ہوم << پردہ اٹھتا ہے! ماہر القادری

پردہ اٹھتا ہے! ماہر القادری

یہ مضمون بہت سوں کو حیرت میں ڈال دے گا،کسی کسی خوش فہم کو شاید پوری طرح یقین بھی نہ آئے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں اصلیت کتنی ہے اور "سخن طرازی" سے کس حد تک کام لیا گیا ہے! بہت سے لوگ سوچ میں ڈوب جائیں گے کہ ہم یہ کیا پڑھ رہے ہیں،جن باتوں کا سان گمان بھی نہ تھا، وہ باتیں بے نقاب ہو کر سامنے آرہی ہیں،عجیب بلکہ عجیب تر انکشاف! مگر لوگوں کی حیرت واقعات کو تو نہیں بدل سکتی،کوئی سر سے پیر تک چاہے حیرت میں ڈوب ہی کیوں نہ جائے اس طرح غرقِ حیرت ہوجانے سے حقیقت اور واقعیت تو نہیں چھپ سکتی،اربابِ نظر کی خدمت میں میری مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ حیرت اور خوش فہمی،عقیدت اور حسنِ ظن سے اگر بالکل خالی الذہن نہیں ہوسکتے تو کم سے کم اس کے غلبہ اور شدت کو کم کر کے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔
مولانا ابوالکلامؔ آزاد کے سفرِ عراق و ایران اور مصر میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کچھ باتوں کی بھنک جب راقم الحروف کے کان میں پڑی تو مجھے خود بہت تعجب ہوا،شروع شروع میں دل کو کسی طرح یقین ہی نہ آتا تھا کہ اتنا بڑا آدمی خود اپنے بارے میں اس قسم کی غلط بیانیوں سے کام لے سکتا ہے،دل بہت دن تک یہی تاویلیں کرتا رہا کہ بڑے آدمیوں کے بارے میں کچھ غلط اور بے سروپا باتیں بھی مشہور ہوجاتیں ہیں بلکہ مشہور کردی جاتی ہیں،کیا عجب ہے کہ یہ باتیں بھی اسی قبیل کی ہوں۔۔۔۔سب سے پہلے دہلی کے مشہور علمی ماہنامہ"برہان" میں مولوی مہر محمد خاں صاحب شہابؔ مالیرکوٹلوی کا ایک مضمون میری نظر سے گزرا،اس مضمون کے پڑھنے کے بعد خیال ہوا کہ ان باتوں کو اب تہمت و الحاق یا محض افواہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،معاملہ اب زبان و گوش تک ہی محدود نہیں رہا،بات خامہ و قرطاس تک آپہونچی ہے۔
مگر سنی سنائی باتوں پر جھٹ سے فیصلہ کر دینا بے احتیاطی ہی نہیں،بے دانشی اور ناانصافی بھی ہے،لہذا ابھی تک میں نے کوئی قطعی رائے قایم نہیں کی لیکن ہاں! یہ ضرور ہوا کہ شروع شروع میں جن باتوں نے مجھے غرقِ حیرت کردیا تھا اس حیرت میں کمی آگئی،یہ باتیں بہرحال تحقیق طلب تھیں اور میں نے جستجو شروع کر دی اسی عرصہ میں مشہور صحافی اور انشاپرداز جناب رئیس احمد جعفری کا ایک مقالہ "فاران" میں چھپنے کے لئے آیا،یہ مقالہ مولانا ابوالکلام آزادؔ کے سفرِ عراق و ایران کے متعلق تھا ،جس میں اس بات کو کنایوں،اشاروں اور استعاروں سے ہٹ کر، دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا کہ مولانا آزادؔ کے عراق و ایران کی سیاحت و سفر کا واقعہ ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا،میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اس مضمون کو اپنے رسالے میں فوراً چھاپ دیتا کہ اس طرح کچھ نہ ہوگا تو کم سے کم لوگوں کو گرمئ محفل اور بحث و سخن کے لئے تو مسالہ مل جائے گا،مگر "فاران" کا ایک ایک صفحہ اس کا شاہد ہے کہ میں نے سستی شہرت کے لئے اس قسم کی بےاحتیاطیوں کا ارتکاب نہیں کیا،گرمئ محفل اور ہنگامہ آرائی میرے پروگرام میں شامل نہیں ہے،مسلمان اور پھر انکے ۔۔واہی تباہی باتیں منسوب کردینا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے،"فاران" اس روشِ عام سے ہمیشہ بچ کر چلا ہے اور اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔
میں ابھی واقعات کی چھان بین ہی کر رہا تھا کہ اتنے میں سہ روزہ "مدینہ"(بجنور) (مورخہ17اگست1951ء) کا ایک شمارہ نظر سے گزرا،جس میں اخبار مدینہ کے ایڈیٹر نے مولانا ابوالکلام آزادؔ سے مل کر بعض مسائل پر بالمشافہہ گفتگو کی تھی اور اس میں مولانا کے سفرِ عراق کا بھی ذکر آیا۔۔۔۔اب تک اس سلسلہ میں بہت سی باتیں میرے علم میں آچکی تھیں اور میں چاہتا تو ان معلومات اور اطلاعات کو منظرِ عام پر لے آتا مگر ضمیر نے اس کی اجازت نہ دی،دل نے کہا اور وجدان نے اس کی تائید کی کہ مولانا ابوالکلام آزادؔ جن سے ان واقعات کا تعلق ہے،خود ان سے استفسار اور تحقیق کرنا ضروری ہے،چوں کہ یہ ان کی ذات کا معاملہ ہے اس لئے صاحبِ ممدوح بہتر طریقہ پر روشنی ڈال سکیں گے،چنانچہ میں نے ایک نیازنامہ مولانا موصوف کی خدمت میں 31اگست1951ء کو رجسٹری کے ذریعہ روانہ کیا،جسے بلفظہ درجِ ذیل کیا جاتا ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صاحب المجدد الکرم دامت معالیکم!
السلام علیکم و علیٰ من لدیکم!جناب والا سے چند ضروری باتیں دریافت طلب ہیں:
۱ ۔مکہ مکرمہ آپ کا مولد بتایا جاتا ہے مگر آپ کا منشاء کونسا مقام ہے؟
۲۔"الہلال" کے سرورق پر "المکنی بابی الکلام الدہلوی" چھپتا رہا ہے،"دہلی" کی مرزبوم سے آپ کی کیا نسبت اور کیا تعلق ہے؟
۳۔کیا "قصور(پنجاب) سے آپ کا کوئی خاندانی تعلق ہے؟
۴۔"غبارِ خاطر" میں آپ نے مصر،ایران،شام اور عراق کے سفر کا ذکر فرمایا ہے یہ سفر آپ نے کس سنہ اور کس ماہ یا مہینوں میں فرمایا تھا؟
۵۔(الف) مسٹر مہادیو ڈیسائی(آنجہانی) نے آپ کے حالاتِ زندگی لکھے ہیں،جن کا اردو ترجمہ مسٹر آصف علی نے کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ آپ نے جامعہ ازہر میں تعلیم پائی تھی،براہِ کرم مطلع فرمایا جائے کہ آپ کس سنہ میں جامعہ ازہر کے طالبِ علم رہے ہیں؟
(ب) آپ کے زبانی حوالہ کی بنیاد پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آپ کی شیوخ جامعہ ازہر سے علمی صحبتیں رہی ہیں،اس سلسلہ میں بھی سنہ کی ضرورت ہے۔
جناب والا کی گوناگوں مصروفیات کو دیکھتے ہوئے مختصر سے مختصر عریضہ لکھا گیا ہے تاکہ جناب کم سے کم وقت میں جواب عنایت فرما سکیں،ان پانچ سوالوں کے لئے زیادہ سے زیادہ پانچ سطروں کے لئے(بلکہ اس سے بھی کم) جناب کو زحمت کرنا ہوگی۔
یقین ہے کہ جواب سے ضرور مفخر فرمایا جائے گا!
نیاز کیش:ماہرؔ القادری
دو ہفتہ سے کچھ زائد میں نے جواب کا انتظار کیا،جب اٹھارہ دن تک جواب نہ آیا تو میں نے یاددہانی کے لئے دوسرا عریضہ(پہلے رجسٹرڈ خط کا نمبر (193) اور دوسری رجسٹری کا نمبر (908) ہے!) مولانا ابوالکلام آزادؔ کی خدمت میں 18ستمبر 1951ء کو رجسٹری کے ذریعہ ہی بھیجا،جس کی یہ عبارت ہے:
گرامی منزلت دامت معالیکم!
