ہوم << سرخروئی - کاشف جانباز

سرخروئی - کاشف جانباز

"موجودہ دور میں دوسروں پر سبقت لے جانا،اپنے ھم عصروں کو پچھاڑ دینا اور ذاتی مفاد کےلئے تعلقات کا جنازہ نکال دینے کے ساتھ ساتھ ظاہری سود کی خاطر رشتوں تک سے کنارہ کش ھوجانا رسم اور کامیابی کی علامت بنتا جارہا ھےـنیز کسی صورت بھی شکست سے دامن تر نہ ہو اور جیت مقدر کی جاگیر بن کے رہنی چاہیے۔مجھے آج بھی وہ گزرا وقت اچھی طرح یاد ھے کہ جب تقریبا سولہ سال پہلے گاؤں میں رہاٰئش تھی اور چچا جب بھی کراچی سے گاؤں جاتے تو میری اور عامر کی کشتی کرواتے جبکہ جتنے دن رہتے وقفے وقفے سے ھم میں زور آزمائی کی مشق کرواتے رہتے عامر میرا چچا زاد بھائی اور مجھ سے دو ماہ چھوٹا تھا اور چچا عبدالوہاب سے ھم دونوں کا رشتہ ایک جیسا تھاـ میں اور عامر جب بھی کشتی کرنے میدان میں اترا کرتے تو چچا بطور انعام دو روپے کی جھنڈی مقرر کیا کرتے تھے یعنی جودوسرے کو چت کرگیا اسے دو روپے ملیں گے۔ان دنوں دو روپے ہی دہاڑی کا کھلا خرچہ ہوتا تھا۔کھانا پینا تو ہوتا نہیں تھا پھر کیا ہوا کہ کبھی مرنڈا لے کر کھا لیا اور وہ مرنڈا بھی اتنا بڑا ہوتا تھا کہ ھمیں اور کسی چیز کی طلب نہیں رہتی تھی_
ٹافیاں جو ہفتے میں ایک آدھ بار ہی لیا کرتے تھے وہ ایک روپے کے عوض آٹھ ہتھیا جاتی تھیں...لیکن ہم زیادہ تر پیسے کنچوں کی خرید پر صرف کیا کرتے تھے روپیہ دکاندار کے حوالے کیا اور پندرہ کنچے لے کر ایسے خوش ہوتے گویا عید ہوگئی ہو...خیر جب دنگل سج جاتا تو ہم دونوں چینجنگ روم کی بجاۓ اپنے گھروں کو دوڑ جاتے عامر شلوار کو بل دے دے کر نکر کی صورت چڑھا لیتا اور میں ہر بار اپنے چھوٹے بھائی کی نکر پہن کر میدان میں اترتاحالانکہ امی ہر بار منع کرتیں کہ کشتی نہ کروں، ہر بار تو عامر چت کردیتا ہےمگر مجھے ہر بار امید ہوتی تھی کہ اس بار اسے ہراؤں گا مگر ہاتھ وہی مات آتی تھی باقی ہارنے کا بھی چسکا لگ گیا تھا کیونکہ میرا فائدہ اسی میں پوشیدہ تھا...ہر بار ایک ہی اینڈ ہوتا تھا کہ ٹپ ٹاپ میری زیادہ ہوتی اور جیت عامر کی، بس کشتی شروع ہونے کی دیر ہوتی تھی کہ دوسرے منٹ میری کمر زمین کو جا لگتی_ عامر خوشی میں جھومنے لگتا اور میں افسردگی میں آنسو بہانے لگتا... جس کے بعد چچا فاتح کو دو روپے دیتے اور شکست خوردہ یعنی مجھے پانچ روپے دیتے_ یہ معمول اک عرصہ چلا اور اللہ گواہ ہے کہ میں نے عامر کو اک بار بھی چت نہیں کیا لیکن پیسے ہر بار اس سے زیادہ ملے...
آج جب نہ وہ بچپن کا کھرا پن ہے نہ لطف زندگانی نہ شعور کی کھپ کے زندان سے آزادی اور نہ ہی فکر کے الجھے ہوئے جال سے راہ فرار تو مجھے وہ گزرا ہوا وقت رب اور بندے کے مابین رشتے کی یاد دلاتا ہے_ یہی حال اللہ اور بندے کے تعلق کا ہےاگر بندہ اس کی رضا کیلئے جھک جائے تو اسے جہاں میں وہ بلندی حاصل ہوتی ہے جو اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتی...آج انا کے الاؤ میں اس قدر بھڑکیلی آگ ہے کہ جس سے نرم خوئی کی روئی راکھ ہوئے جا رہی ہے... نہ امراء کا ہاتھ اپنے پیٹ سے ہٹتا ہے نہ ہی مسکینوں کا درد شکم ان کے ہاتھ کو پیٹ سے ڈھلنے دیتا ہے...