ہوم << خوشی کا موسم - حسن تیمور جکھڑ

خوشی کا موسم - حسن تیمور جکھڑ

حسن تیمور ویسے تو سال میں چار موسم ہوتے ہیں جن کو موسم سرما، گرما، خزاں، بہار کے نام دیے جاتے ہیں لیکن ان رسمی ناموں سے ہٹ کر کہا جائے تو موسم صرف دو ہی ہوتے ہیں، ایک خوشی اور ایک غم کا۔ مؤخرالذکر ہمارا موضوع نہیں کہ یہ ایک ناپسندیدہ موسم خیال کیا جاتا ہے۔۔ بات کرتے ہیں خوشیوں کے موسم کی تو ہم اس کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔ خوشی کا موسم سےمراد وہ ایام ہیں جو اپنے ساتھ خوشیاں اورسکون لائیں اور بادی النظر میں موسم سرما اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ اس کی وضاحت بھی ہم کیے دیتے ہیں کہ اس موسم میں خواص کےساتھ ساتھ ”ہمیشہ کی دکھی“ عوام کو بھی تھوڑی سی خوشی میسر آ جاتی ہے۔ وہ کچھ یوں کہ پاکستان کےگرم مزاج موسم میں بہنے والے پیسنے سے جان تو چھوٹتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ بجلی اور پانی کی لوڈشیڈنگ میں بھی نمایاں کمی آ جاتی ہے. (یہ کمال ہمارے حکمرانوں کا نہیں بلکہ موسم کی تبدیلی سے کھپت میں ہونے والی کمی کا ہے) اور ہاں بجلی کے بلوں میں بھی خاطرخواہ کمی سونے پر سہاگے کے مترادف ہوتی ہے۔ اس موسم میں سنگل پسلی (ہمارے پیٹی بند بھائی) افراد بھی آئے روز کی طعنہ زنی سے کچھ عرصے کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں کہ ”تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں“ کے مصداق ان کا تہہ دار تہہ لباس ان کی ”عزت“ بچائے رکھتا ہے۔
یہ موسم عوام میں تو مقبول ہے ہی لیکن حکمران بھی اس کےگن گاتے نظر آتے ہیں کہ ایک تو یہ بجلی و پانی کی لوڈشیڈنگ سے ہونے والی روز روز کی ”عزت افزائی“ کچھ ریلیف ملتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ سرکاری ملازمین کی پسندیدہ عادت یعنی ”تنخواہ بڑھاؤ احتجاج“ کے سلسلے کو بھی کچھ عرصے کے لیے موقوف کرنے کا سبب بنتا ہے (کیوں کہ جون سردیوں میں نہیں آتا)۔
سردیوں کی ایک خاص بات اس کی ”حدود“ میں آنے والے تہوار بھی ہیں، ہیپی نیو ایئر جیسا عالمی تہوار جسےمنانے کے لیے پوری دنیا بےتاب ہوتی ہے، وہ بھی انہی سردیوں کی ہی سوغات ہے۔ ہیپی نیوایئر سے ذرا فارغ ہوتے ہی ایک اور عالمی تہوار بھی اسی موسم میں منتظر ہوتا ہے جسے ”ویلنٹائن ڈے“ یعنی اظہارمحبت کا تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تہوار ہے کہ جو بذات خود ایک موسم کا درجہ رکھتا ہے کہ جیسے بہار میں پھول کھل اٹھتے اورگلشن مہک اٹھتے ہیں، ایسے ہی اس موسم میں نوجوان جوڑے بھی پھول اور بھنورے کی مثالیں بنے نظر آتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے اپنی تمام تر مشکوکیات اور کچھ طبقوں کی (بالخصوص والدین ٹائپ مخلوق) ناپسندیدگی کے باوجود سردیوں کی ایک خاص سوغات کے طور پر موجود ہے۔ اس کےعلاوہ مقامی سطح پر جشن بہاراں میلہ بھی جاتی سردیوں کا تحفہ قرار دیا جاتا ہے۔ (وہ الگ بات ہے کہ لاہور میں وہ میلہ پورا کا پورا صرف نہر کے ایک چھوٹے ٹکڑے تک محدود رہتا ہے اور اسی وجہ سے عوام کے لیے خوشی کے بجائے عذاب بن جاتا ہے)۔
اس موسم کی خوشیاں تو بےشمار ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا خاصا جوکھم اور وقت طلب کام ہے لیکن جاتے جاتے ہم اس موسم کے ”متاثرین“ کا بھی تذکرہ کرتے جائیں۔ اس موسم کو چاہنے والے کروڑوں میں ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ وہ کون کافر ہوگا جو اس موسم کا اسیر نہ ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس حسین و لطیف موسم سے نہ صرف خائف ہے بلکہ کھلے عام اس موسم کے ”ڈی میرٹس“ پر مذاکرے کرتا بھی نظر آتا ہے۔ ان ”اہل میراث“ کے لیے یہ موسم کیوں ناپسندیدہ ہے، اس کی وجہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ اس موسم میں کیڑے نکالنے کے بجائے ”خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔۔۔“

Comments

Click here to post a comment