ہوم << خواتین،گارڈز اور ہم - وقار احمد نظامی

خواتین،گارڈز اور ہم - وقار احمد نظامی

وقار احمد نظامی آج ہمارے کچھ دوست اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ سکیورٹی گارڈ کو خواتین کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک کیا، کچھ کی رائے میں دونوں نے ہی غلط رویہ اپنایا. ایک طبقہ میرے دوستوں کا ایسا بھی ہے جو اس تمام عمل کی حوصلہ افزائی کے سخت خلاف ہے کہ اس پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے تاکہ گارڈز کا ہاتھ کل کلاں خدانخواستہ ہماری کسی بہن بیٹی پر نہ کھل جائے، بالکل بات درست ہے لیکن یہ بھی تو سوچیں نا کہ کیا وہ اقدار قائم ہیں؟
عورت کو سامنے سے آتے دیکھ کر نظریں جھکا لی جاتی تھیں،
بڑے بزرگ منع کرتے تھے پتر گلی کے کونے پر مت بیٹھا کرو شہر کی مائیں بہنیں گزرتی ہیں،
خاتون گاڑی میں کھڑی ہوتی تھی تو اسے سیٹ دینے والے دو چار خدائی خدمت گار موجود ہوتے تھے،
جھگڑوں میں کسی پرائی خاتون نے بات کر دی ہوتی تھی تو اس کا مان رکھا جاتا تھا،
حتیٰ کہ ڈاکو جس گاؤں کی کسی لڑکی کو بہن بنا لیتے تھے، اس گاؤں میں ڈاکہ نہیں ڈالا کرتے تھے اور دوسرے ڈاکوؤں تک بھی پیغام جاتا تھا کہ اس گاؤں کے قریب سے بھی نہیں گزرنا.
اگر کوئی خاتون کسی مرد کی چارپائی پر جا بیٹھتی تھی تو وہ دین اور دنیا کی بہن بن جاتی تھی اور وہ سگی بہنوں سے بھی زیادہ اس کا احترام کرتا تھا۔
آج کل ہم سوشل میڈیا پر بہنیں، بیٹیاں اور مائیں اور واللہ اعلم کون کون سے رشتے بناتے ہیں لیکن اس زمانے میں احساس کو ہی بڑی دولت مانا جاتا تھا، محبتوں کے امین وہ لوگ تھے اور انتہائی غیرت والے بھی.
پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت گھر سے نکلی کیوں؟ چلو نکل بھی گئی جا کر متھے لگنا پڑا دو دو ٹکے کے لوگوں کے منہ، نہ تو اسے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا احساس کروایا گیا، کہ چینل کے اندر کیمرے کے سامنے دو سیاست دانوں کو لڑوانا اور بات ہوتی ہے لیکن باہر نکل کر کسی سیکورٹی والے سے لڑنا اور بات،
اب یہ اچھا ہوا یا برا ہوا اس کا ہم فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں، میں صرف ایک سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ وہاں لیڈی سیکورٹی گارڈز تعنیات کیوں نہ تھیں؟
ہم تو بس انجوائے کرنے والی قوم ہیں، پہلی بات تو خواتین ایسا حلیہ بنا لیتی ہیں کہ مرد و عورت کی تمیز ہی ختم ہوتی جا رہی ہے تبھی تو ترقی پذیر ممالک میں مرد مردوں کے دیوانے ہوئے پھرتے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم کسی کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے پر انجوائے کرتے ہیں تو کبھی تھپڑ لگنے پر، ایک سوال خود سے کرتے ہیں اگر میری بہن یا آپ کی بہن کو کوئی ایسے تھپڑ مارتا تو کیا ہم اس خاتون سے ہوچھتے کہ تم نوکری کیوں کر رہی تھیں تمہیں تھپڑ لگا ہے تو اچھا ہوا بلکہ ہم شائد وہ کرتے جو آج سے دو تین سال پہلے ایک خان صاحب نے پولیس والے کے ساتھ کیا تھا.
جو ویڈیو میں نے دیکھی تھی اس میں ایک پٹھان جو خود کو کے پی کے کا رہائشی بتا رہا تھا پولیس والے کو تھپڑ مار رہا تھا، اس کی وردی پھاڑ رہا تھا، اس نے کیمرے کے سامنے کہا کہ اس نے میری بیوی کو چھیڑا ہے، ہم اس کو نہیں چھوڑے گا، پھر اس نے پولیس والے کو گریبان سے پکڑا تو پولیس والا گریبان چھڑا کر یوں سرپٹ بھاگا جیسے کوئی شیر اس کے پیچھے پڑا ہو، حد سے کوئی تجاوز کرے گا تو کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا.
یقین کریں کہ معاشرے میں نرم برتاؤ ختم ہو گیا ہے، اخلاقیات ہم سے دور جا چکی ہے، خدارا اپنی اصل تو کو نہ مرنے دو، ہم پاکستانیوں کو یہ تو یاد ہے کہ ہم پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی اور مہاجر ہیں لیکن ان کی اقدار مرتی جا رہی ہیں، اپنے نسلی تفاخر کو بڑے زور و شور سے زندہ رکھے ہوئے ہو کبھی یہ بھی تو سوچو کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں؟