ہدیہ سلام و رحمت!میں نے ایک رجسٹرڈ نیازنامہ 31اگست کو خدمتِ گرامی میں گزرانا تھا اس کے جواب کے لئے چشم براہ ہوں،براہِ کرم جواب جلد عنایت فرمایا جائے۔
والسلام
نیازمند:ماہرؔ القادری
انقلابِ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں حکومتوں میں ڈاک کا انتظام زیادہ اچھا نہیں رہا،اس لئے میں نے بہ نظرِ احتیاط مولانا آزادؔ کی خدمتِ گرامی میں دونوں خط رجسٹری کے ذریعہ حاضر کئے تھے کہ گم ہونے کا امکان باقی نہ رہے،میں بہت دنوں تک انتظار کرتا رہا کہ اب جواب آتا ہے،تب جواب آتا ہے مگر افسوس ہے کہ اس باب میں مجھے مایوس ہی ہونا پڑا،پہلے خط کو لکھے ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوچکے لیکن مولانا ممدوح کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ یقیناً عظیم شخصیت کے مالک ہیں اس سے انکار بلکہ اس میں شبہ کرنے کی جرات بھی کوئی نہیں کرسکتا مگر مراسلت و گفتگو کا ایسا معاملہ ہے کہ اس میں رتبہ،منصب اور مراتب کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا،اکابر،اصاغر کے خطوں اور نیاز ناموں کے جواب بھی عنایت فرما دیا کرتے ہیں اور ان کو اپنی محفلوں میں بار پانے کی اجازت بھی عنایت فرماتے ہیں،اگر ایسا نہ ہو اور بڑے آدمی صرف اپنے ہی جیسے بڑے آدمیوں سے ربط ضبط رکھنا پسند کریں اور چھوٹے آدمیوں کو لائقِ خطاب اور سزاوارِ التفات ہی نہ سمجھیں تو پھر بڑے آدمیوں کی زندگی خود ان کے لئے اجیرن بن کر رہ جائے،اس لئے کہ قریوں،قصبوں،شہروں اور ملکوں میں بڑے آدمی تو گنتی ہی کہ ہوتے ہیں اور کہیں کہیں تو ایک آدھ ہی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے گھروں میں بند بیٹھے رہیں کہ جب ان کے جوڑ کا کوئی آدمی آئے گا اسی وقت لب ہائے مبارک کو جنبش ہوگی،اگر بڑے آدمیوں کا یہی دستور رہتا تو تمدن اور ترقی،فیض و استفادہ،علم و اطلاع تحقیق و تفحص کی سعادتوں سے دنیا محروم رہتی۔
گاندھی جی کی مصروفیات کا بھلا کوئی ٹھکانا تھا اور ان کی شخصیت تو روزولٹ،چرچل اور اسٹالن سے بھی بلند تھی مگر وہ بھی معمولی معمولی لوگوں کے خطوں کا جواب دیا کرتے تھے،مسٹر کلیم الرحمٰن (جو منٹو سرکل ہوسٹل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نگران تھے) مجھے ایک خط دکھایا تھا جو مسٹر ولبھ بھائی پٹیل آنجہانی نے ان کے ایک استفسار کے جواب میں بھیجا تھا،یہ خط دراصل گاندھی جی کے نام روانہ کیا گیا تھا اس مکتوب کا دفتری تعلق چونکہ سردار پٹیل نائب وزیراعظم حکومت سے تھا اس لئے مہاتما جی نے وہ خط مسٹر پٹیل کے پاس بھیجدیا اور مسٹر پٹیل نے مکتوب نگار کو جواب دیا اور خط پر خود ان کے دستخط ثبت تھے حالانکہ اس کام کو سردار پٹیل کے سکریٹری بھی انجام دے سکتے تھے۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،امیر شکیب ارسلان،عوام کے خطوں کا جواب دیا کرتے تھے،"برنارڈشا" اپنی انتہائی ادبی اور علمی مصروفیات کے باوجود خطوں کے جواب دینے میں بخیل نہیں تھا اور ظاہر ہے خط لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ،ایچ جی ویلز اور چرچل جیسی شخصیت کے لوگ کہاں ہوسکتے تھے!میری سادگی پر شاید لوگ ہنسیں گے کہ میں نے لفافہ نہیں ایک جوابی کارڈ علامہ اقبالؔ مرحوم کی خدمت میں بھیجا،یہ میرے اوائل شباب کا واقعہ ہے میں ان دنوں اپنے وطن (کسیر کلاں،ضلع بلند شہر) میں تھا،اقبالؔ نے خود اپنے ہاتھ سے جواب لکھ کر روانہ فرمایا،مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے آٹھ دن کے اندر اندر جواب آگیا تھا۔۔۔۔سنا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو خطوں کا جواب دینے میں خاص طور پر فیاض واقع ہوئے ہیں۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ بعض خطوں کے جواب نہیں دیئے جاتے،یعنی ایسے خطوط جن سے خواہ نخواہ کی چھیڑ اور نزاع مقصود ہو،یا جن کے جواب میں مکتوب الیہ کو بہت زیادہ کاوش کی ضرورت اور فرصت درکار ہو اور سرسری طور پر جواب دینے سے الجھنیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو یا مکتوب نگار کے بارے میں مکتوب الیہ کو اس کا علم ہو کہ وہ اس سے کد،دشمنی اور عداوت رکھتا ہے اور اس مرسلت،گفت و شنید اور نامہ و پیغام کا مقصد کسی فتنہ کو ہوا دینا ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر میرا خط اس طرح کا خط نہیں تھا مولانا ابوالکلام آزادؔ نے مجھ خاک نشین اور ہیچمدان کا شاید نام بھی نہیں سنا ہوگا،میرا خط ان کے پاس بالکل ایک اجنبی شخص کی تحریر کی حیثیت سے پہونچا،میں نے ان سے کوئی علمی مسئلہ بھی دریافت نہیں کیا کہ اس کے لئے طویل فرصت درکار ہوتی اور نہ میں نے ان کے کسی علمی،ادبی،سیاسی اور مذہبی نظریہ پر کوئی تنقید لکھ کر ان کی خدمت میں بھیجی کہ اس کا سرسری جواب بہت سے فتنوں کا باعث ہوسکتا تھا،میرے استفسار کے جواب کے لئے مولانا ابولکلام آزادؔ کو ذرا سی بھی زحمت گوارا کرنے کی ضرورت نہ تھی،تین چار منٹ میں جواب لکھا یا لکھوایا جا سکتا تھا،مولانا موصوف حکومتِ ہند کے وزیر تعلیم ہیں،مددگاروں،کام کرنے والوں اور ماتحتوں کی ہر قسم کی سہولت بھی ان کو میسر ہے۔۔۔یہ باتیں اہم اس لئے تھیں کہ زبانوں سے نکل کر کاغذ پر آچکی تھیں ان کی حیثیت محض "افواہ" کی نہیں رہی تھی،یہ بات مولانا آزادؔ کے علم میں تھی،اس صورت میں غلط فہمی رفع کرنے کے لئے میرے سوالوں کا جواب دینا اور زیادہ ضروری تھا کہ جواب نہ دینے اور سکوت اختیار کرنے سے غلط فہمیاں اور مضبوط اور شاخ در شاخ ہوجائیں گی۔
پھر یہ بات بھی نہیں ہے کہ مولانا آزادؔ خطوں کے جواب دینے میں فطرتاً بے پروا واقع ہوئے ہوں اور خطوں کا جواب نہ دینا اور اس معاملہ میں بے نیازی برتنا ان کی عادت ہو "غبارِ خاطر" کے مقدمیں خود مولانا کے پرائیوٹ سکریٹری محمد اجملؔ صاحب نے لکھا ہے:
"مولانا کو سینکڑوں خط لکھنے اور لکھوانے پڑتے ہیں۔"
میں نے اوپر جو کچھ کہا ہے وہ مفروضات اور قیاس آرائیاں نہیں ہیں یہ واقعات ہیں جو بتاتے اور ظاہر کرتے ہیں کہ میرے نیاز نامہ کے جواب دینے سے مولانا ابوالکلامؔ کا پہلو تہی کرنا یقیناً "معنیٰ خیز" ہے اور مولانا آزادؔ نہیں چاہتے کہ ان چیزوں پر گفتگو ہو،یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں اور واقعات بے نقاب ہوں۔
میں عند اللہ اور عندالناس ہر ذمہ داری سے بری ہوں کہ تحقیق و استفسار کی جو ممکنہ کوشش میرے بس میں تھی وہ کرچکا مولانا آزادؔ کی خدمت میں عریضہ اسی غرض کے لئے بھیجا تھا کہ یہ باتیں محض غلط اندیشی اور غلط فہمی پر اگر مبنی ہیں تو وہ اس کا ازالہ فرمادیں گے،اس سے اور اچھی کیا بات ہوسکتی ہے کہ کسی بڑے آدمی کی ذات اور شخصیت کے بارے میں کوئی غلط فہمی اس کے جیتے جی لوگوں میں پیدا ہو اور اس کو وہ خود دور کر دے مولانا آزادؔ کو زندگی ہی میں اس کا موقع ملا مگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے ،کیوں؟ اس کا جواب آپ کو آگے ملے گا،شاید اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے ہی میں وہ اپنی بہتری سمجھتے ہیں۔
چند گزارشیں:
دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں،کیا عجب ہے کہ کوئی صاحب میری اس تحریر کو مسلم لیگ اور کانگریس کی کشمکش کا انتقامی نتیجہ قرار دیں،خدا جانتا ہے کہ لیگ اور کانگریس کی کشمکش سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اور مولانا آزادؔ کو خدانخواستہ بدنام کرنے اور انکی بلند شخصیت کو مجرور کرنے کے لئے یہ کام کرنا تھا تو اس کا سب سے زیادہ مناسب وقت تقسیم ہند کا زمانہ تھا جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے بہت سے جوشیلے کارکن ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے تھے،یہ بحث میں اس وقت چھیڑتا تو ایک طبقہ میں مقبولیت حاصل ہوسکتی تھی مگر اس قسم کی ضمیر فروشانہ مقبولیت کا تصور نہ اس وقت میرے ذہن میں تھا اور نہ اب ہے ،اس طرح کی اوچھی باتوں سے مجھے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔
ہندوستان بٹ گیا،پاکستان بنے ہوئے بھی چار سال ہوچکے،لیگ اور کانگریس کی نزاع کبھی کی ختم ہوچکی،ہندوستان میں جو مسلمان رہتے ہیں تقسیم ہند سے قبل چاہے ان کی روش کچھ بھی رہی ہو مگر اب وہ مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے پاکستانی مسلمانوں کے تمام مظلوم بھائیوں سے ہمدردی ہے اور وہ کسی کے بارے میں برا جذبہ نہیں رکھتے۔۔۔۔۔اگر میں پاکستان کے بجائے ہندوستان میں ہوتا اور ان واقعات کا انکشاف ہوتا تو میں وہاں بھی اس انکشاف کو منظرِ عام پر لے آتا۔
کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اس انکشاف کی آخر کون سی ضرورت محسوس ہوئی!اس کے جواب میں عرض ہے کہ اسی وقت چونکہ یہ واقعات منکشف ہوئے اس لئے ان کو ظاہر کیا جارہا ہے اگر وہ اس سے پہلے معلوم ہوجاتے تو اسی وقت ان کو آشکار کردیا جاتا اور ہر وہ بات جو کسی واقعہ کی غلطی ظاہر کرتی ہو اس کے لئے کسی موسم وقت اور زمانہ کی قید نہیں ہے سوائے اس صورت کے جبکہ اس کے اظہار سے کسی بڑے فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ اور کسی وقومی،دینی اور اخلاقی نقصان کا خطرہ ہو۔
آگر کوئی شخص اس بات کا اعلان کرے کہ "ماہرؔ القادری شراب پیتا ہے " تو اس کے بارے میں کئی طرح کی رائیں ہوں گی،کوئی کہے گا کہ مسلمان کے کسی گناہ اور اخلاقی کمزوری کا اس طرح افشا نامناسب ہے،چھپانا،چسم پوشی سے کام لینا اور نظرانداز کردینا ہی بہتر ہے ،جو کوئی بندوں کے عیب چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں کو چھپائے گا ،کہیں سے آواز آئے گی کہ ممکن ہے کہ اپنی زندگی کے پچھلے دور میں ماہرؔ شراب پیتا ہو اور اس نے اب شراب خواری سے توبہ کرلی ہو،کیا کہنے والا اپنی آنکھ سے ماہرؔ کو شراب پیتے ہوئے دیکھ آیا ہے،کوئی کہے گا کہ فاسق اور فجار اسی قابل ہیں کہ ان کو رسوا کیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت اور نصیحت ہو۔۔۔۔۔غرض اس باب میں لوگوں کی مختلف رائے ہوں گی مگر اکثریت کا رجحان "پردہ پوشی" کی جانب ہی ہوگا،مگر میں یہ کہوں کہ میں نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی ہے اور حضرت مولانا انورؔ شاہ مرحوم نے اپنے ہاتھ سے میرے سر پر دستارِ فضیلت باندھی ہے" حالانکہ میں نے دیوبند کے مدرسہ میں کبھی تعلیم نہیں پائی اور جب وہاں میں نے پڑھا ہی نہیں تو دستارِ فضیلت اور سندِ تکمیل کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ہاں!تو میری اس غلط بیانی کے سلسلہ میں سب کی ایک رائے ہی ہوگی،دو یا اس سے زیادہ رائیں ہو ہی نہیں سکتیں،جو شخص واقفِ حال ہوگا اس کا فرض ہوگا کہ وہ میری اس غلط بیانی کی تردید کرے!میری اخلاقی کمزوریوں کے اعلان و اظہار اور میری غلط بیانی کی تردید کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہے،اس کا حال ایسا ہی ہے جس طرح تاریخی غلطیوں اور علمی فروگزاشتوں پر احتساب کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔اب اگر کوئی شخص کسی کی شخصیت اور ذات و صفات پر ایمان بالغیب رکھتا ہو اور اس نے یہ طے ہی کر لیا ہو کہ "میں فلاں شخصیت کے بارے میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتا ،کیسی ہی روشن دلیلیں کیوں نہ لائی جائیں مگر میری عقیدت اور حسنِ ظن میں کمی نہیں آسکتی تو اس ذہنیت کے افراد کو افسوس ہے میں مطمئن نہیں کرسکتا اور ان کی دشنام طرازیوں کو میں پہلے ہی معاف کئے دیتا ہوں،میرے مخاطب وہ اہلِ حق اور اربابِ بصیرت ہیں جو "حق" کو شخصیتوں سے بلند سمجھتے ہیں۔
خاموش سفر(؟) :
جامعہ ازہر قاہرہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیم پانے کی سب سے پہلی اطلاع مسٹر مہادیو ڈیسائی کی کتاب کے ذریعہ لوگوں تک پہونچی،مہادیو ڈیسائی(آنجہانی) کے نام اور کام سے لکھے پڑھے لوگ ناآشنا نہیں ہیں،وہ گاندھی جی کے نہایت معتمد علیہ رفیق شریک کار اور پرائیوٹ سکریٹری تھے،گاندھی جی کے صحافتی کاروبار انھی سے زیادہ تر متعلق تھے،مسٹر ڈیسائی انگریزی کے بہت اچھے انشاپرداز بھی تھے،انھی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی "لائف"
MAULANA ABULKALAM AZAD
THE PRESIDENT OF THE INDIAN NATIONAL CONGRESS
A BIOGRAGHICAL MEMOIR
BY
MAHADEV DESAI
لکھی ہے،اس کتاب پر "پیش لفظ"FOREWARD خود مہاتما گاندھی نے تحریر فرمایا ہے،یہ پیش لفظ بہت زیادہ مختصر ہے کل چھ سطریں ہیں اور ۱۸ مئی ۱۹۴۰ء تاریخ درج ہے،ایک صفحہ سے کچھ کم کا دیباچہ بھی ہے جس کے لکھنے والے مسٹر ہوریس الگزنڈر ہیں۔۔۔۔۔یہ اٹھاسی ۸۸ صفحوں کی کتاب ہے جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کے واقعات کے ساتھ ساتھ بہت سے سیاسی مباحث بھی آگئے ہیں جن کا یہاں تذکرہ کیا جائے گا تو میں اپنے موضوع سے بہت دور چلا جاؤں گا،مولانا آزاد کے جو سوانح حیات اس کتاب میں درج ہیں ان کا مآخذ مولانا موصوف کی خود نوشت سوانح عمری "تذکرہ" اور خود ان کی زبان سے سنے ہوئے حالات ہیں۔
اس کتاب کے صفحہ ۸ پر یہ عبارت ہمیں ملتی ہے:
(ترجمہ:)
"سرسید احمد خاں نے قدامت پرستی کی طاقتوں کے خلاف مہم شروع کردی اور انگریزی اور جدید سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مسلم قوم سے پرجوش اپیل کی،میرے (یعنی مولانا ابوالکلام آزاد کے) والد بہرحال اس چیز کو گوارا نہ کرسکتے تھے،انھوں نے مجھے اور میرے بھائی کو قدیم طرز پر تعلیم دلائی،اس لئے میرے لئے کسی انگریزی اسکول میں بھیجے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا،وہ چاہتے تھے کہ میں کسی نہ کسی طرح فاضل ترین علماء کی جماعت میں اپنا نام پیدا کروں،لہذا انھوں نے مجھے ۱۹۰۵ء میں اپنے ذاتی مصارف سے مصر بھیجا تاکہ قاہرہ کی مشہور یونیورسٹی الازہر میں عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکوں،میں وہاں دو سال تک متعلم رہا اور ۱۹۰۷ء میں ہندوستان واپس آیا"
اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۰۵ء میں مصر تشریف لے گئے اور دوسال یعنی ۱۹۰۷ء تک وہاں قیام فرمایا۔۔۔۔۔اب میں اپنی تحقیق کی بنا پر مولانا موصوف کی زندگی کی مصروفیت کے چند سال تاریخی سنین کے ساتھ یہاں پیش کرتا ہوں،میری اس تحقیق کا نقطہء آغاز ۱۹۰۲ء ہے!
