’’اگر کسی شاپنگ مال میں کام کرنے والی نیلی آنکھوں والی خوبصورت لڑکی کی تصویر کوئی منچلا بلا اجازت فیس بک پہ پوسٹ کر دیتا اور اس پر دنیا بھر کے خصوصاََ پڑوسی ملک کے لڑکے سیکسی، ہاٹ، بیوٹی فل، قاتل حسینہ اور مارڈالا جیسے کمنٹ کر دیتے اور کروڑوں کی تعداد میں لائکس اور شیئر ہوتے اور ہر لونڈا لپاڑہ اس کی ورکنگ پلیس پر جا کر اس کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہوتا تو سوچیے کہ ان سب مردوں کو اب تک کیا کیا القاب مل چکے ہوتے. ٹھرکی، بدکردار، ورکنک گرلز کا جنسی استحصال کرنے والے، ہوس کے پجاری اور نہ جانے مذمت میں کتنے ٹاک شو ہوتے اور موم بتی والی آنٹیاں مختلف چوکوں چوراہوں میں دس دس پندرہ پندرہ کی تعداد میں متاثرہ لڑکی کی تصویر کے ساتھ کیٹ واک کر رہی ہوتیں.‘‘
یہاں مجھے ایک روایت یاد آرہی ہے،
’’ایک بادشاہ سلامت اپنے مصاحبوں کے ساتھ شکار سے واپس آ رہے تھے تو رات کافی بیت چکی تھی، شہر کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے بادشاہ نے مشعل کی روشنی میں دیکھا کہ فصیل پر پہرا دینے والا سپاہی کافی ضعیف بھی ہے اور شدید ٹھنڈے موسم کی مناسبت سے اس کے کپڑے بھی گرم نہیں ہیں۔ بادشاہ نے اپنی سواری کو روکا، اس پہریدار کو اپنے پاس بلوایا، پہریدار ڈرتے ڈرتے بادشاہ سلامت کے حضور حاضر ہوا کہ مبادا اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے جس کی اب سزا ملے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ بادشاہ سلامت نے اس کی خستہ حال پوشاک پر نظر ڈالی اور اسے کہا کہ میں تمھارے لیے محل سے گرم کپڑے بجھوانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ یہ سن کر پہریدار خوش ہوا اور بادشاہ سلامت کے اقبال بلند ہونے کی دعائیں دینے لگا جبکہ بادشاہ سلامت محل میں جاتے ہی تھکاوٹ سے چور ہونے کی وجہ سے گرم بستر میں لیٹتے ہی گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے جبکہ شہر کے دروازے پر صبح بوڑھے پہریدار کی سردی سے اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی. پاس ایک رقعہ پڑا تھا جس پر لکھا تھا، بادشاہ سلامت میں پچھلے کئی سالوں سے سخت سردی کے موسموں میں اسی خستہ پوشاک میں شہر کی رکھوالی کا فرض ادا کرتا رہا ہوں لیکن آج تک برفباری بھی مجھے مار نہیں سکی۔ افسوس! آج آپ کے ایک گرم کپڑوں کے وعدے نے مجھے مار ڈالا.‘‘
چائے والے کو دکھائے جانے والے لاحاصل خواب - محمد ابراہیم شہزاد

تبصرہ لکھیے