ہوم << حقوق نسواں کے علمبردار، خواتین کے لیے کیاچاہتے ہیں؟ نجم الحسن

حقوق نسواں کے علمبردار، خواتین کے لیے کیاچاہتے ہیں؟ نجم الحسن

نجم الحسن انسان کو خدا کی سب سے خوبصورت تخلیق سمجھا جاتا ہے۔ جب مخلوق کی تخلیق ہوئی، تو دنیا داری چلانے کے لیے ایک دوسرے سے بالکل مختلف الجہت دو انسان بنائیں گے یعنی بابا آدم و بی بی حوا، خواتین اور حضرات یا با الفاظ دیگرمرد اورعورت۔ دونوں کی اپنی خوبیاں ہیں، اپنی صلاحیتیں ہیں جنہیں دنیا تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن آجکل کےحالات کچھ بدلے بدلے ہیں۔ حالیہ دور میں حقوق نسواں یا تحریک نسواں کو لیکر ایک بحث نے جنم لیا ہے۔ لیکن یہ وہ تحریک نسواں نہیں ہے، جس کی بحث 15ویں صدی سے ہوتی آئی ہے اور جس پر بہت سے علمائے کرام نے لکھا ہے۔ اس تحریک نسواں میں جنسی آزادی، شراب نوشی، دیر رات گھومنے پھرنے کی آزادی والی بحث ہے۔ یہاں سے اتنا ہی پڑھ کر مجھے پرتہمت مت باندھیے گا کہ میں حقوق نسواں کامخالف ہوں بلکہ آگے پڑھیے اور فیصلہ کیجئے کہ کیا میرے رقم کردہ ان باتوں پر کبھی بحث نہیں ہونی چاہے؟
ایک عرصہ سے سوشل میڈیا بالکل پنک پنک مطلب گلابی گلابی، ہوا جا رہا ہے۔جی ہاں! گلابی رنگت کو حقوق نسواں کے لیے ایک کلر سمبل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس گلابی رنگت میں ہر دفعہ اضافہ ہو جاتا ہے جب بھی کوئی ایسا واقعہ درپیش ہو جس میں عورت واقعتا مظلوم بنے یا جبرا مظلوم بنایا جائے۔ ایسے واقعات کو لیکر حقوق نسواں کی علمبردار ایک دم جاگ جاتے ہیں، خواب غفلت سے بیدار ہو جاتے ہیں یا شاید کسی ضروری کام سے سو رہے ہوتے ہیں، جو کہ دراصل صرف سوشل میڈیا کے ہی شیر ہوتے ہیں۔ یہاں کوئی خواتین کو کچھ نہ کہو، کوئی سوال مت اٹھا نا، وغیرہ وغیرہ کو لمبے لمبے لیکچر دیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت اور اصل زندگی میں خواتین کا کتنا احترام کرتے ہیں، کتنا ان کی حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور کتنا اپنے گھر کی خواتین کےحقوق کا پالن کرتے ہیں، اس پر سب خاموش ہوتے ہیں۔
میں ان حقوق نسواں کی علمبردار مصنفین اور مظاہرین کی بہت عزت کرتا ہوں، کیونکہ یہ بڑے دماغوں میں پڑے بڑے خیالات کریدتے ہیں۔ مگر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ واقعی سنجیدہ ہیں؟ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے؟ کیا یہ واقعی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے درپے ہوتے ہیں؟ شاید نہیں، کیوں؟ کیونکہ اگر یہ سنجیدہ ہوتے تو ان کی ناک کے نیچے خواتین کے ساتھ عموما جو سب سے بڑا امتیاز ہوتا ہے، یہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے، سینہ سپر ہوتے، جلسے کرتے اور آج کل کے فیشن کےمطابق وہی کرتے جو عمران خان کا ایک خاص سٹائل ہے، ہاں صحیح سمجھیں آپ، میں دھرنے کی ہی بات کر رہا ہوں۔ سیاست، انتظامیہ اور آرمی میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف بولتے۔ کیا خواتین مردوں کے مقابلے کم محب وطن ہوتی ہیں؟ کیا ان میں جوش اور غصے کی کمی ہوتی ہے؟ یا ان کو ہندوستان پر غصہ نہیں آتا؟ پھر کیوں کسی خاتون کو محاذ پر نہیں بھیجا جاتا۔ جی بھیجنا تو دور کی بات فوج میں خواتین کا تناسب ہی کتنا ہے؟ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ کیوں صرف ان کی سرحد پر تعیناتی کو ہی بڑی خبر گردانا جاتا ہے؟ کیوں کبھی کسی عورت کو ملک کے لیے ان دشمنوں کی گردن کاٹنے اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان نچھاور کرنے کا موقع نہیں ملتا؟ کیونکہ یہ اقتدار اور حکومتیں مردانہ کام ہے، بالکل ایسے ہی جیسے مردانہ داڑھی ہوتی ہے، ہے نا؟ یہ اپنے ملک کی خواتین کو لے کر تھوڑا زیادہ دفاعی ہیں، انہیں ڈر لگا رہتا ہے۔ یہ حکومتیں صرف ان کو بارڈر پر تعینات کرکے اور ائیر فورس میں پائلٹ بنا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کر لیتی ہیں۔ اس کے خلاف کوئی تحریک، کوئی موم بتی مارچ؟ ندارد۔