جولائی ۱۹۰۲ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کلکتہ میں موجود تھے،اسی مہینہ میں شاہ ایڈورڈ ہفتم کے جشنِ تاج پوشی کے سلسلہ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس میں مولانا موصوف نے بھی مدحیہ قطعے پڑھے تھے۔۔۔۔فرماتے ہیں:
شد تخت نشیں بہ تخت انگلینڈ
خوش بخت شد است بحتِ انگلینڈ
یعنی ایڈورڈ شاہ ذی جاہ
شد تخت نشیں بہ عزت و جاہ
ہوئی لندن میں از فضل الٰہی
نہایت شان سے جب تاج پوشی
کہا آزادؔ نے بڑھ کر ادب سے
مبارک شاہ کو اب تاج پوشی
اس مشاعرہ کے صدر جناب رنجور عظیم آبادی تھے اور مولوی غلام یسین آہؔ نے تقریر کی تھی،اخبار "الپنج" بانکی پور(مورخہ ۵جولائی۱۹۰۲ء)میں اس مشاعرے کی کاروائی تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔
۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ءمیں مولانا آزادؔ کلکتہ سے "لسان الصدق" نکالتے تھے،۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۶ء میں الندوہ کے ایڈیٹر رہے اور ۱۹۰۶ء کے بعد ۱۹۰۸ء تک "الوکیل" (امرتسر) کی ادارت مولانا ممدوح سے متعلق رہی۔۔۔۔یہ ہے ۱۹۰۲ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ہندوستان میں قیام اور ان کی مصروفیات کی تفصیل!مسٹر مہادیو ڈیسائی نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی ان سنین سے کسی طرح مطابقت نہیں ہوتی،دو چار مہینہ کا فرق اور اختلاف ہوتا تو اسے کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر فِٹ کیا جاسکتا تھا مگر یہاں تو دوسال کی مدت کا فرق ہے جس کی کوئی توجیہ اور تاویل ہماری سمجھ میں نہیں آتی،مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ جن دوسالوں میں مولانا آزادؔ کا قاہرہ میں قیام بتایا جاتا ہے ان میں وہ الندوہ اور الوکیل کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ نے "تذکرہ" میں اپنے خاندان کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے خانوادے میں مدتوں ارشاد و تصوف کی شمعیں روشن رہی ہیں،اس لئے ان سنین اور واقعات کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے مولانا کے خاندانی تصرفات ہی سے مدد لی جاسکتی ہے،یعنی یہ فرض کرلیا جائے کہ مولانا آزادؔ بہ وقتِ واحد ہندوستان میں بھی موجود تھے اور قاہرہ کے جامعہ ازہر میں بھی تعلیم پارہے تھے۔۔۔۔۔۔اس کے سوا اور کوئی تاویل،توجیہ اور تطبیق ہمارے ذہن میں نہیں آتی۔
کسی شخص سے اظہارِ واقعہ میں کسی سبب سے بھول چوک ہوجائے اور وہ اس کا ایچ پیچ کے ساتھ نہیں،صاف اور واضح لفظوں میں اقرار کرلے تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا ہے لیکن غلط بیانی کو صحیح اور درست ثابت کرنے کی کوشش جب بھی کی جائے گی،کچھ اور غلط بیانیوں کا اضافہ ہوجائے گا،یہی چیز یہاں مشاہدہ میں آرہی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے سفر مصر و عراق کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور یہ باتیں تحریر تک میں آگئیں تواس حاشیہ آرائی کی ضرورت محسوس کی گئی،۱۶فروری۱۹۴۹ء کا "نیا ہندوستان" ہمارے سامنے ہے،جس میں ایک مضمون کا عنوان "امام الہند" ہے،اس مضمون کے شروع میں یہ نوٹ درج ہے:
"کئی سال کی کوشش و محنت سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح حیات کا حصہ اول مرتب کیا گیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ بے انتہا مصروفیت کے باوجود امام الہند نے ہمارے مرتب کردہ سوالات کے تحریری و زبانی ضوابات بھی ازراہِ کرم عنایت فرمائے لیکن جب ترتیب کے بعد اس کی اشاعت کا سوال آیا تو امام الہند نے سختی سے روکا اور فرمایا کہ کسی شخص کی سوانح حیات مکمل طور پر زندگی میں مرتب نہیں ہوسکتی ،اس لئے فی الحال اس ارادہ کو ملتوی کردیا جائے،اس کا ایک حصہ ہدیہ ناظرین کیا جارہا ہے اور ان شاءاللہ کبھی کبھی پیش ہوتا رہے گا۔۔۔۔شاہدؔ شیروانی"
اس شذرہ کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات کا آغاز ہوتا ہے،اس مقالہ کے دوسرے پیراگراف کے شروع کے جملے یہ ہیں:
"آپ کا بچپن مکہ اور مدینہ میں بسر ہوا،مدینہ میں ان کے والد کا مکان دینی تعلیم کا ایک بہت بڑا مرکز تھا،ابتدائی تعلیم آپ نے والد سے حاصل کی آپ نے قاہرہ کی مشہور عالم یونیورسٹی الازہر میں میں بھی تعلیم حاصل کی ہے،چودہ سال کی عمر میں آپ نے جامعہ الازہر میں علوم مشرقی کا نصاب پورا کرلیا تھا۔۔۔۔"
یہاں پہونچ کر "کر لیا تھا" پر یہ نشان (؂۱) ثبت ہے اور ذیل کا فٹ نوٹ درج ہے،جسے بلفظہ نقل کرتے ہیں:
"یہ غلط ہے کہ مولانا نے جامعہ ازہر قاہرہ میں تعلیم پائی ہے،مسٹر آصف علی کی طرح دوسرے سوانح نگاروں مہادیوڈیسائی وغیرہ نے بھی دھوکا کھا ہے،۱۹۰۶ء میں مصر وغیرہ گئے تھے،ظاہر ہے کہ اس وقت ۱۸سال کی عمر تھی اور ہندوستان کی صحافتی و علمی دنیا میں اپنے معرکۃ الارا مضامین کی بدولت کافی شہرت و وقعت حاصل کرچکے تھے،تکمیل تعلیم ۱۵،۱۶ سال کی عمر میں ہی ہوچکی تھی،یہ ضرور ہے کہ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کی طرح اکابر جامعہ ازہر اور مفتی محمد عبدہ کے "دارالعلوم" کے شیوخ سے استفادہ کیا اور ان کی علمی مجالس کی زینت بنے،اس کی تحقیق ۲۳جنوری ۱۹۴۷ء کی ایک ملاقات میں خود امام الہند سے کرچکا ہوں،اس سفر میں برادرِ گرامی غلام یسین آہ مرحوم بھی امام الہند کے ساتھ تھے مگر وہ عراق سے واپس آگئے اور مولانا ۱۹۰۷ء میں ایک سال کی سیر و سیاحت کے بعد واپس ہوئے۔۔۔شاہد شیروانی"
مولانا ابوالکلام آزاد کے سفرِ مصر کا واقعہ تو مسٹر مہادیو ڈیسائی کی کتاب اور جناب شاہد خاں شیروانی کے اس شذرہ میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے،لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا ان میں دو زبردست اختلافات موجود ہیں۔ایک سنِ تاریخ کا اختلاف اور دوسرا مقصد سفر اور وہاں کی مصروفیات کا اختلاف!مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے کہ مولانا ۱۹۰۵ء میں مصر تشریف لے گئے تھے اور شاہد شیروانی اس سفر کا سنہ۱۹۰۶ء بتاتے ہی،ڈیسائی لکھتے ہیں کہ مولانا جامعہ ازہر میں عربی کی تعلیم پانے کی غرض سے گئے تھے اور دوسال تک اسی سلسلہ میں وہاں قیام کیا اور شاہد شیروانی کا بیان ہے کہ مولانا نے جامعہ ازہر میں سرے سے تعلیم ہی نہیں پائی ہاں!یہ ضرور ہے کہ "اکابر جامعہ ازہر اور مفتی محمد عبدہ کے دارالعلوم کے شیوخ سے استفادہ کیا اور ان کی علمی مجالس کی زینت بنے۔۔۔۔"
