جب کسی گورے سے اسکی تاریخ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی تاریخ قدیم یونان سے ملا کر بڑا فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ یونان سے ہی بڑے علمی دانشور ارسطو اور اس جیسے کئی لوگ تعلق رکھتے ہیں یہی نہیں ڈرامہ،لٹریچر وغیرہ کی ابتدا بھی وہی سے ہوئی ۔دراصل گوروں کی پوری تاریخ سوائے جھوٹ کے پلندے کے کچھ نہیں ۔
قدیم یونانی بہت سارے خداوں کو پوجتے تھے۔ یہ لوگ تو ویسے بھی بہت سارے خدائوں کا تصور رکھتے تھے ان بہت سارے خدائوں کے باوجود بھی ایک سب سے بڑا خدا ہوا کرتا تھا جسکو زیوس(Zeus ) کہا جاتا تھا ،زیوس انکے مطابق آسمانوں کا خدا تھا اسلئے اسکو باقی سب پر فوقیت حاصل تھی ۔زیوس کا بت انہوں نے سب سے اونچی جگہ رکھا ہوا تھاانکے مطابق اونچی جگہ سے زیوس کو سب پر نظر رکھنے میں آسانی ہوتی تھی۔ کچھ عرصے بعد آب پاشی کرنے والے لوگوں نے زرخیز زمینوں کی طرف نقل مکانی کی تو انہوں نے کچھ عرصے تک پچھلے عقائد پر چلنے کے بعد ان میں تبدیلی لائی اور اب ان کا سب سے بڑا خدا اپولو (Apollo ) بن گیا جو پہلے سورج کاخدا کہلایاکرتا تھا۔اس کو سب سے بڑا خدا کہلانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ خود زراعت سے وابسطہ تھے اسی نسبت سے اسکو یہ رتبہ دے دیا۔مطلب انہوں نے اپنے ہی مفاد کیلئے خدا کا رتبہ ایک سے اٹھا کر دوسرے کو دے دیا۔یہی اپولو بعد میں انکے لئے ناچ گانے اور ہر طرح کی عیاشی مہیاکرنے والا خدا بھی بن گیا ۔اس طرح اس زمانے میں بہت سارے خدائوں کا تصور پایا جاتا تھا ان میں بیماری کا الگ،سورج کا الگ ،اور دیگر باقی امور کے الگ الگ خدا ہوتے تھے اور جس کو جو حاجت ہوتی وہ اسی چیز کے خدا سے رجوع کرتا تھا۔
قدیم یونان آج کی مغربی تہذیب پر بہت زیادہ اثرانداز ہے کیونکہ مغرب میں بسنے والے اکثر لوگ اپنی تاریخ کی ابتدا قدیم یونان سے ہونے کادعوی کررہے ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کا یہ اثر آج کے مغرب میں بہت ذیادہ نظر آتا ہے ان کی روزمرہ زندگی کے ہر ہر پہلو قدیم یونان کااثر صاف دکھائی دیتا ہے ۔اولمپکس آج دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کے مقابلوں کا تہوار سمجھا جاتا ہے جب اسکے ماضی میں جھانکا جائے تو نظر آتا ہے قدیم یونان سے اسکی ابتداء ہوئی اور اس وقت لوگ اپنے خدائوں کو خوش کرنے کیلئے مذہبی تہواروں کا انعقاد کیا کرتے تھے جن میں ایک اولمپکس شمار کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس زمانے میں لوگ آرٹ کو بھی بہت پسند کرتے تھے ۔ماربل سے اچھی اور بہترین انداز میں مورتیاں بناکر کانسی کا رنگ چڑھایاکرتے تھے تاکہ اسکی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکے۔بڑے بڑے پتھروں سے مندر تعمیر کئے جاتے تھے ۔انکا فن آرٹ آج بھی پوری دنیا میں اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے ۔اور اسکو اچھے انداز میں یاد کیاجاتا ہے ۔
ابتدائی طور پر قدیم یونانیوں نے 24 الفاظ ایجاد کئے تھے جنکو آج کی جدید دنیا میں ریاضی اور سائنسی کتب میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہی الفاظ کو بعد میں رومیوں نے نقل کر کے اپنے دور میں نئے سرے سے مرتب کئے تھے۔ایسے اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتے آتے آج کے مغرب میں استعمال ہونے والی زبانیں بن گئی ۔وہی سے لٹریچر اور ڈرامے کی ابتداء بھی ہوئی جو آج سینما کی صورت موجود ہے اور سٹیج ڈرامہ بھی اسی کی ایک کڑی سمجھی جاتی ہے ۔ اس دور کے سائنسدانوں میں ارچمیدس،فیثاغورس جبکہ فلسفہ میں سقراط اور ارسطو قابل ذکر ہیں۔انہوں نے اپنے اپنے شعبے میں وہ کمال جوہر دکھائے کہ دنیا آج بھی حیرت زدہ ہے ۔قدیم یونانی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں رہتے تھے 150 چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل قدیم یونان مشہور تھامگر اس وقت کی مشہور ریاستوں میں سپارٹا اور اتھینز شامل ہیں جو اپنے رہن سہن کے حوالے سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔
یونانیوں کے بعد جس تہذیب کو دنیا میں شہرت ملی وہ رومیوں کی تہذیب تھی۔یونان جب اپنے ارتقا ء سے تنزلی کی طرف سفرکرنے لگا تو ایک نئی تہذیب کا جنم ہواجسکو دنیا رومیوں کی تہذیب کہتی ہے۔رومی بھی بہت سارے خدائوں کو ماننے والے تھے جس خدا کو یونانیوں نے زیوس کے نام سے اپنا سب سے بڑے خدا کا نام دیا انہوں نے اسکا نام تبدیل کر کے جوپیٹر رکھ دیا ،اسی طرح دیگر یونانیوں کے خدائوں کو انہوں نے سیاروں کے نام دئیے اور ہر ایک کی الگ الگ ذمہ داری لگا کر لوگوں کو بہت سارے توہمات کا اسیر بنادیا۔ رومیوں کو یقین تھا کہ وہ اگر اپنی رسوم و روایات کے مطابق کام کرینگے تو انکے خدا ان سے بہت خوش ہونگے۔انکے یہاں بھی بہت سارے تہواروں پر مختلف کھیل کھیلے جاتے تھے اور انکا مقابلہ بھی کروائے جاتے تھے ۔اس طرح سانڈ کو گرانے والا ایک کھیل تھا جس میں ایک موٹا تازہ سانڈ کو پچھاڑنے والے کو بھاری انعامات اور اسکو ایک خاص مرتبہ دیا جاتا تھا یہ کھیل آج بھی کئی ممالک میں کھیلا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یونانی اور رومی دونوں بہت سارے خدائوں کو ماننے والے تھے۔مگر رومی اسکے علاوہ بھی بہت سارے توہمات کا شکار تھے۔رومن تہذیب کا آغاز 753 قبل مسیح میں ہواتھا یہ بھی تاریخ کا سنہرا دورتھا اس دورکے بادشاہوں میں آگسٹس قابل ذکر ہیں۔رومی باشندے خود کو دوسروں پر فوقیت دیتے تھے ۔یہ لوگ خودکو دنیا کی بہترین اور سب سے دلیر ،بہادر قوم سمجھتے تھااور دعوی کرتے تھے اور اس وقت کی تمام دیگر تہذیبوں سے آئے ہوئے لوگ ان رومیوں کے غلام یا پھر اس سے بدتر کسی حیثیت کے طور پر وہاں رہتے تھے۔اسی لئے رومی اپنے غرور اور تکبر ہی کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہیں ۔ان کے ہاں بھی قدیم یونان کی طرح مذہبی تہوار منائے جاتے تھے مگر انکا طریقہ کار مختلف ہوتا تھا طریقہ کار تبدیل کرنے کا مقصد دوسروں کو یہ دکھانا ہوتا تھا کہ رومی کسی اور کو نقل نہیں کرتے بلکہ انکی اپنی رسوم و روایات ہیں جو سب سے مختلف اور منفرد ہیں۔انکے زوال کے اسباب میں ایک یہ بھی تھا کہ انکے ہاں آمریت نے جنم لیا اور عام عوام نے سیاست پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے انکی فوجیں قتدار پر قابض ہوئی یہی انکی سرحدی کمزوری کا بھی سبب بنی۔