یہ موسم عوام میں تو مقبول ہے ہی لیکن حکمران بھی اس کےگن گاتے نظر آتے ہیں کہ ایک تو یہ بجلی و پانی کی لوڈشیڈنگ سے ہونے والی روز روز کی ”عزت افزائی“ کچھ ریلیف ملتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ سرکاری ملازمین کی پسندیدہ عادت یعنی ”تنخواہ بڑھاؤ احتجاج“ کے سلسلے کو بھی کچھ عرصے کے لیے موقوف کرنے کا سبب بنتا ہے (کیوں کہ جون سردیوں میں نہیں آتا)۔
سردیوں کی ایک خاص بات اس کی ”حدود“ میں آنے والے تہوار بھی ہیں، ہیپی نیو ایئر جیسا عالمی تہوار جسےمنانے کے لیے پوری دنیا بےتاب ہوتی ہے، وہ بھی انہی سردیوں کی ہی سوغات ہے۔ ہیپی نیوایئر سے ذرا فارغ ہوتے ہی ایک اور عالمی تہوار بھی اسی موسم میں منتظر ہوتا ہے جسے ”ویلنٹائن ڈے“ یعنی اظہارمحبت کا تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تہوار ہے کہ جو بذات خود ایک موسم کا درجہ رکھتا ہے کہ جیسے بہار میں پھول کھل اٹھتے اورگلشن مہک اٹھتے ہیں، ایسے ہی اس موسم میں نوجوان جوڑے بھی پھول اور بھنورے کی مثالیں بنے نظر آتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے اپنی تمام تر مشکوکیات اور کچھ طبقوں کی (بالخصوص والدین ٹائپ مخلوق) ناپسندیدگی کے باوجود سردیوں کی ایک خاص سوغات کے طور پر موجود ہے۔ اس کےعلاوہ مقامی سطح پر جشن بہاراں میلہ بھی جاتی سردیوں کا تحفہ قرار دیا جاتا ہے۔ (وہ الگ بات ہے کہ لاہور میں وہ میلہ پورا کا پورا صرف نہر کے ایک چھوٹے ٹکڑے تک محدود رہتا ہے اور اسی وجہ سے عوام کے لیے خوشی کے بجائے عذاب بن جاتا ہے)۔
اس موسم کی خوشیاں تو بےشمار ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا خاصا جوکھم اور وقت طلب کام ہے لیکن جاتے جاتے ہم اس موسم کے ”متاثرین“ کا بھی تذکرہ کرتے جائیں۔ اس موسم کو چاہنے والے کروڑوں میں ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ وہ کون کافر ہوگا جو اس موسم کا اسیر نہ ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس حسین و لطیف موسم سے نہ صرف خائف ہے بلکہ کھلے عام اس موسم کے ”ڈی میرٹس“ پر مذاکرے کرتا بھی نظر آتا ہے۔ ان ”اہل میراث“ کے لیے یہ موسم کیوں ناپسندیدہ ہے، اس کی وجہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ اس موسم میں کیڑے نکالنے کے بجائے ”خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔۔۔“
خوشی کا موسم - حسن تیمور جکھڑ

تبصرہ لکھیے