ہوم << چائےوالا، بازارِ مصر اور اہل مذہب - حامد کمال الدین

چائےوالا، بازارِ مصر اور اہل مذہب - حامد کمال الدین

حامد کمال معاملے کی وہ جہت تو ”دلیل“ پر شائع ہونے والا ایک مضمون باحسن انداز دکھا چکا: ”گوشت کے بیوپاری“۔ ایک دوسری جہت پر کچھ ہمیں بات کرنی ہے۔ وہ بیوپار تو اپنے معمول پر ہی ہے: مال جانچا، پیسے دیے، کسی پر احسان کیسا، انوسٹمنٹ ہے! مہنگا مال سستے داموں اٹھانا، کاروبار اِسی کا نام ہے، سو جتنا ہاتھ پڑے! لیکن کیا ایسا واقعہ آپ کے خیال میں ہوا ہو گا کہ کچھ ’’روح‘‘ کے طرفدار بھی موقع پر اُس آفت رسیدہ (victim) کے پاس پہنچے ہوں؟
ارشد خان چائے والا بطور ایک فرد، میں اُس کے شہر میں ہوتا تو کم از کم اُس کے پاس سے ضرور ہو کر آتا۔ اُس کا ایک مول اُس کو ’’گوشت‘‘ والوں اور والیوں نے بتایا ہوگا۔ اُس کا ایک مول اُس کو میں بتا کر آتا۔ فیصلہ ظاہر ہے اُسی کو کرنا تھا۔ لیکن وہ اِسی معاشرے کا ایک بچہ ہے جہاں ’’انسان‘‘ کا حقیقی مول کم ہی پڑھایا بتایا جاتا ہے۔ ارشد کسی اسکول میں پڑھا ہوتا تو اپنا یہ مول شاید وہ پھر بھی نہ جانتا۔ اِس کےلیے تعلیم کی ضرورت ہے جو فی زمانہ اسکولوں میں ناپید ہے، ارشد کو یہ کہاں سے میسر آتی؟ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے، امکان تھا کہ ہمارا یہ بچہ، بلکہ ہمارا کوئی بھی بچہ، گوشت اور چمڑی کی منڈی میں اپنے ہوش کھو بیٹھتا۔ اور تعلیم تو ظاہر ہے ایک مسلسل عمل ہے۔ فوری طور پر تو تبلیغ ہی ہو سکتی ہے۔ جبکہ تعلیم معاشرے میں ایک اساس سے اٹھایا جانے والا عمل، جو مسلم معاشرے میں آنکھ کھولنے والے ہر بچے کا حق ہے۔ تعلیم کی راہ سے ایمان اور قدریں سینوں میں بٹھائی ہوتیں تو امکان تھا ہمارے اس بچے سے کسی مائک والی کو ایک بےساختہ جواب یوں بھی ملتا کہ: میں ایک پٹھان عزت دار بچہ ہوں، محنت مزدوری کرنا تو ہمارے یہاں فخر کی بات ہے مگر بھانڈ ہونا یا چمڑی کی نمائش پر پیسے لینا معیوب، خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ عزت کے آگے پیسہ کیا ہے؟ یہ بات سننا ظاہر ہے سرمایہ داری عقیدہ اپنے منہ پر ایک تھپڑ سمجھتا اور اس کی بازگشت دور دور تک سنی جاتی۔ جبکہ ہمارے بچے کےلیے یہ ایک لااُبالی جواب۔ بلاشبہ ہمارا ہر ہر بچہ آج اُس پیسہ دے کر نچانے والے کو دُور سے یہ آئینہ دکھا سکتا اور قدروں کی رکھوالی میں اِس گھر کا محافظ بن سکتا تھا۔ ’ساقی‘ ستر سال گزر جانے کے باوجود یہاں ’نم‘ کا ’ذرا‘ بھی بندوبست نہ کر سکا، ورنہ اپنی مٹی کی یہ زرخیزی ارشد کی نیلی آنکھوں سے بڑھ کر آج دنیا کوحیران کرتی۔ [pullquote] يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِھمُ الْكُفَّارَ[/pullquote] لیکن ابھی تو یہی خاک اڑتی ہے۔ عزت پانے کا اعلیٰ ترین تصور یہ کہ آدمی بالی وڈ تماش بینوں کے آگے اچھل مٹک کر دکھائے اور اس پر مہنگا ٹکٹ لگے!
پس تعلیم کا رونا تو ایک حقیقی رونا ہے۔ کم از کم فہمائش کےلیے ہی میں اور میرے جیسے اُس شہر کے درجنوں اور سینکڑوں نمازی اُس بازار میں اپنےاپنے سوت کی اَٹی لیے پہنچتے۔ ’زنانِ مصر‘ سے چاہے پھر بھی کوئی مفر نہ ہوتا، مگر ’یوسف‘ کی ایک کہانی تو کم از کم کسی ’سوت والی‘ کے بغیر نامکمل رہتی! میں کہتا ہوں اپنے کسی بھی شہر میں ایسی کوئی ایک بھی کہانی اپنے اِس ’سوت‘ کے بغیر کیوں مکمل ہو؟ کیا لگتا ہے اس پر؟ کیا اس کردار کے بحال رکھنے پر آج کوئی پابندی ہے؟ یا ہم ہی زمانے کے اسٹیج سے واپسی کی راہ لے چکے اور زندگی کی وہ چنگاری سرد کر چکے؟
حضرات! اس پر ہمیں سوچنا تو ہے کہ مسجدیں آج زندگی کی دوڑ سے کیوں باہر ہیں؟ تہذیبی کشمکش کی گلیاں نمازیوں سے بالکل سونی اور ویران! عبادت گزاروں کے یہاں ایک سماجی صلاحیت کا ہونا، کاروبارِ حیات میں ان کا زورآور اور چابک دست ہونا، ایک تہذیبی فاعلیت سے لیس ہونا، یہ بھی ہم سنتے تو آئے تھے! انیشی ایٹو initiative لینا دینداروں کےلیے آج کیسی ایک اجنبی اور انہونی بات ہو چکی! جام کو بڑھ کر تھام لینے کی وہ چلبلی ادا رُوپوش! زندگی کے سٹیج پر کوئی ہو، ہمیں تو خبریں پڑھنی ہیں، اخبار لیٹ ہو جائے تو البتہ تشویش ہوتی ہے! ایسا بےامنگ اور بےترنگ passive بھی ہمارا دینی سیکٹر اِس سے پہلے کبھی ہوا ہوگا؟ نرا ’آرڈی ننسوں‘ کا منتظر! بیٹھا ’خلافت‘ کی راہ تکنے والا! ’مہدی کی آمد قریب آ لگنے‘ سے متعلق پورا ایک لائبریری شیلف بنا رکھنے والا! یاجوج ماجوج کا کھوج لگاتا پھرتا، دجال کے پیچھے برمودا ٹرائی اینگل جا پہنچتا، زمین سے نکل چاند پر اپنی مراد کی تصویریں ڈھونڈ لینے اور اپنی عقیدت کی عبارتیں پڑھ لینے والا، اپنے محلے کی بیوہ، یتیم، مسکین اور مظلوم سے بےخبر، اپنی بستی کے دجالوں کے آگے بےبس، تاثیر اور فاعلیت سے تہی، اپنی دنیا سے بیگانہ مسلمان! ہارجیت ہونا تو صاحبو اِس جہان میں کوئی بڑی بات نہیں، [pullquote]وَتِلْكَ الْايَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ،[/pullquote] لیکن اس کی نوبت تو تب ہو جب میدان میں کوئی پایا گیا ہو! یہ جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کو ’ہار‘ بھی کس منہ سے کہیں، یہ تو نرا یکطرفہ معاملہ ہے!
غرض نمازیوں کی دلچسپی کے یہ بھی کچھ کام ضرور تھے! حاجیوں اور عمرہ گزاروں کے تھوڑی توجہ کر لینے کی یہ بھی ایک چیز تھی! سنت کی بابت دقیق پیمائشیں رکھنے اور ہر کسی سے جھگڑ آنے والوں کے ’پریشان‘ ہونے کی یہ بھی ایک بات تھی! نیکوکاروں اور ’نظر نیچی رکھنے والوں‘ کے جُتنے کا یہ بھی ایک محاذ تھا! کوئی حرج تو نہیں تھا کہ یہ بھی یہاں کے ارشدوں کے پاس پہنچ لیے ہوتے! ناں ہو جاتی، واپس گھر تو آنے دیا جاتا!
