کے خط اور کیسٹیں ایران میں خفیہ طور پر مگر ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوتی تھیں۔
1978ء میں ایک دن اخبار میں امام خمینی کے خلاف ایک توہین آمیز مضمون شائع ہوا۔ اس قابل اعتراض تحریر نےگویا ایران میں آگ لگا دی۔ جلد ہی ہر گلی اور ہر کوچے سے مرگ برشاہ کی آواز آنے لگی۔ روزانہ جلوس نکلتے، پولیس کا لاٹھی چارج اور پھر گولیاں بھی مظاہرین کو نہ روک سکیں۔ روزانہ دو چار لاشیں گرتیں مگر جوش وخروش بڑھتا ہی رہا۔ 1978ء کے اواخر میں ایک امریکی اخبار نے رپورٹ چھاپی جس میں سی آئی اے کے ماہرین کا تجزیہ شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق ایران میں کہیں انقلاب ہے نہ آغاز انقلاب کے کوئی آثار۔ رپورٹ میں امریکہ کے ایک اور باخبر محکمے کی رائے بھی شامل تھی جس میں پیشین گوئی کی گئی کہ اگلے دس برس تک شاہ کو ایران سے کوئی مائی کا لال نہیں ہٹا سکتا۔ اس سے کچھ پہلے خود امریکی صدر جمی کارٹر کہہ چکے تھے کہ مشرق وسطیٰ کے پرشور سمندر میں ایران واحد پرسکون اور خاموش جزیرہ ہے جہاں تلاطم کے کوئی آثار نہیں۔
ادھر امریکی اور ایرانی حکومتی ماہرین کے تجزیوں سے بے نیاز ایرانی عوام مسلسل آگے بڑھتے گئے۔ چند ماہ کے دوران درجنوں حکومتیں بدلی گئیں، مگر حالات قابو نہ آسکے۔ اردو کے منفرد ادیب اور سابق بیورو کریٹ مختار مسعود اس وقت آر سی ڈی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ایران میں مقیم تھے۔ انہی دنوں مختار سعود کو شاہ ایران سے ایک ملاقات کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی کتاب ”لوح ایام“ میں اس ملاقات کی تفصیل یوں بیان کی:
”شہنشاہ مجھے حیران اور پریشان لگا۔ جس حکمران کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور گولی چلانے سے بھی قابو میں نہ آئیں، وہ حیران وپریشان ہی ہوگا۔ ذہن نے کہا، تم نے ایک ایسا شخص دیکھا ہے جو ساری عمر ایک جنگ یہ سمجھ کر لڑتا رہا کہ وہ دشمنوں کے خلاف ہے مگر اب یہ دیکھ کر حیران ہے کہ وہ تو خود اپنے آپ سے جنگ میں مصروف تھا۔ لوگ توقع رکھتے ہیں کہ جنگ میں شدت آنے والی ہے، حالانکہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ بادشاہ نے بادشاہت کو مات کر دیا ہے۔ رضا شاہ اپنے آپ کو شکست دینے میں کامیاب ہوچکا۔ دل ہی دل میں وہ ہار مان، ہتھیار پھینک اور ہاتھ اٹھا چکا ہے، مگر رسمی اعلان کرنے میں اسے تامل ہے۔ یہ تامل ہر ہارنے والے کو ہار ماننے سے پہلے ہوتا ہے۔ شکست کی بات دل سے زبان تک آنے میں کچھ وقت لے گی۔ اس وقت تک سڑکوں پر خون کی نجانے کتنی موٹی تہہ جم چکی ہوگی۔ یہ ناحق بہنے والا خون ہوگا“۔
آخر وہ دن آ ہی گیا۔ جنوری میں امریکی ترجمان کا بیان آیا، ”شاہ کے بہی خواہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ شاہ کو ملک چھوڑ کر چھٹی پر چلا جانا چاہیے.“ 16 جنوری کو دو بجے دن ریڈیو کی خبروں میں اچانک اعلان کیا گیا، ”شہنشاہ آج دوپہر ایک بج کر تیس منٹ پر تہران سے روانہ ہوگئے ہیں“۔ یوں ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت جس کا پہلا بادشاہ سائرس اعظم اور آخری بزعم خود محمد رضاشاہ پہلوی تھا، اپنے انجام کو پہنچی۔ شاہ ایران سے 29 سال حکومت کرنے کے بعد ایران کے عوام کے لیے قصہ پارینہ بن گیا۔
شاہ ایران کے زوال پر بہت کچھ لکھا گیا۔ درجنوں کتابیں شائع ہوئیں۔ ہزاروں صفحات کے اس مواد میں ایک برطانوی دانشور کے چند فقرے بڑے دلچسپ اور معنی خیز ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
”بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنے درباریوں اور خوشامدی ساتھیوں کے جلو میں گھر کر ملک و قوم میں برپا اضطراب نہیں دیکھ پاتے۔ ملک میں چپے چپے پر مایوسی اور نفرت رقصاں اور پورا سماج لاوے کے مانند کھول رہا ہوتا ہے، مگر عین اس وقت حکمران کے ساتھی اپنی دانست میں اپوزیشن کو شکست فاش دے کرفتح عظیم کے گیت گاتے نظر آئیں گے۔ ہر حاکم اپنے گرد آہنی فصیلیں قائم کرکے اپنی حکومت کو محفوظ اور دیرپا سمجھتا ہے۔ اس سے بےخبر کہ وہ فصیلیں کب کی زنگ آلود ہوچکیں۔ پھر ایک دن اچانک فصلیں مسمار ہو جانے پر حکمران کا واسطہ غیض وغضب سے بھرے عوام سے پڑتا ہے۔ اس وقت ذلت آمیز پسپائی اور رسوا کن شکست کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ کاش کہ حکمران پہلے یہ راز جان سکیں۔“
(ایک تحریر جو ایک زمانے میں لکھی گئی تھی، آج نجانے کیوں پھر یاد آگئی۔ دوستوں سے درخواست ہے کہ اسے تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن اور چار دیواری میں ہونے والے پرامن یوتھ کنونشن کو بےرحمی سے منتشر کیے جانے والے حکومتی اقدام کے پس منظر میں نہ پڑھا جائے۔ اس کہانی کو کسی بھی طرح دور حاضر کے عظیم مغل حکمران جناب عزت مآب میاں نواز شریف پر منطبق نہ کیا جائے۔ عالی جناب اور ان کے شاہی خانوادے کا اقتدار صدیوں تک قائم رہےگا۔ یہ مؤرخ ، دانشور یوں ہی جھک مارتے رہیں گے۔ یہ کہانیاں ماضی کے حکمرانوں کے لیے ہیں، ہمارے بادشاہ، ان کے خواجے، ڈار اور چھوٹو موٹو گینگ سب تادیر قائم رہیں گے۔ ان کا اقبال بلند ہو۔)

Comments

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment