ہوم << صحت حدیث اور جدید سائنس - عالم خان

صحت حدیث اور جدید سائنس - عالم خان

عالم خان مستشرقین (Orientalists) قرآن کریم کے مقابلے میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ تحقیق کرتے ہیں، کیونکہ ان کی دلچسپی تاریخ اور سیرت کا از سر نو ترتیب کرنے میں ہے، جس کا اظہار ہارلڈ موتزکی نے اپنی کتاب ((Dating Muslim tradition میں کیا ہے، اور ان دونوں کی تحقیق کے لیے قرآن بحثیت مصدر ناکافی ہے، اس لیے مجبورا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ گریگر شیلر، ہارلڈ مو تزکی، اور اینڈریس گورک کی تحقیق ونظریہ ہے-
لیکن حدیث پر تحقیق کرنے کے دوران انہوں نے تاریخ اور سیرت کی از سر نو ترتیب کے بجائے اس کی صحت پر سوال اٹھانا شروع کر دیا، اور مختلف ادوار میں احادیث کے مختلف مجموعات پر تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی صحت مشکوک اور تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت غلط ہے، اور اس مشن کے لیے ان کتابوں کا انتخاب کیا گیا جو مسلمانوں کے ہاں معتبر مانی جاتی ہیں، مثلا شاخت (وت 1969) نے موطا امام مالک جو کہ صحاح ستہ کے لیے مصدر کی حثیت رکھتی ہے، اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الام جو کہ فقہاء کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، منتخب کیا تھا، پروفیسر ڈاکٹر جونبل (وت 2010) چونکہ عمومی طور پر شاخت کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے اس نے شاخت کے بعض نظریات کو لے کر صحاح ستہ عموما اور بخاری ومسلم کو خصوصا اپنا موضوع تحقیق ٹھہرایا ہے-
مستشرقین کا آپس میں مناہج اور طرز استدلال میں فرق ضرور ہے، لیکن احادیث کی صحت اور تاریخی اعتبار سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونے کے انکار میں سب متفق ہیں، اور ان کے نزدیک محدثین نے صرف سند کی تحقیق کرکے بغیر تحقیق کے متون (حدیث کےالفاظ) اپنی کتب میں نقل کرکے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے- ان کے اس طرز تحقیق و نتائج سے ہمارے بعض مسلمان اسکالرز بھی متاثر ہوئے ہیں، کہ واقعی محدثین نے متون الحدیث کی تحقیق پر دھیان نہیں دیا تھا جیسا کہ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کوالالمپور ملائشیا کے پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد خان نے اپنی کتاب (Authentication of Hadith: Redefining the Criteria) میں بخاری کی چند آحادیث پر سوالات اٹھائے ہیں، اگرچہ محدثین نے متن اور سند دونوں کی تحقیق کرکے حدیث پر صحیح ضعیف اور موضوع (من گھڑت) کا حکم لگایا ہے، اور اس کے لیے جو قواعد اور اصول وضع کیے، آج بھی ہمارے نقد المتون کی کتابوں میں طالب علموں کو پڑھائے جاتے ہیں، جس کی پوری تفصیل كسی اور تحریر میں کروں گا-
لیکن موریس بوکائے(Maurice Bucaille) جو ایک فرانسیسی سرجن ہے، اور قرآن و دیگر آسمانی کتب کی جدید سائنس کے ساتھ ہم آہنگی پر تحقیق میں خاص شہرت رکھتا ہے، اور اس کے مسلمان ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے، کہ وہ قرآن کی جدید سائنس سے مطابقت سے متاثر ہوا تھا، اس کے نزدیک صداقت اور صحت کا معیار جدید سائنس سے مطابقت پر ہے، اس لیے صحیح بخاری کتاب بدء الوحی اور کتاب الطب کی صحت کو مشکوک قرار دیا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک وہ جدید سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں، اور اپنی شہرہ آفاق کتاب (The Bible, The Qur'an and Science) میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے، کہ اگر متن الحدیث کسی ایسی چیز پر مشتمل ہو جس کی سائنس توثیق نہ کرتی ہو، تو اس کی صحت کو مشکوک ٹھہرایا جائے گا-
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اسلام سائنسی علوم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس کے اثبات کے لیے سورۃ الانفال کی آیت (60) کافی وشافی ہے جس میں مسلمانوں کو دشمن کے مقابلے تیاری کا حکم دیا گیا ہے، آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہی وہ تیاری ممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے، کہ کیا ہم نص قرآنی یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اسی وجہ سے رد کرسکتے ہیں، کہ سائنس اس کی تصدیق و توثیق نہیں کرتی، جیسا کہ سائنس سے متاثر حضرات کا شیوہ ہے، کہ ہر چیز کو سائنسی اصولوں پر پرکھتے ہیں، کیونکہ تجربات اور مشاہدات سے علم الیقین اور عین الیقین حاصل ہوتا ہے، جو کہ زیادہ معقول اور مقبول ہوتا ہے، اور روایت سے حاصل ہونے والے علم کا دراومدار انسان کے عقیدہ پر ہوتا ہے، اگر عقیدہ نہ ہو، تو پھر تجربات اور مشاہدات کو ترجیح دے کر روایت رد کر دی جاتی ہے-
