ہوم << ناموسِ صحابہ کا احترام و اہتمام کیسے؟ محمد اشفاق

ناموسِ صحابہ کا احترام و اہتمام کیسے؟ محمد اشفاق

محمد اشفاق مندرجہ ذیل مضمون اس نیت اور جذبے کے تحت لکھا گیا ہے کہ میرے جیسے عام مسلمان جن کا دینی علم درسی کتابوں یا مولوی صاحب سے سیکھے چند اسباق تک محدود ہے، وہ یہ جان اور سمجھ سکیں کہ ناموسِ صحابہ رض کا حقیقی تصور کیا ہے؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اہمیت کیا ہے؟ اور اسے سرے سے رد کرنے کے یا اس میں غلو کرنے کے ہمارے ایمان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فرد کی ذاتی رائے ہے، جسے اس نے اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں اپنی ناقص عقل کی مدد سے اخذ کیا ہے. اس میں خطا یا غلطی کا امکان یقینا ہے، اور اس کی نشاندہی اور درستی کرنے والا میرا محسن ہوگا، مگر یہ کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے. اس سے اتفاق یا اختلاف آپ کا حق ہے مگر میری نیک نیتی یا ایمان پر شبہ کا آپ کو حق ہے نہ ہی آپ کی تنقید یا مخالفت کو آپ کی بدنیتی سمجھنے کا حق مجھے حاصل ہے.
جو احباب اس مضمون کو پڑھ کر اس سے متفق ہوں، ان سے خصوصی گزارش یہ بھی ہے کہ اسے اپنے حلقہ احباب میں پھیلانے کی کوشش کریں، اس کے لیے خواہ لنک شیئر کیا جائے، خواہ مضمون کاپی پیسٹ کیا جائے، خواہ میرے نام کا حوالہ دیا جائے، خواہ کسی اور کے نام سے پھیلایا جائے، میرا اور آپ کا مقصد محض اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں کی تکریم کے ذریعے اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، اللہ پاک ہماری اس سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے. آمین
”صحابی“
آپ سب جانتے ہیں کہ اس اصطلاح کے لغوی معنی ساتھی یا دوست کے ہیں. شرعی معنوں میں صحابی اس مقدس ہستی کو کہا جاتا ہے جس نے بحالتِ ایمان کم از کم ایک بار سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دیدارِ مبارک کر رکھا ہو، اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو. اصحابِ رسول ﷺ کے elite club میں شمولیت کا یہ کم سے کم معیار ہے. صحابی ہونا استحقاق نہیں سعادت ہے اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست. یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے. بحالتِ ایمان دیدارِ مصطفیٰ ﷺ اس کلب کی بنیادی رکنیت کی وہ شرط ہے جسے ہم اپنی تمام تر ریاضتوں، عبادتوں اور کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتے. بڑے سے بڑا بزرگ، ولی اللہ، عالمِ دین، مجتہد، فقیہ یا صوفی مرتبے میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اور کوئی بدبخت ایسا دعویٰ کرے بھی تو وہ قابلِ اعتنا ہرگز نہیں.
فقہ میں اس اصطلاح کی اہمیت یہ ہے کہ اس ایلیٹ کلب کے معزز ممبران کو چند ایسے حقوق حاصل ہیں جو عام مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں. ان میں سب سے امتیازی حق حدیثِ رسول ﷺ کو بیان کرنا ہے. درحقیقت صحابی کی اصطلاح کی اوپر بیان کردہ تعریف اسی لیے کی گئی تھی کہ یہ معیار طے پا جائے کہ جو شخص کوئی بات نبی پاک ﷺ سے منسوب کر رہا ہے، اس کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے. چنانچہ ہر روایت کسی نہ کسی واسطے سے کسی نہ کسی صحابی تک پہنچنا ضروری ہے، اسی صورت میں وہ حدیث سمجھی جائے گی، اور اس بنیادی شرط پہ پورا اترنے کے بعد ہی اس پہ حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کی دیگر شرائط کا اطلاق ہوگا.
