ہوم << بھارت: الہی شریعت میں انسانی مداخلت کی جرات! ڈاکٹر غلام زرقانی

بھارت: الہی شریعت میں انسانی مداخلت کی جرات! ڈاکٹر غلام زرقانی

بنگال کی ایک خاتون نے طلاق ثلاثہ کے حوالے سے عدالت میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے اسے ظلم و ناانصافی سے تعبیر کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو تین دوسری خواتین تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ سے استدعاکی ہے کہ وہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے قوانین پر از سر نو غور کرے۔ کچھ دنوں پہلے عدالت نے سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ، چند مسلم تنظیموں سے بھی رائے طلب کی۔ کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ تینوں جہتوں کے جوابات کی جھلکیاں نگاہوں کے سامنے رکھ لی جائیں۔
وزارت داخلہ نے جواب میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے، وہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جنسی برابری، یکساں سلوک اور احترام انسانیت کے پیش نظر طلاق ثلاثہ پر غورکیاجانا چاہیے، نیز اپنی رائے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ دلیل بھی دی کہ بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، مراکش، تیونس، ترکی، انڈونیشیا، مصر اور ایران وغیرہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی طلاق ثلاثہ پر نظرثانی ہوچکی ہے لہذا کوئی وجہ نہیں کہ سیکولر ہندوستان میں اسے اصلاح کے مراحل سے نہ گزاراجائے۔
اسی طرح مسلم پرسنل لا بورڈ نے جواب داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرد اگر طلاق ثلاثہ کے حق سے محروم ہوجائے، تو وہ اپنی بیوی سے جان چھڑانے کے لیے اسے نذرآتش اور قتل بھی کرسکتاہے، اس لیے شریعت اسلامیہ کی طرف سے مردوں کو دیے گئے حق طلاق پر کوئی بحث نہ کی جائے۔ اور ابھی حال ہی میں بورڈ کے ایک معزز رکن جناب ظفریاب جیلانی ذرائع ابلاغ میں کہتے ہوئے سنے گئے کہ 90 فیصد مسلمان عورتیں شریعت اسلامیہ میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں چاہتی ہیں، حکومت چاہے تو رائے شماری کرواکر دیکھ لے۔
دارالقلم دہلی کی ایک نشست میں ارباب حل وعقد نے جو بیان دیا ہے، وہ اخبارات کی سرخیوں میں کچھ اس طرح ہے کہ حکومت کی جانب سے پچیس اسلامی ممالک میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے اصلاحات کیے جانے کی خبر صداقت پر مبنی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیر سے کنیا کماری تک، چاروں فقہی مسالک کے علمائے کرام نے بھی حکومت کے حالیہ حلف نامے پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا ہے۔
جان کی امان ملے تو عرض کروں کہ مجھے ذاتی طورپر تینوں جہتوں کے جوابات سے اتفاق نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیوں، یہ بات میری رگ وپے میں رچ بس گئی ہے کہ اتفاق واختلاف؛ دونوں بہرکیف حقائق و معلومات کے اجالے میں ہونے چاہییں۔ زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے، حق بات بھی مجھے حق محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے باوقار ادارہ نے کس قدر سطحی بات کہہ دی کہ اگر طلاق ثلاثہ کے حقوق سے مرد محروم کیے جائیں گے، تو جان چھڑانے کے لیے، وہ بیوبیوں کی جان تک لے سکتے ہیں۔ خداراانصاف سے بتائیے کہ مغربی ممالک میں عدالت کے بغیر طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے،گزشتہ پچاس سالوں کے درمیان بتایاجائے کہ مغربی ممالک میں کتنی خواتین موت کے گھاٹ اتاری گئی ہیں؟ اسی طرح جناب ظفریاب جیلانی صاحب نے جو بیان دیا ہے، وہ تو مسلم پرسنل لاء کے لیے زہر قاتل ہے، بلکہ کہنے دیاجائے کہ یہ بات وہی ہے، جو حکومت ہم سے کہلوانا چاہتی ہے۔ غور کیجیے کہ شریعت اسلامیہ میں رائے شماری کے ذریعہ تبدیلی کے تصور کو تسلیم کر لینے کے بعدمسلم پرسنل لا کے وجود کی بنیاد اپنے مستحکم پیروں پر کیونکر کھڑی رہ سکتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم پرسنل لا کے تحفظ و صیانت کی ساری تحریکیں اسی لیے اٹھی ہیں کہ الہی شریعت میں کسی کو تبدیلی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بات کڑوی ہے، مگر یہی حقیقت ہے کہ مذکورہ بیان کے ہوتے ہوئے، خود مسلم پرسنل لا بورڈ کا وجود ہی بےمعنی ہوکر رہ گیا ہے کہ عدالت عالیہ عوامی رائے طلب کرکے کسی بھی شرعی قانون میں تبدیلی کرلے گی۔