حضرات و خواتین! یہاں محض ایک واقعہ سے اپنا ربط ڈھونڈنے کی کوشش ہو رہی ہے، ورنہ ایسے وقائع روز ہوتے ہیں، جتنے مرضی پڑھ لیجیے۔ ’’منہج التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ میں استاذ محمد قطب سے ہم نے یہ پڑھا کہ صحابہ کو اسباق دلانے کے معاملہ میں ہمارے نبیﷺ کوئی عملی موقع نہ چھوڑتے اور کسی روزمرہ واقعہ کو اپنی پوری قیمت دیےبغیر جانے نہ دیتے۔ راستے میں بکری کا ایک بچہ مرا پڑا دیکھا تو صحابہ کو اس کی طرف متوجہ کر کے کمال اسباق ذہن نشین کرائے۔ بِاَبِی ھُوَ وَاُمِّی، علیہ السلام۔ قوموں میں جوت جگانا ایک خاص سوچ اور توجہ چاہتا ہے۔ یہ ہو تو قدم قدم پر بولتی ہے۔ ماہرینِ تربیت بھی آج یہی کہتے ہیں کہ نظری اسباق کبھی اتنے فائدہ مند نہیں ہوتے جتنی کہ روزمرہ حیات کی واقعاتی آموزش۔ سو اِس باب سے،یہاں چند باتیں ہو رہی ہیں۔ لکھنے والا پڑھنے والوں سے بڑھ کر ہی قصوروار رہا ہو گا، اللہ ہم سب کو معاف فرمائے۔ ایک تہذیبی فاعلیت کی جانب کو رخ کرنا نمازیوں پر لازم ضرور ہے۔ آئیے اس پر توجہ کریں۔ خدا کا شکر ہے خیر کی کچھ کمی ہمارے یہاں نہیں۔ بس ایک بات اگر ہو جائے: سیلف انیشی ایٹو self-initiative لینا اگر ہمارے اِس بھلےمانس دیندار کے اندر آ جائے، جوکہ فاعلیت کا اصل ظہور ہے ، تو شاید یہ سارا پانسہ پلٹ جائے۔
[pullquote]قَالُوا مَعْذِرَۃ إلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّھمْ يَتَّقُونَ[/pullquote] البتہ زیادہ باہمت یا زیادہ باوسائل اصحاب کےانیشی ایٹوز initiatives بھی بڑے ہوں گے، خصوصاً اگر وہ کوئی گروپ یا جماعتیں ہوں۔ یا وہ کچھ ’پراجیکٹس‘ میں ڈھل سکنے والے دماغ اور صلاحیتیں ہوں۔ اپنی تہذیبی کشمکش میں یہ مسائل جو اَب کسی نہ کسی صورت ہمیں آئے روز پیش آنے لگے، کچھ زیادہ گہرے اور پائیدار حل مانگتے ہیں۔ ایک فرد میں اگر فاعلیت جگا بھی لی جائے، وہ تو واقعہ پیش آنے پر ہی مقدور بھر کچھ کرے گا۔ وہ بھی اپنی جگہ ضروری ہے، منبرومحراب کو اپنا یہ گمشدہ ’فرد‘ بھی اِس تہذیبی معرکہ کے اندر بازیاب کرانا ہوگا۔ البتہ ایک ’گروپ‘ یا ایک ’پراجیکٹ‘ اِس کھیل میں پہلے سے وکٹ پر جم کر کھڑے تیار چوکس بلے باز کی طرح وقائع کی ’گیند‘ پر نظر رکھتا ہے جو ابھی ہوا میں ہوتی ہے، اور اس کے پہنچنے سے پہلے وہ اس کےلیے اپنی ’سٹروک‘ کا تعین کر چکا ہوتا ہے۔ ایسے مستعد ادارے جو اپنے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیلز کے ساتھ دُور سے آتی ’گیند‘ کے لیے مناسب ترین اور بروقت ترین سٹروک کا تعین کریں، ہمارے دینی سیکٹر کی اشد ضرورت ہیں اور ہمارے کچھ باصلاحیت لوگوں کو اس کےلیے آگے آنا ہوگا۔ اور پھر صرف ’بیٹنگ‘ نہیں، کھیل میں ’باؤلنگ‘ بھی ہوتی ہے۔ یہ سطح لامحالہ ’فرد‘ سے اوپر کی ہے۔ ’افراد‘ اور ’وسائل‘ کو ایک بڑے پیمانے پر جوت کر کچھ زور آور مقاصدِ حق کو بر لانا اور کچھ خوفناک اجتماعی خطرات سے نبردآزما ہونا باقاعدہ ’ادارے‘ اور ’پراجیکٹس‘ مانگتا ہے۔ اس کے بغیر یہ کھیل ہمارے کھیلنے کا نہیں ہوگا۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں ہمارا ’فرد‘ ایک سطح پر میدان سے باہر ’پیویلین‘ pavilion میں ہی اپنی حاضری لگوا سکے گا اور اپنا تمام جوش و خروش اور اپنے سب ’ایمانی جذبات‘ وہیں پر ہلکے کرتا رہے گا۔ بلاشبہ بہت سے تماشائی کھلاڑیوں سے زیادہ تھک ہار کر سوتے ہیں! البتہ اگر آپ کے پاس پراجیکٹ اور ادارے ہوں تو آپ اِس ’فرد‘ کو لے کر میدان کے اُس حصے میں اتر سکتے ہیں جہاں سے آپ کھیل کے ’نتائج‘ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
میرے علم کی حد تک، امت کی تہذیبی جنگ کےلیے پیش بندی اور منصوبہ بندی کرنے والے کوئی ادارے آج یہاں ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ملک میں لبرل یلغار کے مقابلے پر اسلامی ایجنڈا کےلیے راتیں جاگنے اور ذہانت سے مہرے ہلانے والے کوئی مختص گروپ یہاں برسر عمل نہیں ہیں۔ کیا خیال ہے ایسے کوئی ادارے اگر یہاں مستعد بیٹھے ہوتے تو چائےوالے کے معاملہ میں چھوٹاموٹا انیشی ایٹو initiative ہمارے لیے کوئی بڑی بات تھی؟ اصل چیز تو اپنے اس بچے کے اندر قدروں پر یقین کو جگانا ہی ہوتا، اور ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس پر نہ ہمارا دعویٰ، نہ مایوسی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لڑکے پر شوبز والوں کے مقابلے کی بولی لگا دی جاتی۔ لیکن ایمانی فہمائش کے ساتھ ساتھ، اس کو ایسا بھی تو کچھ سجھایا جا سکتا تھا کہ جتنی سی شہرت اس کی نیلی آنکھوں کو مل چکی وہ اس کے کسی موقع کے ریستوران کو مقبول کروانے میں بھی مددگار ہو سکتی ہے اور وہاں ان ’ناریوں‘ کو چائے یا پکوان بیچنا ان کے آگے کولہے مٹکانے سے کہیں بہتر ہے؟ دینی سیکٹر اس بات سے عاجز تو نہیں تھا کہ شوبز والوں کے مقابلے پر ارشد کو کسی اچھے باعزت حلال بزنس میں مدد کی پیشکش کروا دی جاتی۔ اور کچھ نہیں، کسی حاجی صاحب کا ریسٹورنٹ ہی میدان میں آ جاتا۔ یہ تو وہ ملک ہے جہاں غلام احمد بلور نامی ایک فرد امریکہ میں بیٹھے ایک شخص کے سر کی قیمت لگا دیتا ہے۔ بڑھ چڑھ جانے پر آئے، لوگ کروڑ کروڑ کی گائے قربان کر کے گوشت محلے میں بانٹ دیتے ہیں۔ غرض ارشد کو ہماری جانب سے کسی چھوٹی موٹی آفر کی خبر آنا کیا بڑی بات تھی۔ سوت کی اَٹی ہی سہی، دینی سیکٹر کی ایک انٹری تو لگتی۔ معاملے کا ایک فریق نظر آنے میں آخر کیا مسئلہ ہے؟