دوسرا امتیازی حق جو فقہ ایک صحابی کو دیتی ہے وہ اجتہاد ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اجتہاد بجائے خود محض صحابہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت کا حق ہے. جہاں کہیں کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کی نظیر ہمیں کتاب و سنت یا فقہ میں نہ ملتی ہو، وہاں علمائے دین کا یہ فرض ہے کہ وہ اجتہاد سے کام لے کر اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل پیش کریں، چنانچہ چودہ صدیوں سے اجتہاد جاری ہے اور ان شاءاللہ جاری رہے گا. صحابہءکرام کا معاملہ امتیازی یوں ہو جاتا ہے کہ اپنی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں انہوں نے جو بھی فیصلے کیے، خواہ ان کے وہ فیصلے باہم متضاد ہی کیوں نہ رہے ہوں، ہم اسے ان کا انفرادی اجتہاد ہی کہیں گے اور سمجھیں گے، چونکہ ان تمام حضرات کی تربیت براہ راست رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں ہوئی, اس لیے یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے اس انفرادی فیصلے کے پس پشت یقینا نبوی تعلیمات یا ان سے اخذ کردہ فہم رہی ہوگی، اور یقینا تھا بھی ایسا ہی. یہ امتیازی حق صحابہ کرام کو ایک طرح کی indemnity دیتا ہے، یعنی ان کے کسی انفرادی فیصلے کے مثبت یا منفی اثرات پہ تو گفتگو ہو سکتی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہی ہے، لیکن ان کے اس فیصلے کے نتیجے میں ان کی ذات کو زیربحث کبھی نہیں لایا جاسکتا.
صحابہء کرام کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ ہم انہیں اللہ کے آخری نبی ﷺ کے بعد اپنا سب سے بڑا محسن اور مربی سمجھیں کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ کی تعلیمات، ان کا مفہوم اور ان پہ عمل کا طریقہ ہم تک اصحابِ رسول ﷺ کے وسیلے ہی سے پہنچا ہے. یہ ان کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ ہم اپنی تمام عبادات کا اجر انہیں پہنچا کر بھی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتے. نیز انہوں نے اپنی اپنی بساط، حیثیت اور طاقت کے مطابق اس بات کا بھی پورا اہتمام فرمایا کہ تعلیماتِ نبوی, اسوہءحسنہ اور کتابِ الہیٰ کی ہر ممکن حد تک حفاظت ہو، اور کوئی ان میں ترمیم یا اضافہ کرنے یا ان کو مسخ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے. آج الحمدللہ اگر اللہ کی کتاب اپنی اصل صورت میں امت کے سینوں میں محفوظ ہے، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ایک ایک بات، ایک ایک ادا اپنی درست شکل میں ہماری راہنمائی کو موجود ہے تو اس کا سہرا بلاشبہ صحابہ کرام کے سر جاتا ہے. اللہ پاک ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے، اور ہم میں سے ہر ایک کو ان سے سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے. آمین
شریعتِ مطہرہ میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمانوں پہ جتنے حقوق بیان ہوئے ہیں، صحابہ کرام ان کے بھی بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں. چنانچہ ہمارا فرض ہے کہ ان کا نام عزت و احترام سے لیں، جہاں ان پہ تنقید کی جاتی ہو، وہاں ان کا دفاع کریں، ان کے معاملے میں ہمیشہ حسنِ ظن سے کام لیں، بدگمانی سے بچیں اور ان کے باہمی معاملات میں بلاوجہ تجسس سے باز رہیں. ان کے معاملات اب اللہ کے سپرد ہیں، ہمارے لیے وہ سب قابلِ احترام ہیں.
کیا تمام صحابہ برابر ہیں؟
جہاں شانِ صحابہ کا معاملہ آتا ہے، یہ سوال بھی وہاں ضرور سر اٹھاتا ہے. ہم عام مسلمانوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ درجہ صحابیت میں وہ سب کے سب برابر ہیں، یعنی جس نے ایک بار بھی رسولِ اکرم ﷺ کا دیدار فرمایا، وہ بھی اتنا ہی صحابی ہے جتنا وہ خوش نصیب ہستیاں جنہیں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ رسولِ پاک ﷺ کی معیت میں گزارنے کا شرف حاصل ہوا. اسے بھی بطور اس ایلیٹ کلب کے ممبر کے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک جلیل القدر صحابی کے ہیں، لیکن یہ سمجھنا کہ درجے میں وہ سب کے سب برابر ہیں، یقیناً غلط ہے. ان سب مبارک ہستیوں کو رسولِ پاک ﷺ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، مگر ظاہری بات ہے جسے زیادہ موقع ملا اس نے زیادہ فیض اٹھایا. اسی طرح بطور ایک معلم کے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ان کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے یکساں ہیں مگر ہر ایک