امیر اور غریب طبقات میں بہت زیادہ فاصلے بڑھ رہے تھے جس نے انکی جڑیں کھوکھلی کردی۔رومیوں کے زوال کو موضوع بحث جب بنایا جائے تو اس بات کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی کہ اس وقت رومیوں میں تقسیم پیدا ہوئی تھی ،انکے ہاں بھی مشرقی اور مغربی روم الگ الگ ہوکر دو نئی سلطنتیں بن گئی جس کی وجہ سے مظبوط ترین قوت کم ہوکر آدھی رہ گئی اور بعد میں یہی اسکی زوال کی داستان بن گئی۔یہ لوگ جنگجو تھے اسی لئے اس وقت جنگیں بھی بہت ہوا کرتی تھی ،چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو للکارنا اور حیلے بہانوں سے انکو تنگ کرکے جنگ کیلئے اکسانا جیسے انکا مشغلہ بن گیا تھا مگر اس جنگی جنون نے پھر رومیوں کو صفحہ ہستی سے مٹاکر دم لیا۔
عیسائیت کے پرانے زمانے والے پادریوں نے اپنے مذہبی عقائد ، بائبل کے نظریاتاور دیگر ہر طرح کی رسوم و روایات یونانی فلسفہ و سائنس سے اخذ کردہ بناکر یہ بتانے کی کوشش کی کہ گویا عیسائیت کی تمام تبلیغ و نظریات کی تعلیمات یونان سے چلی آرہی ہے اور ہمیں انہیں کے نظریات و عقائد پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔اورساتھ ہی انہوں نے یہ تنبیہ بھی کرڈالی کہ جوکوئی بھی انکے پیش کردہ دلائل و نظریات سے منہ موڑنے کی یا اس سے انحراف کی کوشش کرے گا وہ گویا تباہ و برباد ہوجائے گا۔اب ہوا یوں کہ انہی عیسائیوں میں سے ایک گروپ نے علمی تحقیق کا آغاز کردیا اور سائنس و فلسفہ پر نئی تحقیقاات کرنے کی کوششیں کیں تو انہیں انکے متکلمین کے بتائے ہوئے نظریاتو عقائد میں نہ صرف خامیاں بلکہ وہ بالکل اس دور کیلئے ناقابل قبول ایک نظام بن گیا تھا ۔یہاں سے اس گروپ کے شرکاء کے اذہان میں شکوک و شبہات شروع ہوئے اور ساتھ ساتھ مذہب سے ان کو چڑھ بھی محسوس ہونے لگی جسکا نتیجہ آخر میں یہی ہوا کہ مذہب و سائنس یعنی متکلمین کے بنائے ہوئے یونانی دور کے عقائد و نظریات اور علمی تحقیق پر کام کرنے والوں میں تصادم نے جنم لیا ۔اس تصادم کی وجہ سے جدید علمی گروہ میں مذہب سے بیزاری اور اس سے نفرت کرنے پر آمادہ کیا۔
اب یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عیسائیت ایک الہامی مذہب ہے حضرت عیسی ؑ پر بائبل نازل ہوئی اور وہاں سے عیسائیت کا آغاز ہوا ۔ عیسائیت کی اصل جو سورت تھی وہ تو اسلام کی طرح ایک خدا کو ماننے والا اور اسکا کسی کو شریک نہ ٹھہرانے والانظریہ تھا اسکے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی وحی کے ذریعے اللہ تعالی نے عیسی ؑ تک پہنچائی اور عیسی ؑ نے اپنی قوم یعنی عیسائیوں تک پہنچادی تھی۔اب عیسی ؑ کے بعد عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں نے اس اصل صورت کو یونانی فلسفے اور نظریات میں تبدیل کردی جو ایک پرانی اور ناقابل عمل نظریات تھے ۔جن کا اطلاق اس وقت ممکن نہیں تھا۔اس لئے عام لوگ بھی دھیرے دھیرے مذہب کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور انہوں نے مذہب کو اپنے تمام معاملات سے بے دخل کردیا۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ مذہب اور جدید علمی تحقیقی نظریات اور جدید انسانوں میں دوریاں بڑھتی رہی مگر کسی نے بھی مذہب کے جو حقیقی اور فطری صورت تھی اس پر تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ مذہب کو اور بدنام کرنے اور اس سے لوگوں کو مزید دورکرنے کیلئے ہیگل،ڈارون اور مارکس جیسے دانشور دنیاکے نقشے پر نمودار ہوئے اور رہی سہی کثر انہوں نے پوری کردی۔
