ہوم << ایک سیلوٹ اور دو باتیں - سید بدر سعید

ایک سیلوٹ اور دو باتیں - سید بدر سعید

بدر سعید پاک ٹی ہائوس اب صرف ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانا نہیں رہا۔ سچ کہیں تو اب یہاں ادیب شاعر اقلیتی جبکہ یونی ورسٹی کے طلبا و طالبات اکثریتی گروپ بن چکا ہے۔ ماضی میں شاعر ایک کپ چائے کے ساتھ سارا سارا دن گزار دیتے تھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ چائے پینے کے بعد عزت سادات بچاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ نوجوانوں کی اکثریت سارا دن یہیں ڈیرہ جمائے نظر آتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں، لیپ ٹاپ، قہقہے اور دھواں دار گفتگو کے ساتھ ساتھ سرگوشیاں بھی ان کی پہچان ہے۔ شروع میں تو پاک ٹی ہائوس میں نوجوانوں کی آمد اور اس طوفان بدتمیزی پر کئی کالم بھی لکھے گئے اور ادبی حلقوں میں اس پر طنز بھی کیا گیا لیکن اب دونوں پارٹیاں ہی ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
پاک ٹی ہائوس میں آنے والے طلبا و طالبات میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو بظاہر تو ’’برگر کلب‘‘ کے نمایندے لگتے ہیں، لیکن ان کا مطالعہ اور ادب سے لگائو قابل تعریف ہے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک گروہ تھا۔ ہم چند دوست پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے صحافتی جھگڑوں اور ملکی مسائل پر گفتگو کررہے تھے جبکہ ساتھ کی میز پر غصہ سے بھرے بیٹھے یہ نوجوان پاکستان کے نظام پر تنقید کے نشتر چلارہے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکمے بند کردیئے جائیں تو لاتعداد مسائل خودبخود حل ہوجائیں۔ ایک نوجوان تو اس قدر جذباتی تھا کہ چاہتا تھا کہ تمام سرکاری ملازموں کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے۔ ایسے جذباتی ماحول میں خاموشی ہی ہمیشہ بہتر پالیسی رہتی ہے۔ جذباتی نوجوان آپ کو یا تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے یا پھر درمیان سے جملے اچک لیتے ہیں۔ یہاں البتہ صورت حال مختلف تھی۔ یہ لوگ دھواں دار گفتگو کرنے کے بعد ہماری رائے سننے کے متمنی تھے۔ فتح مندی کے تاثرات ان کے چہروں پر عیاں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اختلاف کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
ان سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا: آپ میں سے کس کس کو گذشتہ ایک سال کے دوران کسی تھانے جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ سب خاموش رہے۔ اس خاموشی سے مجھے گفتگو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ میں نے بولنا شروع کیا۔ مجھے پولیس کا حوالہ اس لیے دینا پڑا کہ آپ سب سے زیادہ پولیس کے خلاف بول رہے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی کسی تھانے میں نہیں گیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر ماضی میں ہمیں پولیس اسٹیشن میں کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تو آج بھی اسی کو بنیاد بناکر پولیس کے خلاف بول رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کریں گے کہ اس عرصہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟
ایک سروے کے مطابق صرف 30 فیصد لوگوں کو پولیس سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے لیکن پولیس کے خلاف بولنے والوں میں باقی ستر فیصد لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہمیں سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ سوشل میڈیا بتاتا ہے کہ ہم شہرت اور ریٹنگ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ ہم بنا تصدیق خبریں اپ لوڈ کرکے اپنے پیجز پر زیادہ سے زیادہ ریٹنگ لینا چاہتے ہیں۔ ہم جھوٹی اور من گھڑت باتیں پھیلاتے ہیں۔ اپنی پوسٹ شیئر کرنے پر جنت کا لالچ دیتے ہیں اور اس ریٹنگ کے چکر میں تبرکات اور مقدس ہستیوں کا نام استعمال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
نوجوانوں کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ مجھ سے متفق ہیں۔ میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ریٹنگ کی یہ دوڑ ہمیں پولیس اور دیگر محکموں پر بے سروپا تنقید پر اکساتی ہے۔ پولیس افسران بار بار صحافیوں کو بتارہے ہیں کہ انہوں نے محکمہ پولیس میں جدید سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی ہیں۔ ٹریننگ سے لے کرتھانوں تک سارا نظام بدل رہا ہے لیکن ہم میں سے شاید ہی کسی نے اس نئے نظام کو سمجھنے میں دلچسپی لی ہو۔ ہم ان 70 فیصد کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں جن کے بارے میں آقا دو جہان ﷺ نے کہا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی بات بنا تصدیق آگے پھیلا دے۔ جھوٹ کا یہ کلچر ہمارے سارے معاشرے کو تباہی کے راستے پر لے آیا ہے۔ ہم اب ایسے آتش فشاں کے دھانے پر بیٹھے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
ایک نوجوان کچھ پریشان نظر آیا۔ کہنے لگا پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور چند لمحوں کے بعدکہا: ہم ہی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ خدا یہ معاشرہ ٹھیک کرنے کے لیے اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ اب ذمہ داری ہمارے کاندھے پر ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک کے اداروں کا مورال گرجائے وہ ملک تباہ ہونے لگتا ہے۔ ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی عادت ختم کرنا ہوگی۔ ہمیں یونی ورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ پولیس افسران سے ملنا ہوگا اور اس نئے سسٹم کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہم کس طرح جرائم کے خلاف پولیس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات ہمیں پولیس کو اپنا سمجھنا ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم فوج کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ہمیں اسی طرح پولیس اہلکاروں کو سیلوٹ کرنا ہوگا۔ ہمارا یہ ایک سیلوٹ ان کی دن بھر کی تھکاوٹ اور چڑ چڑا پن ختم کرکے انہیں تازہ دم کرسکتا ہے۔ یہ ایک سیلوٹ اور دو حوصلہ افزا باتیں ہم پر قرض ہیں۔ جس دن ہم یہ قرض اتارنے لگے اسی دن ہماری پولیس سے شکایات بھی ختم ہوجائیں گی۔