ٹھیک اسی طرح دارالقلم، دہلی کی نشست میں ارباب حل وعقد کا یہ کہنا کہ پچیس اسلامی ممالک میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے اصلاحات کا دعوی درست نہیں ہے، محل نظر ہے۔ میری تحقیق کے مطابق 1929ء میں سب سے پہلے مصر نے ایک نشست کی تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے۔ اس کے بعد 1935ء میں سوڈان نے قدرے جزوی تبدیلی کے ساتھ اسے قبول کیا ہے ۔ 1953ء میں شام ، 1957ء میں مراکش، 1959ء میں عراق، 1976ء میں عمان ، 1977ء میں افغانستان، 1984ء میں لیبیا، 1984میں کویت، 1992ء میں یمن ، نیز عرب امارات، قطر اور بحرین نے بھی طلاق ثلاثہ کے حوالے سے اصلاحات کی ہیں اور بعض قیود کے ساتھ ایک نشست میں دی گئی تین طلاق کو ایک شمارکیا ہے، یا بین الزوجین تعلقات کی استواری میں سہولتیں دی ہیں۔ مزید برآں یہ کہ تیونس اور الجزائر نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک جسارت کر لی کہ ماورائے عدالت، شوہر کی طلاق کی کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں ہے۔ لہذا، یہ کہنا میری سمجھ سے باہر ہے کہ مسلم ممالک میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے جزوی یا کلی کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ یہ بات صرف متذکرہ جواب کے حوالے سے میں نے کہی ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسلامی ممالک میں کس نے کہاں تک شریعت اسلامیہ کی پاسداری کی ہے اور کس نے کہاں تک رد و بدل کیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مذہب اسلام نہ کسی فرد کی جاگیر ہے اور نہ ہی کسی ملک کی، بلکہ یہ الہی مذہب ہے اور ہم پر لازم ہے کہ اسلامی شریعت کی تشریح و توجیہ دوسرے مسلمانوں کے عادات و اطوار اور افعال واعمال کی روشنی میں نہ کی جائے، بلکہ صرف اور صرف، قرآن، حدیث، قیاس اور اجماع امت ہی کے آئینے میں ہو۔
اب آئیے، حکومت کے ذریعہ داخل کیے گئے حلف نامہ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔ یہ بیان کہ طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج، ایک طرح سے عورت پر ظلم وزیادتی ہے، سر تا سر بہتان اور خلاف واقعہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ وزارت داخلہ کے متذکرہ بیان سے نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے، بلکہ یہ مذہب اسلام کے خلاف انگشت نمائی کے مترادف بھی ہے۔ ایک سیکولر ملک کے سرکاری محکموں سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی کے بھی مذہبی معاملات میں دخل اندازی کریں، بلکہ مذہبی معاملات کے حوالے سے عدالت کوئی استفسارکرے، توسرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ متعلقہ مذاہب کے ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیں، تاکہ گنجائش کی حد تک، مذہبی علمائے کرام کوئی رائے پیش کرسکیں۔ خیال رہے کہ مذہبی معاملات میں حکومت کی جانب سے کسی طرح کی بھی دخل اندازی کی کوشش نہایت ہی تشویشناک اقدام ہے۔
صاحبو! بہت ممکن ہے کہ متذکرہ موضوع پر میری رائے شاذ محسوس ہو، تاہم جو جی میں آتا ہے، اسے کہنے میں جھجھک کیسی؟ دیکھیے، طلاق ثلاثہ ہی نہیں، بلکہ بنیادی طور پر طلاق کی وجہ سے خاندان میں انتشار بھی ہوتاہے اور اختلاف بھی، جو معاشرے کے لیے قطعی درست نہیں ہے۔ اور یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ شادی تو کر لیتے ہیں، لیکن شادی کے بعد پیش آنے والے مراحل سے پورے طور پر غافل رہتے ہیں۔ میں کہنا یہ چاہتاہوں کہ نئے شادی شدہ جوڑے سے یہ کہنا کہ وہ پیار و محبت کے ساتھ رہیں اور آپس میں اختلاف نہ کریں، زمینی حقائق سے متصادم ہے، کہ ایک جگہ رہنے والے لوگوں کے درمیان اختلافات اور نوک جھونک تقاضائے فطرت ہے۔ میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ انہیں یہ تعلیم دی جائے کہ وہ شادی کے بعد باہمی اختلافات کو کس طرح دور کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ انہیں اختلافات دور کرنے کے لیے اسلامی شریعت میں بیان کردہ سارے مراحل کی واقفیت کرانی چاہیے، تاکہ معاملہ طلاق سے پہلے ہی سلجھ جائے۔ اس حوالے سے کوئی مضائقہ نہیں کہ علمائے کرام دس پندرہ منٹ کی ایک ڈاکومینٹری تیار کریں اور نکاح سے پہلے زوجین کے لیے اسے سمجھنا ضروری قرار دیں۔ یقین جانیے، نازک حالات کے آنے سے پہلے ہی’’حفاظتی تدابیر‘‘ سکھانے کی روایت تو اب شعبہ ہائے حیات کے ہر حصہ میں داخل ہوچکی ہے۔ سمندری طوفان کے آنے سے پہلے علاقے سے انخلا، جہاز کی پرواز سے پہلے آکسیجن ماسک اور لائف جیکٹ کی تفصیلات اور آفات ارضی و سماوی سے پہلے ماہرین کی جانب سے اعلانات وانذارات، قبل از وقت مشکل حالات سے نمٹنے کے گرہیں تو ہیں۔

Comments

Click here to post a comment