ہوم << کراچی پریس کلب اور گرفتاریاں - ریحان حیدر

کراچی پریس کلب اور گرفتاریاں - ریحان حیدر

ریحان حیدر کراچی پریس کلب کسی بھی مذہب، فرقے، نسل، زبان یا سیاسی وابستگی سے قطع نظر تمال اہلِ شہر کے لئے دیوارِ گریہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں کوئی بھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج ریکارڈ کرواسکتا ہے اور پریس کلب میں موجود صحافی برادری کو اپنی درد بھری داستان سناسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے تمام لوگ صحافیوں سے عزت و احترام کے ساتھ موجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کے مسائل یا موقف کو اُجاگر کیا جائے۔
گزشتہ دنوں MQM رابطہ کمیٹی لندن کے ارکان کو پریس کلب کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔ سمجھ نہیں آیا کہ یہ گرفتاری انھیں سیاست سے باز رکھنے کے لیے کی گئی یا ان کی مدد کرنے کے لیے۔ رابطہ کمیٹی لندن کے رکن امجد اللہ کو گرفتار کرنے کے لیے رینجرز نے 4 گھنٹے پریس کلب کا محاصرہ کیا، میں نے یہ سب صورتحال اپنی پریس کلب کے اندر بیٹھ کر اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ رینجرز کے اہلکار کلب کے باہر امجداللہ کے باہر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ موصوف کو کہیں سے بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا، ایک ایسی جگہ پر ڈرامائی صورتحال بنائی گئی جہاں شہر بھر کے میڈیا نمائندے موجود تھے۔ امجداللہ بھی 4 گھنٹے تک کیوں پریس کلب کے اندر محصور ہو کر انتظار کرتے رہے؟ پریس کانفرنس ملتوی ہونے کے فوری بعد باہر کیوں نہیں نکلے، 4 گھنٹے تک نہ صرف خبروں کی زینت بنے رہے بلکہ پریس کلب انتظامیہ اور دیگر صحافی برادری کو بھی ذہنی اذیت کا شکار کیا یہاں تک کہ سیکریٹری پریس کلب کو بھی سہولت کار کے طور پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ کچھ گھنٹوں پہلے تک جس شخص کے نام سے کوئی واقف نہ تھا وہ ایک سیاسی ہیرو کے طور پر ابھرا۔
گرفتار ہونے والے دوسرے عمررسیدہ رکن ڈاکٹر ظفر ہیں جو کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں اور P.hd ڈاکٹر ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو فوری ردعمل اور ٹرینڈ بنا وہ یہ تھا Rangers VS P.hd ۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں ایک 80 برس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد کو اس طرح گرفتار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
کسی بھی شخص کی وابستگی اور نمائندگی کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ ہم بچپن سے یہ نصیحتیں سن سن کر بڑے ہوئے ہیں کہ اپنے دوستوں کے چنائو میں احتیاط برتو کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ کل پروفیسر ڈاکٹر ظفر جس جماعت کی نمائندگی اور وابستگی کی بنا پر گرفتار کیے گئے یہ وہی ”ایک سیاسی جماعت“ ہے جو اپنے شاہانہ احتجاجی مظاہروں اور دعوت نما بھوک ہڑتالوں کے لیے مشہور ہے اور اس میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ کراچی پریس کلب پر جب بھی MQM نے احتجاج کیا، وہ احتجاج کم اور ایک تفریحی میلہ زیادہ لگا، جہاں اس صحافی برادری کا داخلہ ہی تقریباً ناممکن ہوتا تھا جس کے آگے یہ اپنا دکھڑا رونا چاہتے تھے۔ پریس کلب کا مرکزی دروازہ اور سامنے کی شاہراہ کو مکمل بند کردیا جاتا اور صحافیوں کو واک تھرو گیٹ سے گزر کر بھی تلاشی اور کارڈ دکھا کر داخلے کی اجازت تھی۔ ایسے لوگوں سے وابستگی، حمایت اور نمائندگی کرنے والا P.hd پروفیسر تو کیا اگر نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی ہو تو میری نظر میں اس کی عزت، اہمیت اور احترام اتنا ہی ہوگا جتنا اس شخص کے لیے جس نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران مجھے روک کر انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے کیمرا بیگ کی تلاشی لینے پر اصرار کیا اور منہ میں گٹکا دبا ہونے کے باعث صرف اشاروں میں بات کی۔ میں نے تلاشی نہیں دی اور واپس لوٹ گیا۔