یہ عجیب و غریب اختلاف اور تضاد ہے،عجیب و غریب ہم اس بنا پر کہہ رہے ہیں کہ مسٹر ڈیسائی اور شاہد شیروانی نے جو کچھ لکھا ہے خود مولانا ابوالکلام آزاد کی زبان سے سن کر لکھا ہے،آخر ہم ان دونوں میں سے کس کے بیان کو صحیح سمجھیں۔۔۔۔ایک واقعہ یا ایک بات بہت سے راویوں سے جب سنی جاتی ہے یا اصل شخص اور اس کے راویوں کے درمیان مدت اور زمانہ کے اعتبار سے فرق اور طول ہوتا ہے تو اس قسم کے اختلافات کے لئے گنجایش نکل سکتی ہے،مگر یہاں تو راویوں کا سلسلہ ہی درمیان میں نہیں ہے،اصل شخص کہتا ہے اور سننے والا روایت کرتا ہے اور یہ روایتیں اس شخص کی زندگی ہی میں پھیلتی ہیں،اس اعتبار سے روایات کا یہ تضاد اور اختلاف یقیناً عجیب و غریب ہے
مسٹر مہا دیو ڈیسائی کی کتاب ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی تھی،ناممکن ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اسے نہ پڑھا ہو،جب وہ لکھی جارہی تھی اس کا بھی مولانا کو علم تھا،مسٹر ڈیسائی نے مولانا کے سفرِ مصر کے سلسلہ میں اگر کوئی غلط بات لکھ دی تھی تو اس کی ہاتھ کے ہاتھ تردید کردینی چاہیئے تھی،مگر نہیں کی گئی۔۔۔۔جب یہ بات موضوعِ بحث بنی تو ۱۹۴۷ء میں اس کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اسے شاہد شیروانی کے حوالہ سے اوپر درج کیا جاچکا ہے۔
یہ تو مولانا ابوالکلام آزاد کے سفرِ مصر کی داستان رہی،اب عراق،ایران اور لبنان کے سفر کا حال سنئے۔۔۔۔
"شکر کے معاملہ میں اگر کسی گروہ کو حقیقت آشنا پایا تو وہ ایرانی ہیں اگرچہ چائے کی نوعیت کے بارے میں چنداں ذی حس نہیں مگر یہ نکتہ انھوں نے پالیا ہے،عراق اور ایران میں عام طور پر یہ بات نظر آئی تھی کہ چائے کے لیے قند کو جستجو میں رہتے تھے اور اسے معمولی شکر پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ قند صاف ہوتی ہے اور وہی کام دیتی ہے جو موٹے دانوں کی شکر سے لیا جاتا ہے،نہیں کہہ سکتا کہ اب وہاں کیا حال ہے؟"(غبارِ خاطر صفحہ ۱۷۹،۱۸۰)
قند اور چائے کے بعد،موسم کا ذکر فرماتے ہیں:
"غالباً ۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ بمبئی میں مرزا فرصت شیرازی صاحب آثار العجم سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا وہ برسات کا موسم پونا میں بسر کر کے لوٹے تھے اور کہتے تھے کہ پونا کی ہوا کے اعتدال نے ہوائے شیراز کی یاد تازہ کردی
اے گل بہ تو خر سندم تو بوئے کسے داری!
میرا ذاتی تجربہ معاملہ کو یہاں تک نہیں لے جاتا لیکن بہرحال شیراز میں مسافر تھا اور مرزا موصوف صاحب البیت تھے و صاحب البیت ادری بما فیہا!" (غبارِ خاطر ۱۹۳،۱۹۴)
شیراز کے بعد لبنان کا ذکر آتا ہے،لکھتے ہیں:
"لوگ گرمیوں میں پہاڑ جاتے ہیں کہ وہاں کی گرمیوں کا موسم بسر کریں،میں نے کئی بار جاڑوں میں پہاڑوں کی راہ لی کہ وہاں جانے کا اصلی موسم یہی ہے،متنبیؔ بھی کیا بے ذوق تھا کہ لبنان(اگر متنبیؔ کا اور حافظ کے شعروں کا ذکر کرنا تھا تو اس کے لئے لبنان اور شیراز و قزوین کی سیر و سیاحت کی افسانہ طرازی سے ہٹ کر،دوسرا پیرایہ بھی مولانا اختیار فرما سکتے تھے،مولانا آزاد فطرتاً خوش ذوق اور نفاست پسند واقع ہوئے ہیں،ایران کے چمن زاروں کی سیرونظارگی کو اس پر شاہد بنانے کی کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی۔ماہرؔ) کے موسم کی قدر نہ کرسکا میری زندگی کے چند بہترین ہفتے لبنان میں بسر ہوئے ہیں۔"(غبارِ خاطر صفحہ ۱۹۸)
ایران کے چمن زاروں میں مرغانِ خوش الحان کی نغمہ سنجی کا افسانوی احوال پڑھنے کی چیز ہے:
"حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک شخص نے شیراز یا قزوین کے گل گشتوں کی سیر نہ کی ہو وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ حافظ کی زباں سے یہ شعر کس عالم میں ٹپکے تھے:
بلبل بہ شاخِ سرو بہ گلبانگ پہلوی
می خواند دوش درسِ مقامات معنوی
یعنی بپا کہ آتشِ موسیٰ نمود گل
تا از درخت نکتہ تحقیق ۔۔۔۔
مرغانِ باغ قافیہ سنجدو بذلہ گو
تا خواجہ مے خورد بہ غزلہائے پہلوی
یہ جو کہا کہ مرغانِ باغ "قافیہ سنجی" کرتے ہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہے،واقعہ ہے میں نے ایران کے چمن زاروں میں ہزار کو قافیہ سنجی کرتے خود سنا ہے۔(غبارِ خاطر صفحہ ۲۳۶)
گمنام سیاحت
جہاں تک ہماری تحقیق اور معلومات کا تعلق ہے،ایران،عراق اور لبنان کے سفر کا ذکر "غبارِ خاطر" کی تصنیف پہلے اور کہیں نہیں ملتا،مسٹر ڈیسائی نے اپنی کتاب میں سفرِ مصر کا تو ذکر کیا ہے اور مولانا آزاد کے زبانی بیان کے حوالہ سے کیا ہے مگر عراق،ایران اور لبنان کی سیر و سیاحت کا کہیں ذکر تو کیا نام تک نہیں لیا۔احمد نگر کے قلعہ میں جب مولانا نظر بند تھے اور "غبارِ خاطر" کے خطوط لکھ رہے تھے،اس زمانہ میں عراق،ایران اور لبنان کے سفر کا ایکاایکی کس طرح کشف ہوگیا،اس سے پہلے لبنان کے پہاڑوں کے مناظر اور شیراز و قزوین کے چمن زاروں میں مرغانِ خوش الحان کی نغمہ سنجیاں،آخر مولانا کے قلب و دماغ کے کس گوشہ میں بند تھیں۔۔۔شاید اسیری اور قید و بند میں حافظہ ضرورت سے زیادہ تیز،حساس اور جدت طراز ہوجاتا ہے۔
مصنفوں اور انشاپردازوں کی یہ عادت ہے کہ جب انھیں کوئی سفر درپیش آتا ہے تو وہ کسی نہ کسی عنوان سے غیر ممالک کی سیر و سیاحت کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور وہ انشاپرداز جو رسالوں اور اخباروں کے ایڈیٹر بھی ہوں وہ تو اپنے سفر کے ذکر سے باز آ ہی نہیں سکتے۔
