آج بہت دن بعد صبح ہی صبح ایک ایسا بےکل اور بےچین کر دینے والا وڈیوکلپ دیکھا کہ جس نے بےاختیار میرے ہاتھ دورِ جدید کے قلم یعنی کمپیوٹر کی بورڈ پر رواں کر دیے۔ یہ منظر غالباً نادرا کے ایک رجسٹریشن آفس کا ہے جس کے باہر مرد و خواتین کا ایک ہجوم ہے اور ملیشیا کی کالی قمیضوں میں ملبوس دو فرنٹیئر کانسٹیبلری اہلکار بھی نظر آ رہے ہیں۔ اسی منظر میں مائیک ہاتھ میں تھامے ایک خاتون رپورٹر کے الفاظ سنائی دیتے ہیں:
”میں کہہ رہی ہوں میرے کیمرے کو چھوڑ دیں، کیمرا مین کو چھوڑ دیں.“
اسی دوران خاتون رپورٹر مزید غصہ ہوتی ہیں اور مثلِ ملکہِ جنگل غرّاتی ہوئی کہتی ہیں:
”ہاتھ مت لگانا کیمرے کو، ہاتھ مت لگانا میں بتا رہی ہوں.“
خود خاتون رپورٹر کی انگلی سکولوں میں پی ٹی کروانے والی خوفناک خاتون ٹرینر کی مانند ہوا میں لہراتی دکھائی دیتی ہے اور منہ سے الفاظ ان پنکھڑیوں اور پُھلجڑیوں کی صورت جھڑتے ہیں:
” میں کہہ رہی ہوں ہاتھ نیچے کرو، میڈیا کے ساتھ اگر یہ اتنی بد تمیزی کر رہے ہیں تو سوچ لیجیے عام لوگوں کے ساتھ یہ کیا کر رہے ہوں گے.“
اسی دوران کیمرہ مین نے شاید کیمرہ نیچے زمین کی طرف کیا ہوتا ہے کہ خاتون رپورٹر کی آواز سنائی دیتی ہے:
”فوکس کرو اسے.“
اور پھر اسکرین پر ایک ایف سی اہلکار کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا یہ کلپ ”خام فوٹیج“ کی صورت میں نہیں بلکہ منتخب کردہ حصے غالباً ایڈٹ شدہ ہیں، اس لیے جب منظر پھر تبدیل ہوتا ہے تو فضا ایک بار پھر خاتون رپورٹر کی غراہٹ میں کچھ اس طرح گونجتی ہے:
”سامنے سے بھی ویو دیکھ لیں، ان صاحب کا“ (حالانکہ ایف سی اہلکار کا چہرہ اس سے پچھلے منظر میں بھی سلو موشن کر کے فرنٹ اینگل سے ہی دکھایا گیا تھا، نجانے آن سائٹ ان خاتون رپورٹر کے اندر کا ڈی او پی یعنی ڈائریکٹر فوٹوگرافی کدھر سے جاگ گیا)
رپورٹنگ ان الفاظ میں جاری رہتی ہے:
”یہ ذرا دکھا دیجیے، یہ ہے وہ آدمی جو صرف اور صرف یہاں لوگوں کو بےعزت کرنے کے لیے آیا ہے.“
اس کے بعد وہ اس سپاہی سے کچھ یوں مخاطب ہوتی ہیں:
”اوئے تمھیں شرم نہیں آتی.“
اس دوران ان خاتون کا بایاں ہاتھ فضا میں کچھ یوں لہراتا دکھائی دیتا ہے جیسے سلطان راہی مرحوم اٹھا کر کہا کرتے تھے، بس اب اور کوئی بات کی تو۔
اس کے ساتھ ہی وہ مائیک سکیورٹی گارڈ کے منہ کے تقریباً بالکل ساتھ چپکانے کی کوشش کرتی ہیں. (شاید اس مخصوص مائیک سے ان خاتون رپورٹر کی آواز کے علاوہ باقی کسی بھی آواز کو سنانے کے لیے اسے منہ کے دھانے کے تقریباً اندر لے جانا ضروری ہوتا ہوگا)، اسکرین پر وہ ایف سی اہلکار وہاں سے ایک جانب جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جیسے شاید وہ راہِ فرار اختیار کر رہا ہو مگر یہی خاتون رپورٹر اُسے بازو سے پکڑنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں، جو کچھ لمحے قبل کیمرہ مین کو ہاتھ لگانے پر سیخ پا ہو رہی تھیں، ایف سی اہلکار غصے سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہو ئے ایک جانب بھاگ رہا ہوتا ہے کہ خاتون رپورٹر کیمرے کی جانب اپنا رُخ کرتی ہیں اور اپنے ہاتھ سے اہلکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:
”یہ دیکھیے، یہ ہے ان کا ایٹیٹیوٹ.“
اس وقت تک ایف سی اہلکار کی فرسٹریشن اور غصہ (جو کہ اس کے چہرے سے عیاں ہے) انتہا پر پہنچا ہوا لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ فضا میں لہراتا ہوا آتا ہے اور ایک زناٹے کے ساتھ خاتون رپورٹر پر برس پڑتا ہے۔