جس ملک میں حنا ربانی جیسے وزیر خارجہ رہ چکی ہوں ، بے نظیر جیسی دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم رہ چکی ہو، فاطمہ ثریا بجیہ جیسی نامور لکھاری رہ چکی ہوں، مریم جیسی جانثار ہوں، احتیاطا وجاہت کردوں مریم دراصل شہید پائلٹ مریم مختیار ہیں، مریم نواز نہیں، کیونکہ ہمارے ذہنوں میں اکثر وہی لوگ رچے بسے رہتے ہیں، جو ٹی وی پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ تو ایک ایسے ملک میں ان بڑی ہستیوں کے ذریعہ اس رسم میں بدلاؤ لانے کے لیے اس سے بہترین موقع کب ملے گا؟ لیکن ایسےوقت میں یہ سب خواب خرگوش کے نیند سو رہے ہوتے ہیں یا شاید کسی ضروری کام سے سو رہے ہوں گے جن کا کم از کم مجھے علم نہیں۔ تحریک نسواں کے لوگوں کا خون اس بات پر کیوں نہیں کھولتا ہے جب ایک خاتون وزیر کی جگہ اجلاسوں میں شامل ہونے ان کا شوہر جاتا ہے، لوگ شکایتیں لے کر اس عورت کے پاس نہیں، بلکہ حقیقی 'وزیر صاحب' کے پاس جاتے ہیں؟
یہ تو رہی بڑے لوگوں کی چند چشم کشا واقعات۔ اب چھوٹے شہروں اور دیہات میں دیکھ لیتے ہیں جہاں آج بھی خاتون کے ووٹ کو پرکھا ہی نہیں جاتا ہے بس گنا جاتا ہے، کیونکہ یہ طے ہوتا ہے کہ بیوی، بیٹی، بہن، ماں کا ووٹ تو اسی کو جائے گا، جسے ان کے مرد حضرات ووٹ دیں گے۔ اس پر کوئی تحریک یا کوئی مضمون مجھے سوشل میڈیا پر نظر نہیں آیا، شاید ہی ایک آدھ ہو تو اس کے لیے معافی۔ میں دنیا کی بات نہیں کرتا، دنیا میں کیا ہو رہا ہے مجھے اس سے مطلب بھی نہیں۔ میں اپنے ملک کی بات کر رہا ہوں اور مجھے یہیں کی بات کرنی ہے۔ یہاں کی خواتین کی بات کرنی ہے۔ یہاں دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والی ان خواتین کی بات کرنی ہے، جنہیں اس تحریک نسواں جیسی بلا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی تو پڑھائی اچھے سے ہو جائے، شادی ڈھنکی جگہ ہو جائے، شوہر کا اچھا ہونا نہ ہونا الگ بات ہے، لیکن سسرال والے اچھے مل جائیں بس۔ ان کی زندگی کے سارے مقاصد یہیں سے شروع ہوتے ہیں اور یہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو صرف اتنی آزادی چاہئے کہ کسی آوارہ آدمی کی وجہ سے ان کی پڑھائی نہ بند ہو جائے اور کسی سر پھرے کی وجہ سے ان کی شادی میں کوئی دقت نہ آ جائے۔ان خواتین کی تعداد ان حقوق نسواں کی علمبردار عورتوں سے ایک دو نہیں، بلکہ ہزار گنا زیادہ ہے۔ کیونکہ ان حقوق نسواں کی علمبردار عورتوں کی تعداد انتہائی محدود ہے، اسی لیے ان کے پاس خواتین کو با اختیار بنانے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ ان کا ان لڑكیوں سے شاید ہی کبھی آمنا سامنا ہوا ہو جنہوں نے حقیقی مشکلات جھیلی ہیں، ہمیشہ وہ سب سہا ہے۔
حرف آخر یہ کہ خواتین کو با اختیار بنانے پر بات ہو، بامعنی بحثیں ہوں، تب جا کر شاید کوئی حل نظر آئے۔ لیکن یہ لوگ براہ راست 10 ویں پائیدان کی جدیدیت کو کیوں معاشرے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یہ لوگ چھوٹے شہروں اور دیہات میں رہنے والی ان اکثریت خواتین کی تعلیم کے حقوق، ان کو زوجیت کے منتخب کرنے کے حقوق، ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے حقوق کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے؟ آخر کیوں سب سے پہلے ان کے جنسی آزادی کے حقوق، بستر پر شرائط رکھنے کے حقوق، ”لڑکوں کی طرح“ دیر رات گھومنے کے حقوق اور ان سب حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں جو آدمی کرتے ہیں؟ کیا دقت یہی ہے ؟ بس اتنی سی بات ہے؟ ضرور سوچیے گا۔

Comments

Click here to post a comment