علامہ شبلی نعمانی نے مصر اور ترکی کا سفر فرمایا تو اس سفر کا حال کتابی صورت میں شائع کیا،رائیس الاحرار مولانا محمد علی مرحوم اور مولانا سید سلیمان ندوی کے سفرِ انگلستان کا حال ان کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے،سر شیخ عبدالقادر مرحوم کا سفرنامہ ہماری نظر سے گزرا ہے،اور تو اور پیسہ اخبار کے ایڈیٹر مولوی محبوب عالم انگلستان گئے تھے تو ان تک نے اپنے سفر کے حالات لکھ کر چھپوائے تھے،بڑے آدمیوں کے ساتھ اپنا ذکر مناسب نہیں سمجھتا مگر ضرورت آپڑی ہے تو عرض کرتا ہوں کہ میں نے ۱۹۳۳ء میں عراق کا سفر کیا تھا اور وہاں سے واپس آکر درجنوں مضامین لکھے اور "بغداد کے چمن میں ایک شام" کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی جو میرے مجموعہ کلام میں موجود ہے!آخر مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے سفر اور سیاحت کا ذکر کیوں نہیں فرمایا اور جو ذکر ان کے حوالہ سے لوگوں تک پہنچا ہے وہ چند سال کی مدت کے اندر ہی کا ہے،اتنی مدت تک ان واقعات پر سکوت اور گمنامی کے پردے آخر کس لیے پڑے رہےاور ان مشاہدات اور واردات کو "شدید راز" کی طرح کیوں چھپایا گیا۔
الندوہ،الوکیل اور الہلال کے صفحات مولانا آزاد کے ذکر سے آخر کیوں خالی ہیں اور یہ کس قسم کی گمنام سیاحت اور چپ چاپ سفر ہے کہ ان کے معاصرین اور دوستوں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی،نہ اس زمانے کے یا بعد کے کسی اخبار میں مولانا کے سفر کا کوئی حال،اطلاع،خبر یا تفصیل چھپتی ہے اور نہ مولانا ہندوستان میں اپنے کسی دوست اور عزیز کو مصر،عراق،ایران اور لبنان سے کوئی خط لکھتے ہیں۔۔۔۔اور پھر حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ مولانا آزاد اپنی خودنوشت سوانح عمری "تذکرہ" میں اپنے بارے میں اور تو سب کچھ لکھتے ہیں مگر اس سیر و سیاحت کا حال نہیں لکھتے۔
بعض لوگ یقیناً اس طرح کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی جبلت پر تواضع اور انکسار کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ اپنے بارے میں بہت ہی کم کہتے ہیں،مگر مولانا آزاد کا "تذکرہ" گواہ ہے کہ وہ منکسرالمزاج لوگوں میں سے بھی نہیں ہیں،اپنے خاندان اور اپنے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے،بڑے آدمیوں میں سے شاید بہت ہی کم نے اپنے متعلق اتنا کچھ لکھا ہو،پھر جو شخص "چائے" کے ذکر میں صفحے کے صفحے لکھ سکتا ہے اور پرندوں کے تذکرے کو ایک مستقل باب میں پھیلا سکتا ہے،("غبارِ خاطر" میں یہ تمام تفصیل ہوجود ہے!ماہرؔ) وہ مصر،عراق،ایران اور لبنان کی سیاحت کرتا ہے اور اس کی زبان بالکل گنگ اور اس کا قلم قطعاً ساکن رہتا ہے اور سیر و سیاحت کے حالات قلم بند کرنے کا کوئی ولولہ ہی اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا،ایک مدت گزر جانے کے بعد ذکر بھی فرمایا تو اس قدر تشنہ بلکہ استعاروں اور افسانوی انداز میں کہ پڑھنے والے سیر و سیاحت پر مطلع بھی ہوجائیں اور بات زیادہ کھلنے بھی نہ پائے!
حیرت ہے کہ مولانا آزاد ایران کا سفر کریں،شیراز اور قزوین بھی جائیں،اور وہاں کی صرف چائے،قند اور مرغانِ چمن کی نغمہ سنجی کا یوں ہی سا ذکر کے رہ جائیں،کیا پارس کے اکابر،علماء،مشاہیر،آثارِ قدیمہ،کتب خانے،بازار،علمی درسگاہیں،بیستون،رکنا باد،گلگشت،مصلا اور سب سے بڑھ کر سیاسی حالات۔۔۔۔۔ان میں سے کوئی چیز بھی موضوعِ نگارش اور اور عنوانِ اظہار بننے کے قابل نہ تھی ان میں سے ہر "عنوان" سرسری نہیں تفصیل کا محتاج بلکہ مستحق تھا۔۔۔مولانا آزاد فارسی شاعری سے غیر معمولی شغف رکھتے ہیں اس ذوق کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ فارسی شعر استعمال کرنے کے لئے نثر میں تمہید باندھتے اور زمین ہموار کرتے ہیں مگر ایران جاکر وہاں کے کسی شاعر(رہا مرزا فرصتؔ شیرازی کا ذکر،سو ان سے مولانا بمبئی میں پہلے ہی مل چکے تھے۔ماہرؔ) سے نہیں ملتے،اور جو ملتے ہیں تو اس کا ذکر نہیں فرماتے،یہ سکوت بھی قیامت کا سکوت ہے!
کسی واقعہ کی تحقیق کے دو ذریعے ہیں روایت اور درایت،ہم نے ان دونوں ذریعوں سے کام لیا ہے،اور ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ مولانا آزادؔ کے مصر،عراق،ایران اور لبنان کا سفر ایک افسانہ نگار کی شوخیء فکر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
دلی۔۔۔یاکھیم کرن
مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں جب راقم الحروف نے خط بھیجا تھا،تو میں واقعات کی تحقیق ہی کر رہا تھا،واقعات پوری طرح کھلے نہ تھے اور یہ تحقیق نامکمل تھی،بہرحال تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور بہت سی دوسری باتیں بھی معلوم ہوئیں جن کا ذکر نہ کروں گا تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔
مولانا آزاد اپنے کو الہلال میں "دہلوی" لکھا کرتے تھے مگر دہلی نہ ان کا مولد ہے اور نہ ان کا منشاء ہے،مسٹر مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے(اور جو لکھا ہے اس کا مآخذ مولانا آزاد کا "تذکرہ" اور ان کا زبانی بیان ہے) کہ مولانا ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور دس سال تک وہیں رہے،۱۸۹۸ء میں ان کے والد مولانا خیرالدین کلکتہ میں آکر مقیم ہوگئے اور مولانا آزاد بھی ان کے ساتھ چلے آئے اور کلکتہ ہی میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔۔۔دہلی سے مولانا آزاد کی وجہِ نسبت یہ البتہ ہوسکتی ہے کہ بقول مسٹر ڈیسائی ان کے والد دہلی میں رہتے تھے،۱۸۵۷ء کے آشوبِ غدر کے بعد انھیں دہلی چھوڑنی پڑی اور اپنے مرید نواب یوسف علی خاں والی رامپور(نواب یوسف،مولانا آزاد کے والدِ بزرگوار مولانا خیرالدین کے مرید اور عقیدت مند تھے یہ بھی تحقیق طلب ہے!)کے پاس چلے گئےاور نواب صاحب نے مولانا خیرالدین کے بمبئی جانے کا انتطام کردیا،بمبئی سے وہ مکہ چلے گئے۔
عرض کرنا یہ ہے کہ مولانا نے اپنے خاندان حالات کے سلسلہ میں بہت کچھ لکھا ہے مگر انہوں نے کھیم کرن کا نام نہیں لیا،اس مضمون کے پڑھنے والے متحیر ہوں گے کہ یہ کھیم کرن کیا بلا ہے؟سنئے،قصور(مغربی پنجاب) سے امرت سر ریل کےذریعہ جاتے ہوئے ایک قصبہ کھیم کرن پڑتا ہے مولانا آزاد کے دادا جن کا نام عمردین اور عرف "چھیکڑی" تھا کھیم کرن ہی میں بودوباش رکھتے تھے،مولانا خیرالدین کے بڑے بھائی یعنی مولانا آزاد کے تایا کا نام امام دین تھا،عمر دین نے کھیم کرن کی سکونت ترک کردی تھی،مگر اس کا پتا نہ چل سکا کہ وہاں سے وہ پھر کس جگہ جاکر بس گئے،مولانا آزاد کی جب شہرت ہوئی تو وہاں کے لکھے پڑھے لوگ آپس میں کہا کرتے تھے کہ ہماری بستی کے عمردین کے پوتے نے اتنا نام پیدا کیا ہے!کوئی چاہے تو کھیم کرن جاکر اس واقعہ کی آج بھی تحقیق کرسکتا ہے۔