میں نے بہت سوچا کہ اس واقعے کو کیا لکھوں، افسوسناک واقعہ، شرمناک واقعہ یا پھر ذلت آمیز ۔ اس وقت تک کے میرے اندازِ تحریرسے شاید کچھ لوگ یہ محسوس کریں کہ میں ایک مرد ہونے کے ناطے خاتون رپورٹر کے ساتھ تعصب برت رہا ہوں، لیکن یقین جانیے ایسا ہرگز نہیں۔ مجھے ان خاتون رپورٹر سے دلی ہمدردی ہے اور ایف سی اہلکار نے جو کیا اس کو کسی بھی طور پردرست تو دُور کی بات، قابل قبول بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اور ویسے بھی اپنے ”پیٹی بند“ بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں تو ویسے بھی فطری طور پر ہاتھ ہولا رہتا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کی بےحد اور بےلگام آزادی اورٹی وی چینلز اور اینکرز کی ریٹنگ کی دوڑ نے ہمارے ”بےحد پڑھے لکھے“ میڈیا پرسنز کو بھی ازحد باؤلا کر دیا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ اس واقعہ پر ابھی بہت سارے بڑے صاحبان ِعلم اور صحافت کے ستونوں نے روشنی ڈالنی ہے اور سورج ڈھلتے ہی کئی ٹی وی چینلز پر بڑے بڑےجغادری صحافیوں اور نامور اینکروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں دربار اور عدالتیں لگا لینی ہیں تو مجھ ایسے گمنام لکھاری کی بات کیا اثر ڈال سکتی ہے، تاہم اس واقعہ اور اس جیسے دیگر واقعات نے پاکستان کے میڈیا سے وابستہ حساس افراد کی عزت نفس پر کئی ایک اثرات مرتب کیے ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔
رپورٹنگ کے دوران ہیجان خیزی اور سنسنی پھیلانےوالے انداز نے ہمارے معاشرے کے مجموعی مزاج پر جو گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا ادراک نہ ہی تو ہم انفرادی طور پر کر رہے ہیں اور نہ ہمارا معاشرہ لیکن اس کا نتیجہ ہم عدم برداشت اور تشدد پر مبنی رویوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ادارتی بورڈز، پالیسی ساز، مالکان اور دیگر بالائی فورمز اس قوم کو جس اجتماع خودکشی کی جانب دھکیل رہے ہیں اس کے بارے میں نہ ہی تو کوئی ریگولیٹری ادارہ سوچ رہا ہے اور نہ ہی قومی سیاسی قیادت۔ لیکن آئے روز ہم ملک میں جاری دہشت گردی، انارکی اور بےراہ روی کا رونا روتے رہتے ہیں۔
میڈیا اور گلیمر کے ذریعے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے خواب اور طاقت کا نشہ ہمارے رپورٹرز اور دیگر کارکنان کے مزاجوں کو بگاڑ رہا ہے اور اس پر پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے تربیت کا مکمل فقدان سونے پر سہاگہ کے مصداق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس واقعہ میں تھپڑ کھانے والی خاتون رپورٹر سے تمام تر ہمدردیوں کے باوجود سچ یہ ہے کہ اس سارے منظر میں وہ ایک صحافی کے طور پر کہیں نظر نہیں آئیں ۔ ”اوئے تمہیں شرم نہیں آتی“ جیسا عامیانہ جملہ کسی جھگڑے کے دوران تو بولا جا سکتا ہے لیکن کسی رپورٹنگ کے دوران؟ اگر یہ واقعی رپورٹنگ ہوتی تو یہ خاتون وہاں طے شدہ مقام سے آگے نہ جاتیں اور وہاں ہی کھڑے ہو کر تمام معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے اختتام پر کہہ سکتی تھیں کہ میڈیا کو آگے نہیں جانے دیا گیا۔ مائیک اور کیمرے کو ہاتھ میں پکڑنے سے ہمارا یہ استحقاق کہاں سے بن جاتا ہے کہ ہم وہاں بھی جائیں جہاں جانے سے ہمیں منع کیا جا رہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی مرد رپورٹر کسی خاتون کو بازو سے پکڑ کر زبردستی کیمرے کی طرف مڑنے کا کہہ رہا ہو تو وہاں پر موجود لوگ، میڈیا تنظیمیں اور چینلز اس معاملے کو کس طرح رپورٹ کرتے؟
اس واقعہ اور اس کی تفصیلات، مضمرات اور جزئیات پر مزید بھی بات کی جا سکتی ہے اور گھنٹوں کی جاسکتی ہے لیکن اس وقت کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ ان واقعات کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟
٭ پروفیشنل تعلیم کے بغیر رپورٹنگ اور میڈیا سے متعلق دیگر کاموں کی انجام دہی اور عدم تربیت.