بقدرِ ظرف، توفیق، علم و فہم ان سے مستفید ہوا، چنانچہ کچھ علمِ نبوی ﷺ کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے میں کامیاب رہے، بعض نے کسی ایک شعبے یا پہلو میں تخصص حاصل کیا اور کئی محض خوشہ چینی کی حد تک مستفید ہو پائے. بالکل اسی طرح قربت کا معیار یا دورانیہ بھی یکساں نہیں تھا اور یہ بھی ان کے مدارج پر براہ راست اثرانداز ہوا، چنانچہ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت حاصل تھی اور ہے. یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ کوئی بھی مسلمان جب ان مقدس ہستیوں کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے ذوق، مزاج اور افتادِ طبع کے مطابق کسی ایک سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے اور کسی دوسرے سے کم. اس لیے اس میں بھی قطعی کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ہم میں سے بعض کسی ایک صحابی کے لیے اپنے دل میں زیادہ محبت اور عقیدت رکھتے ہوں بہ نسبت دیگر صحابہ کے. لیکن جس طرح آپ اپنے سکول، کالج، مدرسے یا یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کا یکساں احترام کرتے ہیں، خواہ ان میں سے آپ کا فیورٹ کوئی ایک ہی کیوں نہ ہو، بالکل ویسے ہی تمام صحابہ کرام کی تکریم اور احترام ہم پر واجب ہے. محبت اور عقیدت دل کا معاملہ ہے مگر احترام ادب کا تقاضا ہے اور محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ ادب ہی ہوا کرتا ہے.
یہاں اس نکتے کی وضاحت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کہ بطور صحابی ہم پی تمام اصحابِ رسول کا یکساں احترام واجب ہے مگر ان میں سے بعض جن کا ذکر آگے کیا جا رہا ہے، ہمارے خصوصی احترام کے لائق ہیں، اور ان کی شان اور مقام اتنا بلند ہے کہ ان کا ذکر سوائے خیر و عقیدت کے کسی بھی طرح کیا جانا ہمارے ایمان میں کمی کا سبب بن سکتا ہے.
”خلفائے راشدین“
اگر نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد مسلمانوں کی قیادت یکے بعد دیگرے ان چار مبارک ہستیوں کے ہاتھ نہ آتی تو جانے آج کیا صورتحال ہوتی، مگر اللہ پاک نے اپنے دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھا رکھی ہے، اس لیے ہماری خوش قسمتی کہ اس نے حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض اور حضرت علی رض کو دین کی نگہبانی کا فریضہ سونپا اور ان چاروں نے بلاشبہ اس فرض کی ادائیگی ایسے کی کہ جس پہ یقینا اس ذاتِ باری تعالیٰ نے بھی ناز کیا ہوگا.
ہماری انتہائی بدنصیبی ہے کہ حضورِ پاک ﷺ کے وصال اور اس کے فوری بعد پیش آنے والے چند واقعات کو بنیاد بنا کر ایک ایسے تفرقے کی بنیاد رکھ دی گئی، جس نے پندرہ صدیوں میں لاکھوں مسلمانوں کی جان لے لی مگر وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا. اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ ان چاروں مقدس ہستیوں کو ہی متنازعہ بنا دیا گیا جن کے سر پر خود اللہ پاک نے فضیلت کا تاج رکھا تھا.
مستند تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت علی رض اور ان کے خاندان اور حمایتیوں نے چند تحفظات رکھتے ہوئے اور ایمانداری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا مستحق سمجھنے کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو نہ صرف دل و جان سے امیرالمؤمنین تسلیم کیا، بلکہ جہاں انہیں مشاورت کی ضرورت پڑی وہاں بہترین مشوروں سے اور جہاں انہیں مدد کی ضرورت پڑی وہاں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت سے ان کا ساتھ دیا. یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے پہلے تینوں خلفاء کے بارے میں کلمہ خیر کے سوا کبھی کچھ نہیں نکلا. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دم بھرنے والوں کے لیے جناب حیدرِ کرار رضی اللہ عنہ اور اولین شیعانِ علی کا یہ اسوہ یقینا مشعل راہ ہے، اور جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے، پہلے تینوں خلفائے راشدین کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں، انہیں شیعانِ علی کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے صابر ساتھیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے مترادف ہے. شیعہ بھائیوں سے ہاتھ جوڑ کر التماس ہے کہ خدارا اپنی صفوں میں سے ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں جو رسولِ پاک ﷺ کے بہترین ساتھیوں کو ایذا پہنچا کر رسولِ پاک ﷺ کی ایذا رسانی کا باعث بنتے ہیں.