حقیقت یہ کہ اسلام کی طرح سائنس بھی اسلام کی توثیق کرتا ہے، ماضی میں بہت سی قرآنی آیات اور آحادیث نبویہ کا انکار کیا جاتا تھا لیکن سائنس کی آئے روز ترقی اور نت نئی ایجادات نے ان پر مہر تصدیق ثبت ثبت کی ہے، اور کل کے انکاری- جس میں جدید سائنس اور اس کے پیروکار بھی شامل ہیں- آج اقراری بن گئے ہیں، اس کی کئی مثالیں ہیں، لیکن چند ایک عرض کرتا ہوں-
حديث الذبابۃ (Fly)
حدیث کی تقریبا تمام کتابوں میں مختلف اسانید سے کتاب الطب میں (حدیث الذبابۃ) روایت کی گئی ہے، جس میں کھانے میں مکھی گر جائے اور کھانا استعمال کرنے کا ارادہ ہو، تو اس صورت میں مکمل ڈبونے کا حکم دیا گیا ہے، اور سبب یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے، ماضی میں میڈیکل سائنس اس حدیث کا انکار کرتی تھی، اور اس کو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سائنس نے ترقی کی اور اس موضوع پرتحقیق کی تو خود ثابت کیا، کہ واقعی مکھی کے ایک پر میں وائرس اور ایک میں انٹی وائرس موجود ہے اور موجود وائرس مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، جس کی پورى تفصیل الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مصطفی ابراہیم حسن نے اپنے مقالہ (الداء والدواء فی جناحی الذباب) میں بیان کیا ہے.
اعمال کا وزن کرنا
قرآن وسنت میں انتہائی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کے برے اور اچھے اعمال کا وزن کیا جائے گا، حتی کہ کامیابی وناکامی كا اعلان بھی فرشتہ کرے گا، اگر نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوا تو پھر انسان جنت کی پر تعیش زندگی سے نوازا جائے گا، اور برے اعمال کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت میں جہنم کے عذابوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی طرف سورۃ القارعۃ آیث (6-7-8-9) میں اشارہ کیا گیا ہے، لیکن یونان کے فلسفہ اور سائنسی مشاہدات وتجربات سے متاثر اسکالرز نے انسانی اعمال کو غیر مجسم قرار دے کر اس کا وزن کرنے سے انکار کر دیا، اور ماضی میں مفسرین و محدثین اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات کرتے تھے، کہ اعمال نہیں بلکہ صاحب عمل اور یا ان رجسٹرز کا وزن کیا جائے گا، جس میں انسان کے اعمال کا ریکارڈ موجود ہے وغیرہ، جس کی پوری تفصیل تفاسیر اور أحادیث کی شروح میں موجود ہیں، لیکن سائنس نے ترقی کرکے تھرمامیٹر اور بیرومیٹر ایجاد کرکے اس اعتراض اور جوابا تاویلات کو ختم کردیا، اور ابگی کوئی اس موضوع پر لب کشائی نہیں کرتا کہ اعمال کا وزن ممکن ہے یا نہیں –
اعمال کا ریکارڈ (اعمال نامہ)
ابتداء یہ بھی نا ممکن تصور کیا جاتا تھا، کہ انسان کی پوری زندگی کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے گا، اور پھر قیامت کے دن اس کو پیش کیا جائے گا، کہ لو پڑھو اس میں تمھارے تمام اعمال کا ریکارڈ موجود ہے، اور یہ تمھارے احتساب کے لیے کافی ہے، اوراگر انسان نے ذرہ برابر عمل بھی کیا ہو تو اس کو اس میں دیکھ پائے گا، جیسا کہ سورۃ الاسراء آیت(14) اور سورۃ الزلۃ آیت (7-8) میں مذکور ہے، ہارڈ ڈسک سے لے کر موبائل کے میموری کارڈ تک کی ایجاد نے اس ناممکن تصور کو ممکن بنا کر عقل انسانی کو قائل کیا کہ واقعی انسان کا ریکارڈ ویڈیو کی شکل میں بالکل اصل کی طرح محفوظ کیا جا سکتا ہے، اور (player) میں (zoom, pause and forward) نے کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کا مسئلہ بھی حل کیا، تو اگر انسان ریکارڈنگ اور اس کو محفوظ کرنے پرقادر ہے تو انسان اور پوری کائنات کا خالق کیوں اس پر قادر نہیں ہوگا-
لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اب ہم ہر چیز (خواہ قرآن ہو یا حدیث) کو سائنس پر پرکھیں گے، اور اگر موافق ہو تو صحیح ورنہ اس کی صحت کو مشکوک قرار دے کر رد کریں گے، جیسا کہ موریس بوکائے کا نظریہ ہے- کیونکہ سائنس انسانی تحقیق، تجربات و مشاہدات کا نام ہے اور قرآن و حدیث انسان کے خالق کی طرف سے نازل شدہ وحی کا نام ہے، حدیث کے وحی ہونے کے لیے (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) کافی ہیں، توسائنس پر اس کا پرکھنا نا انصافی ہے، البتہ اگر کہیں مطابقت پائی چاتی ہو، تو اس کو بحیثیت شاھد علی الحقانیۃ استعمال کی جاسکتی ہیں، لیکن جہاں مخالفت اور عدم مطابقت پائی جاتی ہے، تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ قرآن یا حدیث میں بیان کردہ موضوع کی حقیقت کا ادراک کرے، اور اس عدم مطابقت و توثیق کو صرف بنیاد بنا کر حدیث کو رد نہیں كیا جائے گا، بلکہ اس کی تحقیق نقد المتون کے قواعد کے مطابق کی جائے گی ، اور اس کے موضوع ہونے Fabricated) یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا -

Comments

Click here to post a comment