دراصل یہاں بات سمجھنے کی یہ ہے کہ عیسائیت خود ایک الہامی مذہب ہے اور اس میں بھی ایک اللہ کا تصور ،الہامی کتابوں پر ،قیامت پر ان جیسے نظریات و عقائد پر ایمان لانا اور ان کا حق سچ ہونے کا اقرار کرنا ہی عیسائیت کی تعلیمات تھیں ۔مگر اہل کلیسا نے یونانی دور کے عقائد و نظریات کو عیسائیت کی اصل صورت کو مسخ کرکے ان کی جگہ رکھ کر ڈھنڈورا پیٹا کہ یہی عیسائیت ہے ۔اس سب کے بعد آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ آج کا ایک عیسائی جو اپنی تاریخ کا ارتقا ء یونان سے جوڑتا ہے کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط ؟ یونانی دور 2000 ء قبل مسیح کا تھا جبکہ عیسائیت کا آغاز تو حضرت عیسی ؑ پر نبوت سے ہوا۔
قارئین کو یہی سمجھانا مقصود ہے کہ جس طرح عیسائیوں نے اپنا تعلق یونان سے جوڑ کر خود ہی اپنے مذہب کو ہی مشکوک بنا کر دنیاکے سامنے لایا اور اپنی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کے مرتکب ٹھہرے ،جس سے نہ صرف دیگر مذاہب کے لوگ ان کے حوالے سے شک میں مبتلا ہوئے بلکہ انکی بھی نئی نسل اسی طرح کے وسوسے سے دوچار ہے کیونکہ یہاں فطرت کے مقابلے میں کوئی نئی چیز لانے کی کوشش میں اپنی اصل حقیقت سے بھی ہاتھ دھوبیٹھنے کے مترادف عیسائیوں نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے ۔اسلئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آج کی مغربی تہذیب خود ایک مشکوک اور متنازعہ تہذیب ہے جس کی حقیقت خود انہی کو نہیں معلوم کیونکہ آج کا گورا خود کو یونان سے ہی جوڑتا ہے کیونکہ یونان ہی سے بڑے بڑے علمی دانشور اور لٹریچر کا آغاز ہوا تھا اور اسی پر گورا فخر محسوس کر رہا ہوتا ہے جس کا اسکو کوئی حق نہیں بلکہ ان گوروں کیلئے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مغربی تہذیب مشکوک اور ایک الجھی ہوئی سوسائٹی ہے تو پھر پوری دنیا میں آج یہی گورے حکومت کیوں کر رہے ؟ کیوں یہی گورے تعمیر و ترقی میں سب سے آگے ہیں ؟
اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ دنیا میں عروج و زوال کے حوالے سے اللہ تعالی کا قانون بقول مولانا مودودیؒ کسی قوم کی صلاحیت کی بنیا د پر منحصر ہے جو قوم سب سے زیادہ باصلاحیت اور دنیا پر حکومت کرنے کے قابل ہوگی اللہ تعالی اسی کو دنیا میں حکومت کا حقدار ٹھہرائے گا ۔اللہ تعالی کے اس اصول کو دیکھاجائے تو یقینا گورے عروج کے حقدار ہیں ۔مگر تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیا جائے تو انگریزوں کے عروج کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک وقت کے ساتھ چلنا ہے ۔