ہوم << اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ - ملک محمد بلال

اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ - ملک محمد بلال

جب سے اقتصادی راہداری کا ڈھنڈورا میرے ملک میں پیٹا گیا ہے، میں بہت خوش ہوں کیونکہ اب کسی بھی ”واردات“ پہ میں اپنے آپ کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں کہ چونکہ ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی منڈی کا حصہ بننے جارہے ہیں اور دشمن جسے شریکے کی وجہ سے یہ سب برادشت نہیں ہو رہا، اقتصادی راہداری کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے.
بے شک وہ مائیں جن کے بیٹے صبح روٹی کمانے نکلے تھے اور رات ان کے لاشے گھر پہنچتے ہیں، ایسے کسی بھی منصوبے کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتی ہیں، میں اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتا ہوں کہ پوری قوم اقتصادی راہداری کے توسط سے جب ترقی کے زینے چڑھنے جا رہی ہے تو کیا ہوا جو چند غریبوں کا لہو اس راہداری کے تارکول میں کام آگیا ہے،
بلکہ صرف میرا ہی نہیں میرے ملک کا مجموعی بیانیہ ہی یہ بات بن چکی ہے.
کراچی تا خیبر کوئی بم حملہ ہو، دہشت گردی کا واقعہ ہو، یا پھر کوئی خود کش حملہ، میڈیا کے سامنے سول و ملٹری بیوروکریسی ہو یا کوئی سیاسی شخصیت، رٹو طوطے کی طرح ایک ہی بیانیہ جاری فرمایا جاتا ہے چونکہ ہم ایک عدد سڑک بنانے جارہے ہیں، اس لیے امریکی، ایرانی اور بھارتی قوموں سے ہماری ترقی دیکھی نہیں جارہی، اس لیے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے ہیں.
ہمارے اس بیانیے پہ مجھے وہ غریب خاتون یاد آجاتی ہے جسے خاوند نے ساری عمر کی کمائی سے سونے کی انگوٹھی بنوا کے دی تو اس بیچاری کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا، وہ پہنتی تو اس کی انگوٹھی کے طرف لوگوں کا دھیان ہی نہ جاتا، اس دکھ کو صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے، جب کوئی اس کی ”جیولری“ کی تعریف نا کرے تو اس پہ کیا بیتتی ہے. اس خاتون نے انگوٹھی کے نمائش کا عجب حل یہ نکالا کہ اپنی واحد کُٹیا کو ہی آگ لگا دی، اب جو کوئی پرسہ دینے آتا، اسے انگوٹھی نکال کے دکھاتی کہ سب کچھ جل گیا ہے، بس یہی ایک انگوٹھی بچی ہے.
ہم پتہ نہیں کب سمجھیں گے کہ ریاست اہم ہوتی ہے نہ کہ اس میں بننے والی سڑکیں، جب ریاست میں آگ لگی ہو تو یہ سڑکوں کا لالی پاپ پاکستانی قوم کو ہی دیا جاسکتا ہے، کسی مہذب قوم کو نہیں، کیونکہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ امن عامہ قائم رکھنا ہوتا ہے نہ کہ سڑکیں بنانا کیونکہ مسلمہ اصول ہے کہ لوگوں کو امن میسر ہوگا تو وہ کاروبار کا سوچیں گے، کاروبار چلے گا تو لوگ تعلیم کی طرف آئیں گے کیونکہ خالی پیٹ اور اعصاب پر سوار دہشت کسی ریاست کو پنپنے نہیں دیتی.