اسی طرح ایک طبقے کی وہ کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں جو وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کو متنازعہ بنانے کے سلسلے میں کرتا ہے. ستم ظریفی یہ کہ یہ وہی لوگ ہیں جو یزید کی امارت کو خلافت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں، مگر حضرت علی رضی اللہ کی برحق خلافت کو تسلیم کرتے انہیں کوئی روحانی تکلیف ہوتی ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر معیار، ہر کسوٹی پہ خلیفہ برحق ہیں اور جنگِ جمل، جنگِ صفین اور تحکیم کے معاملے میں خواہ ان کے مقابل کتنی ہی متبرک ہستیاں کیوں نہ ہوں، حق یہ ہے کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ.
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو بھی خلفائے راشدین کی یا ان میں سے چند ایک یا صرف ایک کی بھی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، وہ مسلمانوں کا خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتا.
”آلِ رسول ﷺ“
آیاتِ تطہیر و مباہلہ کی حقیقت مفسرین جانیں، میرے لیے حسنین کریمین سے محبت و عقیدت رکھنے کو اتنا ہی کافی ہے کہ جب وہ کاندھے پہ سوار ہوتے تھے تو میرے آقا ﷺ ان کی خوشی کی خاطر اپنا سجدہ طویل فرما دیا کرتے تھے. خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ اور آپ کی اولاد سے نبی کریم ﷺ کی محبت کوئی سربستہ راز نہیں ہے. اس پر تکینکی اعتراضات کر کے مثلا یہ کہ اولاد تو بیٹے سے چلتی ہے، یا بیٹیاں اور ان کی اولادیں تو اور بھی تھیں وغیرہ وغیرہ، اس محبت، اس شفقت کا مذاق مت اڑائیں جو اللہ کے نبی ﷺ کو اپنی چھوٹی بیٹی اور ان کی اولاد سے تھی. حضرت فاطمہؓ کی ناراضی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی ہے اور حضرت امام حسن و امام حسین کی ناز برداری، ان سے محبت کا اظہار نبی پاک ﷺ، آپ کے جلیل القدر صحابہ اور سلف صالحین کی متواتر اور ثابت شدہ سنت ہے. آلِ فاطمہ کی محبت امت کے سوادِ اعظم کا انمول سرمایہ ہے، اور اس محبت پر کسی ایک فرقے یا مسلک کی اجارہ داری نہیں ہے. خدارا! اپنے پیارے رسولﷺ کی پیاری اولاد کی محبت کو اپنے مسلکی تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں.
”امہات المؤمنین“
ہماری مائیں جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے ایک ایک کی اپنی فضیلت، اپنا مقام ہے. کسی کا نکاح اللہ پاک نے خود پڑھوایا تو کسی کی عصمت کی گواہی اس ذاتِ پاک نے خود دی. ان مقدس اور عفت مآب ہستیوں کو لے کر جہاں مستشرقین اور ملحدین نے نبی پاک ﷺ کی ذات پر رکیک حملے کیے ہیں وہاں ہم مسلمانوں میں سے کچھ طبقات نے بھی ان میں سے بعض یا کسی ایک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر اسلام کی قطعی کوئی خدمت نہیں کیﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مزاج، اپنی سوچ اور افتادِ طبع کے باعث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ادوار میں جو بھی اقدام اٹھائے، ان کے پیشِ نظر یقیناً اللہ کے دین کی حفاظت اور انصاف کا جذبہ تھا. ہم پر لعنت ہو اگر ہم ان کی نیت پر شک کریں یا انہیں وہ بینیفٹ آف ڈاؤٹ بھی نہ دیں جس کی وکالت ہم عامیوں کے لیے تو کرتے ہیں مگر اپنی مقدس ماں کو دیتے ہمیں تکلیف ہوتی ہے. اللہ پاک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں ان کے بارے میں ویسی ہی خیرخواہی رکھنے کی توفیق دے جس کا مظاہرہ شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے بعد فرمایا. آمین
”عشرہ مبشرہ“
اس سے قطع نظر کہ ان روایات میں کون سی کتنی مستند اور ثقہ راویوں سے موسوم ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہر ایک اتنے بلند مقام پہ فائز ہے کہ ہم پر ان کا خصوصی احترام واجب ہے. جس کسی نے خلوصِ نیت سے ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کی، اللہ کی قسم وہ فلاح پا گیا.