گوروں نے وقت کے ساتھ آنے والی ہر فطری تبدیلی کیلئے خو دکو نہ صرف پہلے سے تیار کیا ہوتا ہے بلکہ وہ اس تبدیلی کو اپنے کام کیلئے استعمال کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔یہاں ہم تھوڑا سا پیچھے جاکر دیکھتے ہیں کہ آخر انہوں نے کب اور کہاں سے یہ ہنر سیکھ لیا ہے ۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب یورپ میں تمام سلطنتیں ایک پوپ کے حکم پر گرتی اور چلتی تھیں ۔وہاں لندن کی ایک بادشاہ نے پوپ سے بغاوت کر کے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی ،۔ اس سے پہلے یورپ کی تقریبا 200 سلطنتیں ویٹی کن سٹی کے اس پوپ کے زیر سایہ چلتی تھی ،اس سے زندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت وہاں مذہب کو بہت بڑی حیثیت حاصل تھی مگر اس ایک بادشاہ کی بغاوت کے بعد مذہب سے دشمنی شروع ہوگئی اور طرح طرح کے نظریات نے جنم لینا شروع کیا ان نظریات میں سیکولرزم یعنی لادینیت ،کمیونزم یعنی اشتراکیت جس کا جدید نام سوشلزم اور کئی دیگر نظریات نے اس الجھی ہوئے معاشرے میں لوگون کو اخلاقیات،رشتوں کی قدر اور ایسے کئی دیگر چیزوں سے نکال کر صرف مادہ پرست یا وحشی قوم بنادیا پھر جب ان نظریات سے لوگوں نے اکتاہٹ محسوس کی تو ایک نئی تحریک’’ حقوق نسواں‘‘نے جنم لیا جو آج کل عروج پر ہے۔
اس کے پس پردہ حقائق تو یہاں بتانا مشکل ہے مگر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ سالوں تک یہ تحریک چلے گی پھر اچانک سے کوئی اور آواز بلند ہوگی ۔اس سب کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج تک جتنے بھی نئے نظریات اور تحریکیں جو مغرب کی طرف سے آئی انہوں نے سیدھے اسلام کو اپنا نشانہ بنایا اور نام بدل بدل کر اسلام پر پے درپے ایسے وار کئے کہ ایک سیدھے سادھے مسلمان کو الجھن میں مبتلاکردیا کہ واقعی اسلام ایک ظالم دین ہے ،اسلام کے ماننے والوں کو طرح طرح کی قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑرہی ہیں ،پھر یہ خیالات دلوں میں وسوسے پیداکردیتے ہیں کہ اللہ تعالی زمین میں اپنے بندوں پر ظلم و ستم ہوتے دیکھ کر چپ کیوں بیٹھا ہے ؟ کیوں وہ مدد کیلئے نہیں آتا اور کیوں دنیا کے ظلم و جبر میں ہمیں اکیلا چھوڑکر تماشا دیکھ رہا ہے ؟ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے یہ دنیا سبھی کیلئے امتحانی ہال کی طرح بنائی ہے اب یہاں جو جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا وہ کامیاب اور اسکے مقابلے میں دوسرے عقائد و نظریات کی پیروی کرنے والا نامراد و ناکام ہوجائے گا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب نے شروع سے اب تک جتنے نظریات اور نئے فلسفے ایجاد کئے وہ سب دراصل اسلام کے مقابلے میں تھے وہ سارے نظریات و فلسفے انسانوں کو بہت زیادہ متاثر کردینے والے ہواکرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر ان سے مرغوب ہوکراپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان نظریات و فلسفوں کی ایجاد کی ہی اسلئے کی جاتی ہے کہ لوگ اسلام سے دور ہوکر ان نظریات کو اپنا لیں اور خدائی نظام کو چیلنج کریں، یہی نہیں مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب ہو یابعید یہ لوگ طرح طرح کے نئے نظریات و فلسفوں کی ایجاد کرتے ہوئے انسانوں کو اسلام سے بغاوت کیلئے اکسانے کی کوشش کریں گے۔
تبصرہ لکھیے