رکن المدرسین
مولانا آزاد نے اپنے "تذکرہ" میں لکھا ہے کہ ان کے اسلاف کو "رکن المدرسین" کا معزز عہدہ شاہانِ مغلیہ نے عطا فرمایا تھا(اس وقت تذکرہ میرے سامنے نہیں ہے،اپنے حافظہ کے اعتماد پر روایت بالعنیٰ کررہا ہوں)۔۔۔۔۔۔اپنے محدود مطالعہ پر اکتفا اور اعتماد نہ کرتے ہوئے میں نے متعدد حضرات سے جو ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں "رکن المدرسین" کے بارے میں دریافت کیا مگر سب نے لاعلمی ظاہر کی،ہر ایک نے یہی کہا کہ کسی تاریخ کی کتاب میں اس نام کا کوئی علمی عہدہ ہماری نظر سے نہیں گزرا،میں عرض کرتا ہوں کہ اول تو "رکن المدرسین" کی یہ ترکیب ہی غلط ہے،"رکن العلم" یا اسی قبیل کی کوئی ترکیب ہونی چاہئے تھی،"رکن المدرسین" کا انگریزی ترجمہ
Pillar of teachers
صحیح ہے،مگر مسٹر مہادیوڈیسائی نے انگریزی ترجمہ میں اصل لفظ کی معنوی غلطی کو دور کرتے ہوئے اس کا ترجمہ
Pillar of learnings
کیا ہے۔۔۔اس کے علاوہ اگر شاہانِ مغلیہ کے یہاں واقعی "رکن المدرسین" کوئی معزز علمی عہدہ اور منصب تھا تو مختلف زمانوں میں اس عہدہ کے زیادہ مستحق عبدالنبی،مخدوم الملک،ملا عبدالقادر بدایونی،ابوالفضل،فیضیؔ،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملا جیون،ملا عبدالحکیم سیالکوٹی،ملا نظام الدین اور حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم اور دوسرے علماء و اکابر تھے۔
"الہلال" کے مضامین
سہ روزہ "مدینہ" (بجنور) کا ۱۷ اگست ۱۹۵۱ء کا شمارہ میرے سامنے ہے صفحہ(۲) پر جو "اداریہ" ہے اس عنوان ہے:
"خانقاہِ عظمتِ اسلام"
راجدھانی میں امام الہند کے چند لمحے
اس مضمون میں "مدینہ" کے ایڈیٹر نے مولانا آزاد سے اپنی ملاقات کا حال تفصیل کے ساتھ لکھا ہے،جس کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے:
"۱۹۴۷ء میں مولانا حیدرزمان صدیقی صاحب کی کتاب "اسلامی نظریہ سیاست" مکتبہ دین و دانش بانکی پور(پٹنہ) سے شائع ہوئی ہے،مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کا دیباچہ لکھا،دیباچہ کے حاشیہ پر ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ "الہلال" میں چونکہ مضمون نگاروں کے نام نہیں لکھے جاتے تھے،اس لئے الہلال کے مضمونوں کے مجموعے شائع کرنے والوں نے بلا تحقیق ہر مضمون کو مولانا ابوالکلام صاحب کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔۔"الحریۃ فی الاسلام" "تذکار نزولِ قرآن"،"حبشہ کی تاریخ کا ایک ورق"،"قصص بنی اسرائیل"،مشہدِ اکبر"(یہ ان چند مضامین میں سے ایک مضمون ہے جس پر "الہلال" کو ناز ہے!ماہرؔ) وغیرہ میرے مضامین ہیں۔
۱۹۵۰ء میں مکتبہ علم و حکمت بہار شریف (پٹنہ) نے سید صاحب کے مضامین کا حصہ اول شائع کیا ہے اس مجموعہ میں وہ مضمون شامل ہے جسے "الہلال" ایجنسی لاہور نے کئی سال پہلے "حقیقتِ الصوم" نامی پمفلٹ کی شکل میں شائع کیا تھا۔۔۔۔میں نے (یعنی ایڈیٹر اخبار مدینہ نے) اس بات کا ذکر کیا تو مولانا(آزاد) نے فرمایا۔۔۔"ہاں!سید سلیمان صاحب نے میرے ساتھ "اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے چھ مہینہ تک کام کیا ہے،وہ ترجمے بھی کرتے تھے اور مضامین بھی لکھتے تھے،خیر اگر وہ مضامین کو اپنا بتاتے ہیں تو میری طرف سے آپ مدینہ میں اعلان کردیجئے کہ وہ مضمون سیدصاحب کا ہے،کچھ مضامین اگر میرے نام کے نہ ہوئے تو میرے بھائی!اس میں میرا بگڑتا کیا ہے؟"
"آخری جملہ کہہ کر مولانا(آزاد) نے اپنے مخصوص انداز میں جس کی گونج اظہارِ بےنیازی کے موقعہ پر سنائی دیتی ہے ایک قہقہہ لگایا اور پھر سگریٹ کا ایک کش لیا۔۔۔"
اخبارِ مدینہ کے اداریہ کا جو اقتباس اوپر درج کیا گیا ہے اس سے معاملہ کی نوعیت شاید قارئین سمجھ گئے ہوں گے،اور نہ سمجھے ہوں تو ان کو سمجھانے کے لئے میں تفصیل پیش کئے دیتا ہوں
مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار "الہلال" جب نکلتا تھا تو دوسرے اہلِ علم اور اربابِ قلم بھی مولانا موصوف کے شریکِ کار اور معاونین تھے،غیر زبانوں کے مضامین کے اردو ترجمے کا کام بھی انجام دیتے تھے اور اپنے اوریجنل مضامین بھی لکھتے تھے،ان مضامین پر عام طور سے ترجمہ کرنے اور لکھنے والوں کا نام درج نہیں ہوتا تھا۔
ناشرین نے الہلال کے مضامین کا انتخاب کتابی صورت میں جب شائع کیا تو انھوں نے ہر اس مضمون کو جس پر کسی مترجم اور مصنف کا نام نہ تھا مولانا ابوالکلام آزاد ہی کا مضمون سمجھا اور ان سے منسوب کردیا،بےچارے ناشرین کی اس میں کوئی غلطی نہ تھی،خود مجھے بھی اسی طرح کا دھوکا ہو چکا ہے،جب آصفیہ ہائی اسکول حدرآباد دکن کی لائبریری سے "الہلال" کا پورا فائل میں نے لیکر پڑھا تو جن مضامین پر کسی کا نام نہ تھا ان کو میں نے مولانا آزاد ہی کے زورِ قلم اور کاوشِ تحقیق کا نتیجہ سمجھا۔
ہوسکتا ہے "الہلال" کے مضامین کے یہ مجموعے مولانا ابوالکلام آزاد کی نگاہ سے نہ گزرے ہوں اور وہ اس سے بے خبر رہے ہوں مگر ان مضامین کے سلسلہ میں مولانا موصوف نے اخبار"مدینہ" کے فاضل مدیر کو جس انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے،اس کی کم سے کم مولانا آزاد سے توقع نہ تھی۔۔۔۔اتنی بلندی،اتنی پستی!حیرت اور افسوس بھی!
مولانا سید سلیمان ندوی نے مولانا آزاد کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا تھا بلکہ انھوں نے الہلال کے مضامین کے مجموعے شائع کرنے والوں کو ٹوکا تھا "مدینہ" کے ایڈیٹر جب ان باتوں کو مولانا آزاد کے علم میں لائے تھے تو اس کا جواب یہ ہونا چاہیئے تھا کہ "جن مضامین کا سید صاحب نے حوالہ دیا ہے وہ واقعی انھی کے ہیں" یہ بات کسی ایچ پیچ طنز اور ابہام و تشابہ کے بغیر دوٹوک انداز میں کہہ دینی چاہیئے تھی اور مولانا آزاد اگر اپنے احساسِ برتری اور وقار و تشخص کا اظہار بھی ضروری سمجھتے تو اس جواب کے ساتھ اس قسم کے لفظوں کا اضافہ بھی فرماسکتے تھے۔۔"سید صاحب کے جو مضامین الہلال میں چھپے ہیں،میری ذات سے ان کی نسبت میرے لئے ذرا بھی باعثِ فخر نہیں ہے۔۔!۔۔۔۔۔۔مگر جواب میں فرمایا یہ گیا۔۔۔۔"خیراگروہمضامینکواپنابتاتےہیںتومیریطرفسےآپمدینہمیںاعلانکردیجئےکہوہمضمونسیدصاحبکاہے،کچھمضامیناگرمیرےنامکےنہہوئےتومیرےبھائی!اسمیںمیرابگڑتاکیاہے!"