’چائے والا‘ تو محض ایک مثال تھی جو ایک بحران کی جانب توجہ دلانے کا بہانہ بنی۔ اصل میں یہاں ایک خلا ہے جسے پُر کرنا اور اس جانب توجہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک نیک خاتون کا ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جو کسی ٹی وی چینل پر مارننگ شو کرتی رہی تھی۔ لیکن دل کی آواز پر اس نے سر ڈھانپنے کا ایمانی فیصلہ کیا اور، حسبِ توقع، جاب کھو بیٹھی۔ متبادل ذریعۂ معاش سے متعلق اپنی سرگزشت سناتے ہوئے خاتون ایک مقام پر آبدیدہ بھی ہوئی۔ ٹھیک ہے وہ کامیاب ہوئی اور خدا نے اس کو سرخرو کیا۔ لیکن اسلامی سیکٹر اس خاتون کے معاملے میں کہاں تھا، جو چینلوں پر بےدینی کی دُہائی دینا کسی وقت نہیں بھولتا؟ کیا یہودی یا عیسائی یا ملحد بھی اپنے عقیدے کی خاطر جاب کھو بیٹھنے والے کسی شخص کو یوں بےیارومددگار چھوڑتے؟ میرا خیال ہے وہ اسے سر پر بٹھاتے، یہ ہیرے صرف ہمارے ہاں رُلتے ہیں۔
[pullquote]وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُھمْ أوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إلَّا تَفْعَلُوہ تَكُن فِتْنَۃ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: 73)[/pullquote] ’’کفر کرنے والے بھی ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ مومنو! تم اگر یہ کام نہ کرو گے تو زمین میں ایک فتنہ ہو گا اور ایک بڑا فساد‘‘۔
ایک اور واقعہ ہمارے ایک قریبی دوست نے سنایا۔ چند برس پیشتر ایک خداشناس عالم جو کسی مدرسہ کے دارالافتاء میں تعینات تھے، آلو چپس کی ایک مشہور کمپنی نے ان سے کوئی فتویٰ مانگا، مگر وہ اس کی طلب کا فتویٰ دینے پر مطمئن نہ تھے، یہاں تک کہ مدرسہ والوں نے ان پر جب فتویٰ دینے کے لیے زور ڈالا اور وہ مسلسل انکاری رہے تو انہیں اپنی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مفتی صاحب بڑے مہینوں تک بےروزگار، آخر چولہا سرد پڑنے کو آیا۔ بھئی عالم کیوں اپنی مالی تنگی کا اظہار گوارا کرے؟ ’امت‘ بھی تو کسی دکھ کا مداوا ہو! کیا واجب نہ تھا کہ اپنی علمی صوابدید پر اصرار کرنے والے ایک عالم کو یہاں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا؟ ہم وہ قوم جو حق گو علماء کے ’واقعات‘ میں تو رغبت خوب رکھتی ہے مگر آزمائش میں ان کے ساتھ کھڑے ہونا ذہن میں نہیں آتا!
گلہ مگر قوم سے نہیں، چارہ گروں سے ہے۔ امت نہ بخیل ہے اور نہ ایسے کسی محاذ سے رُوگرداں۔ امت سے جو مانگا گیا، آج تک اس نے وہ دیا ہے۔ بس ہم ہی بعض امور کو انجام دینے کے مناسب چینل اسے فراہم نہیں کر سکے۔ لوگ دراصل کچھ خاص روایتی مدّات میں ہی چندے دینے سے مانوس ہیں، اور وہاں بےشک کمی نہیں کرتے۔ ان نئی ضرورتوں کی جانب ان کو لے کر چلنا اور انہیں راستے بنا کر دینا البتہ خواص کا کام ہے جو ذرا ایک قوتِ اقدام مانگتا ہے اور کسی حد تک تخلیقی صلاحیتیں اور اَن چلی راہیں روند ڈالنے کا حوصلہ۔ یہ میدان توجہ دلانے والوں سے ہی آج بہت حد تک خالی ہے۔ ’کارپوریٹ دنیا‘ میں اپنے جینے survival کےلیے اب ہمیں کچھ پہلے سے مختلف چارہ جوئی کرنا ہوگی۔ معلوم ہونا چاہیے، ’فرد‘ اور چھوٹےچھوٹے غیرمنظم ادارے اور ٹھیلے اِس درندے کی من پسند غذا ہیں۔ اِس میدان میں آج ہمیں ایک بالکل نئی تیاری کے ساتھ اترنا ہوگا۔