٭ اداروں اور چینلز کے ادارتی بورڈز اور فیصلہ ساز اداروں کی عدم قابلیت، نیت کا فتور، پیشہ ورانہ بددیانتی.
٭ گورنمنٹ اور ریگولیٹری اداروں کی عدم دلچسپی، عدم قابلیت، جانبدارانہ اور مفاداتی رویے یا پھر لیڈرشپ کی صلاحییتوں کی کمی.
٭ چینل مالکان کی ہوسِ زر، عدم صلاحیت اور بےضمیری و سخت دلی
میرے نزدیک چوتھے اور آخری نمبر پر ذکر کردہ وجہ ان سب وجوہات کی بنیاد ہے اور تمام مسائل کی جڑ بھی۔ اگر میڈیا پلیٹ فارمز کے مالکان روپے کی طلب میں ہوس زدہ ہوکر اندھے، بےضمیر اور مردار خور نہ ہوتے تو شاید اصلاح احوال زیادہ جلدی اور آسانی سے ممکن ہوتی۔ یہ مالکان درحقیقت گدھ کی مانند ہو چکے ہیں کہ جنھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ مردار کیا چیز ہے؟ کیسے مری ہوگی؟ اس کا گوشت کھانا صحت کے لیے ٹھیک ہے یا نہیں؟ اس کے اندر زیادہ دیر تک مرے رہنے سے زہر تو نہیں پیدا ہو چکا ہوگا؟ یہ مردار کیا اپنے ہی قبیلے کا جاندار تو نہیں؟ کیا یہ مردار اپنی ہی اولاد یا ولد تو نہیں؟
بلکل ایسے ہی مالکان کے نزدیک صرف اور صرف ایک ہی چیز معنی رکھتی ہے کہ اس سے ریٹنگ کتنی اوپر جائے گی اور ریٹنگ اوپر جانے سے بزنس کتنا آئے گا؟ انہیں رپورٹرز کی جان کو لاحق خطرات سے غرض ہے نہ ہی معاشرے پر پڑنے والے اثرات سے کو ئی سروکار ۔ میڈیا مالکان واقعی ”گدھ مالکان“ بن چکے ہیں۔ اگر اس سب کو بدلنا ہے تو میڈیا مالکان کو گِدھوں والی سوچ تبدیل کرنا ہوگی.
(انعام الحق مسعودی ماس کمیونیکیشن میں گریجوایشن کے ساتھ ساتھ برطانیہ سے منییجمنٹ اسٹڈیز میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں، زمانہ طالب علمی میں مظفرآباد سے چھپنےوالے بچوں کےملک گیر رسالے ماھنامہ مجاہد کے مدیر رہے ہیں۔ سوشل سیکٹر، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ برطانیہ میں 5سالہ قیام کے دوران علاقائی اور کمیونٹی ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز سے بھی منسلک رہے ہیں۔ آج کل سِلورھُڈ فلمز کے نام سے ایک پروڈکشن ہاؤس چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی تنظیموں کے لیے بطور فری لانس اور ٹرسٹی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)
تبصرہ لکھیے