مولانا آزاد کا یہ جواب اپنی جگہ ایک عجیب و غریب قسم کا مغالطہ ہے،جیسی ضرورت آن کر پڑے "انکار" اور "اقرار" "نفی" اور "اثبات" کے دونوں پہلو پیدا کئے جاسکتے ہیں،جواب صاف بھی ہے،اور گول مول بھی ہے،یہ سلیمان ندوی پر طنز بھی ہے اور اپنی فیاضی اور فراخدلی کا ثبوت بھی ہے کہ "وہ مضامین ہیں تو میرے،مگر سید صاحب اپنے بتاتے ہیں تو ان کے ہی سہی۔۔۔۔"اور پھر آخری جملہ فرما کر مولانا آزاد ایک قہقہہ لگاتے ہیں!
اس پوری بحث کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا علامہ شبلی نعمانی کے دو خط ملاحظہ فرمائیے،جو مولانا عبدالسلام ندوی کے نام لکھے گئے تھے:
۔۔۔۔۔۔۔تم الہلال میں جاؤ مضائقہ نہیں یہ شرط کرلو کہ تم الہلال میں جذب نہ ہوجاؤ۔اس میں جو کچھ لکھو اپنے نام سے لکھو ورنہ تمھاری زندگی پر بالکل پردہ پڑجائے گا اور آئندہ ترقیوں کے لئے مضر ہوگا۔
شبلیؔ۔۔۔الہ آباد ۳مارچ۱۹۱۴ء
(مکاتیب شبلیؔ،حصہ دوم،مکتوب نمبر۵،صفحہ۱۵۲)
2
۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے مضامین دیکھتا ہوں،مولوی ابوالکلام صاحب اجازت دیں تو نام لکھا کرو("مولوی ابوالکلام صاحب اجازت دیں" اس جملہ کے تیور اور اس کا پس منظر ملاحظہ کیجئے!ماہرؔ) ایسے مضامین گمنام ٹھیک نہیں،اس سے کیا فائدہ کہ ایک شخص کی زندگی گم ہوجائے،تمہاری قوت اور نمود سے بہرحال ہماری سوسائٹی کو فائدہ ہوگا۔
شبلیؔ،اعظم گڑھ ۵۔اکتوبر۱۹۱۴ء
(آٹھواں خط،صفحہ نمبر ۱۸۰)
ان خطوں کو خوب غور سے پڑھئے اور پھر مولانا آزاد کے اس جواب پر ایک نگاہ ڈالیئے جو "مدینہ" کے ایڈیٹر کے استفسار پر انھوں نے دیا ہے،اس کے بعد فیصلہ خود آپ ہی پر چھوڑتا ہوں،اپنی زبان سے کیا کہوں!اس خصوص میں اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ "الہلال" میں بےنام کے مضامین جو چھپتے تھے ان کے بارے میں علامہ شبلیؔ مشتبہ ضرور تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مضمون نگاروں کا نام لکھا جائے تاکہ جس کی جو محنت اور کام ہے وہ اسی سے منسوب ہو،مولانا آزاد کے مزاج اور طبیعت کو بھی علامہ شبلیؔ نعمانی اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے،چنانچہ شبلیؔ نے جس مغالطہ سے لوگوں کو بچانے کے لئے عبدالسلامؔ ندوی کو خطوط لکھے تھے،اس مغالطہ میں لوگ مبتلا ہو کر رہے،اس مغالطہ کو خود مولانا ابوالکلام آزاد دور فرما سکتے تھے مگر انھوں نے اس کو اور پیچ در پیچ بنا دیا اور اس کو قہقہوں اور سگریٹ کے کشوں میں اڑا دیا۔
جزبہء فخر و ناز
میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے وہ نہ تو معاذاللہ "وحی و الہام" ہے اور نہ "حرفِ آخر" ہے کہ اس پر کسی قسم کا اضافہ و ترمیم ممکن ہی نہیں ہے،جو باتیں میری تحقیق میں آئیں،وہ میں نے بیان کردیں اور خدا جانتا ہے کہ میں نے کسی قسم کی تلبیس اور تحریف یا غلط بیانی سے کام نہیں لیا،کوئی صاحب میری غلطیوں پر مجھے مطلع فرما دیں اور میں مطمئن ہوجاؤں تو "فاران" ہی کے صفحات پر اس کا اعلان کروں گا اور اپنی غلطی اور تحقیق کی کمزوری کو مان لوں گا۔
مجھ تک اس تحقیق کے دوران جس قدر واقعات پہنچے ہیں،ان میں سے صرف چند واقعات میں ضبطِ تحریر میں لایا ہوں کہ اپنے اطمینان کی حد تک میں نے ان کو معتبر سمجھا،باقی بہت سی باتوں کو میں نے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔مثلاً "تذکرہ" میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اسلاف میں سے ایک بزرگ کو رفیع الدین سلامی کا شاگرد بتایا ہے اور لکھا ہے کہ یہ (رفیع الدین سلامی) علامہ سخاوی کے شاگرد تھے اور اپنی کتاب "۔۔۔الامع فی اعیان قرن التاسع" میں سخاویؔ نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔۔مگر ادبی عربی کے ایک بہت بڑے عالم اور ماہر نے مجھ سے کہا کہ میں نے علامہ سخاویؔ کی اس کتاب کو بہت غور و خوض کے ساتھ پڑھا لیکن رفیعؔالدین سلامی کا نام مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔
جس نے بھی "تذکرہ" کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ "تذکرہ" انشاپردازی کے کمال کے علاوہ بہت سے تاریخی واقعات اور علمی مسائل کے حوالے کثرت کے ساتھ ملتے ہیں جو بلاشبہ مصنف کی وسعتِ مطالعہ پر دلالت کرتے ہیں،مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ میں "تذکرہ" کو اپنے حافظہ اور یادداشت کی بنا پر مرتب کررہا ہوں۔۔۔۔۔مگر مجھ سے ایک نہایت ثقہ شخص نے بیان کیا کہ "محی الدین صاحب قصوری(جن کو مولانا آزاد نے "عزیزی" لکھا ہے)نے خود مجھ سے کہا کہ آزادؔ جب رانچی میں نظر بند کر کے بھیجے گئے ہیں تو شروع شروع میں بےشک ان کے پاس کتابیں نہ تھیں مگر بعد میں ان کے پاس کتابیں بھیجوا دیں گئیں (کہنے والے کا مقصد غالباً یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن چند کتابوں کا مولانا آزاد نے "تذکرہ" نے ذکر فرمایا ہے،ان کے علاوہ دوسری کتابیں بھی فراہم کردی گئی تھیں۔ماہرؔ) اور "تذکرہ" کی تصنیف کے زمانے میں وہ کتابیں مولانا کے پاس موجود تھیں"
اس قسم کے بہت سے واقعات کا تذکرہ میں نے نہیں کیا کہ یہ صرف سماعی ہیں اور ان کی مزید تحقیق کے ذرائع مجھے میسر نہ آسکے۔۔۔۔۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی باتیں مولانا آزاد سے آخر ظہور میں کیوں آئیں!اس کا جواب میں نہ دوں گا کہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے،مسٹر ڈیسائی جنھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات لکھے ہیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے،انھوں نے جب مولانا آزاد کی خودنوشت "لائف"(تذکرہ) کو پڑھا اور مولانا کی زبانی ان کے حالات سنے تو مسٹر ڈیسائی کے قلم سے یہ جملے بےساختہ ٹپک پڑے:
(ترجمہ)
"کہا جاسکتا ہے کہ "فخرِ جائز" جو ایک شریف و اعلیٰ خانوادے اور علمی عظمت کی پیداوار ہے،مولانا صاحب کے خون میں دوڑ رہا ہے اور درحقیقت ایک حیثیت سے تو مولانا اپنے مفخر اسلاف پر بھی سبقت لے گئے۔۔۔۔۔۔"
مسٹر ڈیسائی،مولانا آزاد کا احترام کرتے تھے سیاسی میدان میں وہ ایک دوسرے کے ہم خیال اور رفیق کار تھے،اس لئے انہوں نے بڑے محتاط انداز میں
“Legitimate pride”
یعنی "فخرِ جائز" کہا ہے اوراس طرح ڈیسائی جی نے مولانا آزاد کے مزاج و طبیعت سے واقفیت اور نفسیات شناسی کا ثبوت دیا ہے،بس یہی "جزبہء فخر" ہے جو اپنے ظہور کے لیے طرح طرح کے کالبدا اختیار کرتا ہے جس کی چند جھلکیاں اوپر دکھائی جاچکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات میں ایسی خوبیاں بلاشبہ موجود ہیں جن پر ان کا فخر کرنا بجا ہے مگر ان کے نیاز مندوں کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس "بابِ مفاخر" میں کچھ "افسانے" بھی شامل ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ہوتا!

Comments

Click here to post a comment