میرے خیال میں ایسے وقف سامنے آنا ضروری ہیں جو سماجی میدان میں لادین ایجنڈا کے مقابلے پر ہمیں ایک پیش بند pro-active اندازمیں عمل کی پوزیشن میں لے کر آئیں۔ جبکہ ہم وہ قوم جو دنیا میں ’’اوقاف‘‘ متعارف کروا آئی ہے۔ ہماری تاریخ اس معاملہ میں ناقابل یقین مثالیں پیش کرتی ہے۔ ایک عشرہ پیشتر مجھے چند عرب ملکوں کی سیر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ دمشق میں میرے میزبان نے شہر کے ٹی وی سٹیشن کے آس پاس کہیں ایک جگہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جانتے ہو یہاں کبھی ایک وقف ہوتا تھا اور تم تعجب کرو گے کہ وہ کس مد کےلیے تھا؟ اتنا میں جانتا تھا کہ دمشق اسلامی تہذیب کا پرانا گڑھ ہے، ضرور کوئی خاص بات ہو گی۔ کہنے لگا: دمشق اور اس کے گرد و نواح میں لوگوں کے وہ پالتو جانور جو ذبح نہیں ہو سکتے مانند گھوڑا، گدھا، خچر وغیرہ، عمررسیدہ ہو جانے پر جب گھر والوں کےلیے بےکار اور اُن پر ایک بوجھ ہو جاتے ہیں، تو بعض مالکان ان کی نگہداشت میں کوتاہی کرتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ یہ زیادتی مسلم معاشرہ گوارا نہ کر پایا؛ کچھ لوگوں کے ذاتی انیشی ایٹو initiative پر ایک وقف تشکیل دیا گیا کہ جو آدمی اپنے ناکارہ جانور کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے وہ اسے یہاں چھوڑ جائے جہاں وقف کے اموال سے اس کی نگہداشت کی جائے گی۔ (واضح رہے ہماری اکثر تعلیمی، تہذیبی اور عمرانی سرگرمی قصرِسلطانی کے ’فنڈ‘ اور ’آرڈی ننس‘ کی محتاجی سے نابلد رہی ہے۔ ہماری فقہ اور ہماری تہذیب سیلف انیشی ایٹو self-initiative کا ایک جیتاجاگتا نمونہ اور منبع چلی آئی ہے؛ آج اسی ’’خودکار فاعلیت‘‘ کی نیم سرد چنگاری کو شعلۂ جوالہ بنا ڈالنا ہمارے منبر و محراب، مسندِعلم، خانقاہ، قلم اور کلاس روم کو درپیش اصل چیلنج ہے)۔
غرض اسلامی تہذیب جب جوان تھی تو ایک بوڑھا جانور تک نمازیوں کےدیس میں رُل نہ سکتا تھا۔ (ہمارے سلاطین اُن دنوں بھی اللےتللے فرما ہی لیتے تھے۔ ’سٹیٹ‘ نامی جکڑ البتہ نہ تھی، یہ ایک نئی بلا ہے)۔ مگر آج ہمارا کیساکیسا نوخیز انسانی سرمایہ رُلنے لگا اور خام مال کنٹینروں میں لدا، بےدینی کے کباڑ میں نمک کے بھاؤ تُلنے لگا، ہمارے کیسےکیسے خوبرو ارشد آج شوبز کا لنڈا پہن کر اپنی امت کی مفلسی کا پوز اترواتے ہیں، لمحۂ فکریہ ہے۔ قوموں کی حیاتِ اجتماعی کا ایک بڑا بحران سب کچھ پاس ہوتے ہوئے انیشی ایٹو initiative نہ لے سکنا ہے۔ ایسی قوموں کی ادبیات حالات کا رونا رُلانے میں البتہ کمال پیدا کر لیتی اور اسی کو ایک کام سمجھتی ہیں!
[pullquote]اللَّھمَّ إنِّي أعُوذُ بِكَ مِنْ الْھمِّ وَالْحَزَنِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّيْنِ، وَقَھرِ الرِّجَالِ[/pullquote]

Comments

Click here to post a comment