ہوم << ذرا دیکھئے وہ مجھے گھور رہے ہیں : محمد طیب زاہر

ذرا دیکھئے وہ مجھے گھور رہے ہیں : محمد طیب زاہر

بچپن سے ہی الزام تراشی کی سیاست دیکھ دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں ۔جب کسی پر الزام عائد ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی وضاحت کرے ڈھٹائی کے ساتھ الزام لگانے والے کے خلاف اُلٹا الزامات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال ہم شاہد آفریدی اور جاوید میاں داد میں ہونے والی تکرار سے لی جاسکتی ہے۔دونوں کا میڈیا پر سرعام آکر ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنا چھوٹے پن کی علامت ہے۔اگرچہ دونوں میں بعد ازاں (صلح صفائی) بھی ہوگئی۔مگر ان کی اس ذاتی جنگ نے بہت سے سوالات کھڑے کردئیے ہیں ۔آفریدی کہتے ہیں کہ جاوید میاں داد کو ہمیشہ سے پیسے کا ہی مسئلہ رہا ہے گو کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں داد پیسے کے پوجاری ہیں اور جہاں ان کو زیادہ فائدہ نظر آتا ہے وہ وہاں کا رخ کرلیتے ہیں ۔تو دوسری جانب اتنا بڑا سینئیر کھلاڑی اپنی زبان سے بغیر سوچے سمجھے اتنی بڑی بات کہہ دیتا ہے جو بعد میں متنازع بھی ہوسکتی ہے اور بنی بھی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آفریدی میچ فکسکنگ میں واقعی ملوث تھے ؟جاوید میاداد کو سب پتہ تھا تو وہ اتنی دیر خاموش کیوں رہے ؟
ان کی یہ خاموشی مجرمانہ ہونے کا اعتراف کرتی ہے کہ وہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے اور آنکھیں بھی بند کرلیں۔ اس سارے معاملے میں آفریدی اور جاوید میاں داد کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔چائیے تو یہ تھا کہ آفریدی اگر بالکل سچے تھے تو وہ ان پر ہتک عزت کا دعوی کردیتے ۔تاکہ کچھ یقین. کی کیفیت پیدا ہوجاتی کہ آفریدی اپنے لئے سچ میں لڑ رہے ہیں ۔اب ایک دم سے صلح ک بھی ہوجانا یہ تاثر ضرور دیتا ہے کہ کچھ تو ایسی بات تھی جس کو دبا دیا گیا۔بلیم گیم کا یہ سلسلہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں رچ بس گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے غلطیوں پر پردے پر پردہ ڈلتا چلا گیا ۔اور آج اسی سبب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں ۔ترقی تو تب ہی کی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنی غلطیوں کو سامنے رکھ کر ان کو ختم کرنے کی کوشش شروع کردیں ۔
مشاہد حسین کی ایک بات سو فیصد درست ہے جو انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی تھی کہ غلطیاں ضرور کریں لیکن پرانی کو نہ دہرائیں ۔
سیاست کے اس اوچھے داؤ پیچ میں ہر کوئی دوسرے کا حساب کتاب اپنی جیبوں میں لے کر گھوم رہا ہے ۔جیسے ہی مزاج سے ہٹ کر بات ہوئی پٹاری میں سے فوری طور پر سانپ نکال لیا گیا۔اس کی ایک اور مثال کچھ یوں ہے اور اس کا آغاز عمران خان کے اس (یقینی خدشے) سے دیا جاسکتا ہے ۔خان صاحب کا ایسا کہنا کیوں درست لگتا ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز اندر سے ایک ہی ہیں ۔اس کا جواب بھی خود حکومتی جماعت نے دے دیا ہے ۔ایسا اس لئے ہے کہ جب 2013 کے انتخابی مہم میں وزیر اعلیٰ پنجاب چیخ چیخ کر یہ کہتے تھے کہ اقتدار میں آکر علی بابا چالیس چور کا حساب کریں گے ۔زرداری کو سڑک پر گھسیٹیں گے ۔یہی نہیں نواز شریف نے اپنے پچھلے دونوں دورِ حکومت میں اپنی تقریروں اپنے جلسوں میں محترمہ بینظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کے وعدے اور دعوے بھی کرتے رہے ۔لیکن وہ یہ سب کس منہ سے کہتے رہے ؟یہ حیران کن بات ہے ۔
ایک بات تو طے شدہ ہے کہ کرپشن اس قدر عام ہوچکی ہے کہ جب تک ملک کے چور لٹیرے کرپشن نہ کرلیں ان کو بد ہضمی ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔حکومتی جماعت ماضی میں اپنی مخالف جماعت کا احتساب کرنے کی بات کرتی تھی لیکن جیسے ہی اقتدار ملا تو علی بابا چالیس چور کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی بجائے عزت کے ساتھ دبئی بھیج دیا گیا۔ اور لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کی بجائے مزید ملک کو لوٹا گیا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔
حکوت کی خاموشی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خود ان کا دامن داغدار ہے ۔اس کا ثبوت پاناما بیپرز کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔اگر ان کا دامن صاف ہوتا تو آج علی بابا دبئی میں ہونے کی بجائے جیل میں ہوتا اور چالیس چور سندھ کابینہ میں ہونے کی بجائے جیل میں اپنے بے حساب جرموں کا تخمینہ لگا رہے ہوتے ۔اور جب صحیح معنوں میں کوئی ایک انسان ان کی کرپشن کے خلاف آواز اُٹھانے لگا تو بجائے جواب دینے کے اس پر کیچڑ اُچالنا شروع کردیا گیا کہ خان صاحب بتائیں کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا یہ ہوتی ہے ڈھٹائی کی انتہا۔اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ہمیشہ کی طرح اپنے روایتی انداز میں اعتزاز احسن نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔کیونکہ انہی دنوں میں ان پر ایل پی جی کا غیر قانونی طور پر کوٹہ لینے کا الزام لگایا گیا ۔اور یہ الزام لگانے والے چودہری نثار تھے ۔انہوں نے وزیر داخلہ کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر چودہری نثارمسلسل ان کو غصے سے دیکھے چلے جا رہے تھے ۔
ایسے میں اعتزاز احسن نے ایوان سے مخاطب ہوکر کہا( ذرا دیکھئے یہ مجھے کیسے گھور رہے ہیں)اور مسلسل گھور رہے ہیں ان میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں ہے میں یہاں بول پڑا تو مصیبت ہوجائے گی ۔ادھر چودہری نثار نے بھی ہو بہو ایسے ہی کلمات کا استعمال کیا ۔غرضیکہ چودہری نثار سے لے کر اعتزاز احسن ،میاں صاحب سے لے کر زرداری تک اور جاوید میاں داد سے لے کر آفریدی تک سب کو ایک دوسرے کے راز معلوم ہیں اور انہیں آُسی صورت میں منظر عام پر لایا جائے گا جب اُنہیں جوابی وار کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔اعتزاز احسن کو اس بات کی تو فکر تھی کہ نثار صاحب ان کو گھور رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ عوام بھی ان سب کو گھور رہی ہے ۔اورفکر نہ ہونے کی وجہ عوام کو بیوہ قوف سمجھنا ہے ۔اور بدقسمتی سے عوام نے بھی ایسے ثبوت دئیے ہیں جس پر وہ ایسا سوچتے ہیں ۔ہم اللہ کے گھر یہ امید ہی کرسکتے ہیں کہ قوم قابل فہم بن جائے اور بہت جلد ایسا ہونے کو ہے۔

Comments

Click here to post a comment