کیفیت دونوں کی ایک ہے، اگر فرق ہے تو سبب کا اک سمت شکم سیری کا درد ہے اور دوسری جانب بھوک کا... حالانکہ رب نے دونوں کا علاج آپس میں دست و بام ہونے میں پوشیدہ رکھا ہے... اگر امیر بھوکے کو کھلا دے تو بھوک سے اٹھا درد تو مٹے گا ہی، ساتھ ساتھ کھلانے والے کے درد بھی تمام ہو جائیں گے... آج خون کے رشتے ذاتی مفاد کی آمیزش سے پانیوں کا روپ دھار چکے ہیں جذبات کی حدتوں پر ”میں“ کی سرد مہریوں نے برف جما دی ہے، خون کے رشتوں کی بات سنتے ہی خون کھولنے لگتے ہیں... آج رہا تو ایک ہی چھت تلے جاتا ہے لیکن آپس میں دوریاں اس قدر طویل ہوتی ہیں کہ جنھیں طے کرنے میں سالوں کا عرصہ بھی کم پڑ جائے... جسم جس کی اصل آماج گاہ قبر کی گندلائی مٹی یا کیڑوں کا پیٹ ہے لیکن بندہ اپنے انجام سے سراسر روگردانی کیے ہوئے اس عارضی جثے کے لیے روحوں کو اپنی حرص اور طمع کی پھنکار سے برابر جھلسائے جاتا ہے_ لمحوں پر محیط فائدے کی خاطر زمانوں پر مبنی منافع کو بھینٹ چڑھا دیتا ہے...خاکی وجود لیے آسمان بننے کی سعی میں اپنے جیسے خاکیوں پر خاک انڈیلتا پھرتا ہے اور خود کو جانے کون سا زمرد تصور کرتا ہے جس کا نہ کوئی مول ادا کرسکتا ہے اور نہ ہی جسے کوئی اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے... لیکن اسے کون سمجھائے کہ سودے تو ہوچکے، دام تو لگ چکے، اجناس کی خریدوفروخت ہوچکی حتی کہ نرخ بھی ادا کر دیے گئے...
اب ہر کوئی اپنے اپنے دائرے میں مقررہ مدت پوری کرنے میں لگا ہےجس نے نفس کے بے قابو جن کو رب کی مشیت منشاء اور رضا کے سامنے قید کرکے جھکا دیا اور حکم خداوندی کو زندگی کا دائم اسلوب بنا لیا خواہ اس میں اسے لحظوں پر مشتمل عارضوں کا سامنا کرنا پڑے، رکاوٹوں سے دوچار ہونا پڑے، گھاٹوں سے ماس جھڑوانا پڑے، یا تضحیک سے ذات کی تسخیر کے مشکل ترین عمل سے گزرنا پڑے، اس نے ان تمام تر حجتوں سے منہ پھیر کر بہترین تخلیق کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے سرخروئی کی علامت جبین کو جھکا دیا ہے_ چاہے کوئی آکر اس کی گردن تن سے جدا کردے لیکن یہ اس کے آگے خم نما ہی رہے گی، اگر اسے کوئی اٹھائے گا تو وہی جس کے لیے اسے نیلام کیا گیا... ہم ایک طرف تو اس دین سے منسلک ہیں جو قدم قدم پر ایثار جذبے اور قربانی کے ساتھ ساتھ صبر قناعت اور حوصلے کا درس دیتا ہے جبکہ ہمارے رویے اس کے بالکل برعکس هہں جن سے جھلکتا غرور ہر ہر قدم پر دینی تعلیمات پر طمانچوں کی بوچھاڑ کرتا نظر آتا ہے... آج ہر کوئی سرپٹ دوڑے جارہا ہے بنا اس خیال کے کہ کس کا خیال کرنا ہے اور کسے بلحاظ مروت آگے بڑھنے دینا ہے_
انسیت پر کاغذی مایا نے ایسی آندھی چلائی ہے کہ زر زمین محبت کا مدار بن گیا_ ظالم کے سامنے بھیگی بلی بن جانا اور مظلوم پر چڑھ دوڑنا وتیرہ بن گیا_ دینی رشتے کی رگوں سے خون سکھا دیا گیا_ عیب کشائی کرکے کسی کو نیچا دکھانا عقلمندی اور کسی کی کمزوری پر طنز کی تھپیڑوں سے ضمیر کے گال سرخ کرنا ہوشیاری کی علامت بن گئی...
میرے پاک پیغمبر کی اک اک ادا پہ جہانوں قربان جن کا وصف کائنات کا بہترین نمونہ ہے_ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی بزرگ کو سر راہ چلتا دیکھو تو چال دھیمی کرلو کیونکہ تمھاری تیز چال سے اس کے دل میں اپنی ضعیفی کے احساس کے ہونے کا احتمال ہے_ اسی حدیث میں ہار میں چھپی جیت کا درس موجود ہے_ بس جس نے مات کے غلاف میں لپٹی شہ کو پا لیا اس جیسا بلند بخت کوئی نہیں..."

Comments

Click here to post a comment