”سابقین اولین“
وہ نفوسِ قدسیہ جنہوں نے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر لبیک کہا جب ان کا اپنا خاندان، اپنا قبیلہ بھی ان کی دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں تھا. ان کی قربانیاں، ان کا خلوص، ان کی مساعی کا نہ تو کسی اور سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، نہ کوئی اور ان کے برابر کا درجہ پانے میں کامیاب ہوا، اللہ پاک ان مبارک ہستیوں کے درجات میں قیامت تک بلندی فرماتا رہے. آمین
”مہاجرین و انصار“
محض اللہ کی رضا کی خاطر خونی رشتوں کو ترک کر کے آنے والے مہاجرین اور ان کےلیے خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر ایثار کرنے والے انصاری صحابیوں پہ لاکھوں سلام. اسلام کو ان لوگوں نے اپنے خون، پسینے، جان و مال سے تقویت پہنچائی اور ہمارے لیے دین کو اتنا آسان کر دیا کہ ہمیں آج اس نعمت اور اسے ہم تک پہنچانے والوں کا احساس بھی نہیں رہا.
”شہدائے بدر“
حق و باطل کے پہلے خونی معرکے کے شہدا، بے سروسامانی، کسمپرسی اور قلتِ اموال و نفوس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے باطل کی قوتوں کے آگے جو سینہ سپر ہوئے اور اپنی لازوال قربانی کی بدولت اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا. میرے ماں باپ، میری سات نسلیں ان پہ قربان، ان کے خون کے صدقے آج ہم پیدائشی مسلمان ہونے پہ ناز کیے بیٹھے ہیں، اللہ ہمیں توفیق دے کہ آزمائش کی گھڑی میں ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل سکیں اور اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کریں. آمین
صحابہ کرام کی یہ چند خاص کیٹیگریز تھیں جن کا خصوصی ذکر واجب تھا. فتحِ مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے اصحاب کا بالعموم وہ درجہ نہیں ہے جو متذکرہ بالا صحابہ کرام کا تھا، مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ان کے ایمان یا ان کے خلوص پر شک کیا جائے. ان میں سے بعض نے اپنے خلوص اور محبت کی بدولت بہت جلد نبی پاک ﷺ کا قرب و اعتماد حاصل کر لیا، اور ان سبھی کی اولادوں کا اشاعتِ اسلام میں ناقابل فراموش کردار ہے اس لیے ان کا ذکر بھی بے ادبی کے ساتھ کرنا، ایمان میں خسارے کا موجب ہو سکتا ہے.
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس کا درجہ جتنا بڑا ہو، اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوا کرتی ہیں. صحابہ کرام کو شریعت کے کسی بھی معاملے میں نہ صرف یہ کہ کوئی استثنی حاصل نہیں تھا، بلکہ ایک حدیث کے مطابق جہاں ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ دین کے کچھ فیصد پر عمل ہی نجات کے لیے کافی ہوگا وہاں صحابہ کے لیے معیار اتنا کڑا تھا کہ ان کی دین کے دس یا بیس فیصد سے روگردانی ہی ان کی آخرت تباہ کرنے کو کافی تھی. بلاشبہ وہ اس کڑے معیار پر پورا اترے. بتقاضائے بشریت ان سے یا ان میں سے چند ایک سے اگر کچھ گناہ، یا غلطیاں سرزد ہوئیں بھی تو یقینا اللہ پاک ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے. یہاں آخر میں اس رویے کا ذکر کرنا بھی لازم ہے جو صحابہ کرام کو تقریبا انبیاء کی سی عصمت اور پاکیزگی دے دیتا ہے. جہاں کسی صحابی کے کسی انتہائی متنازعہ قول یا فعل کو ہوبہو بیان کرنا بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے، اس قول یا فعل پہ تبصرہ یا تنقید تو رہی دور کی بات.
یہ رویہ بالعموم ردعمل کی نفسیات کے تحت در آیا ہے، جہاں کھلم کھلا صحابہ کی شان میں انتہائی نازیبا گستاخیاں کی جا رہی تھیں، وہاں اس قدر حساسیت پیدا ہوجانا بھی قابل فہم ہے. مگر اپنی اصل میں یہ رویہ بھی پسندیدہ یا قابل حوصلہ افزائی قرار نہیں دیا جا سکتا. حقیقت یہ ہے کہ خود صحابہ کرام نے نہ صرف ایک دوسرے کے متنازعہ اقدامات پر کھل کر بحث کی، بلکہ تابعین اور تبع تابعین نے بھی ان کے تمام تر احترام کے باوجود تمام متنازعہ امور پر کھل کر پوزیشن لی. شریعت کا، دینی اصول و ضوابط کا، بلاامتیاز اور بلا لحاظ سب پر اطلاق ہمارے سلف صالحین کی درخشاں روایت ہے. اور ان کا کمال یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے بھی انہوں نے صحابہ کرام کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا اور شائستگی و توازن کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا. ہمارے لیے بہترین اور پسندیدہ طریقہ یہی ہے کہ ہم متنازعہ امور پر رائے دینے سے ہر ممکن اجتناب کریں، مگر اصولی طور پر یہ تسلیم کریں کہ امرِ واقعی کو بیان کرنا گستاخی ہے نہ توہین.
ناموسِ صحابہ کا قانون پاس ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی تھی کہ اس قانون کو تجویز کرنے والی جماعت کا سابقہ ریکارڈ ایسا تھا کہ سب جانتے تھے کہ یہ قانون ایک مخصوص فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے. اسی وجہ سے اسے اس جماعت کی ہم مسلک مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی پذیرائی نہ مل سکی. قانون سازی ایک مشکل، پیچیدہ اور صبرآزما عمل ہے، اور ایک آئیڈیل قانون ہمیشہ ملزم کو شک کا فائدہ دینے والا ہوتا ہے. خود اسلامی قانون و فقہ میں بھی اس کا اہمتام کیا گیا کہ کوئی مجرم سزا سے بچ جائے,، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی بےگناہ سزا پا جائے، اس لیے ناموسِ صحابہ پہ قانون سازی کے بجائے ذہن سازی یقینا ایک زیادہ بہتر اور پائیدار حکمت عملی ہوگی. یہ مضمون اسی جانب ایک قدم ہے. انتہائی کوشش کی ہے کہ اس سے کسی مسلک یا مکتبہ فکر کی دل آزاری نہ ہو. صحابہ کرام ہم سب کے ہیں اور ہم سب ان کے غلام ہیں. اس موضوع کو لے کر فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کی کوشش بھی اتنی ہی قابل مذمت ہے جتنی شانِ صحابہ میں گستاخی.
دوسری طرف روز بروز بڑھتا ہوا یہ تشویشناک رجحان بھی قابل مذمت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا اور ان کے متنازعہ افعال کا ذکر اس قدر بےتکلفی، دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے اور اس پر اپنی رائے کا ایسا بےباکانہ اظہار کیا جاتا ہے گویا ہمارا موضوع زیربحث اسلام کے ستون کی حیثیت رکھنے والی متبرک ہستیاں نہیں بلکہ نواز شریف، زرداری اور عمران خان جیسے سیاسی لیڈرز ہیں. نام نہاد پڑھے لکھے روشن خیال خواتین و حضرات صحابہ کرام کو اتنا مارجن دینے کو بھی تیار نہیں جتنا کہ وہ اپنے ساتھی لکھاریوں کو دیتے ہیں. اس رویے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور اس کا بہترین طریقہ اسے بالکل نظرانداز کرنا ہے. جہاں آپ کو ہلکا سا بھی احتمال ہو کہ اس مباحثے کے خالق یا شرکاء کی جانب سے ایسا کچھ کہا جا سکتا ہے جو شانِ صحابہ کے منافی ہوگا، وہاں سے فورا باہر نکل جائیے اور اپنے دوستوں کو بھی یہی تلقین کیجیے. ایسے اکثر مباحثے محض داد یا توجہ کی خواہش کے زیراثر شروع کیے جاتے ہیں. آپ ان دونوں چیزوں کو روک لیجیے، یہ فضول بحثیں خود ہی دم توڑ جائیں گی.
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے والوں کو اللہ پاک نے وعید سنائی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن نفوسِ قدسیہ کو اپنا دوست کہا، ان میں سے ہر ایک کے لیے خیر کے کلمات ادا فرمائے، انہیں ستاروں کی مانند قرار دیا کہ ان میں سے کسی ایک کی پیروی بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کو کافی ہے. ان مبارک ہستیوں کو متنازعہ بنا کر، ان پہ بے محابا تنقید کر کے، ان میں سے بعض کو دوسروں سے ادنیٰ قرار دے کر یا بعض کے خلوص اور نیت پر شبہ کر کے ہم کہیں اپنے نیک اعمال اپنے ہاتھوں سے برباد تو نہیں کر رہے؟ خدارا اس معاملے کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی کوشش کیجیے.
اللہ پاک ہمیں اپنی نیتوں کا ہمہ وقت محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیارے ساتھیوں کی اتباع کی توفیق بھی عنایت کرے. آمین.
وما علینا الا البلاغ