ہوم << مسلمانوں کی پستی - راشد حمزہ

مسلمانوں کی پستی - راشد حمزہ

بدقسمتی سے اسلامی سال کا آغاز شدید فرقہ بازی اور گہرے تعصب سے ہوتا ہے جو امت مسلمہ کے لیے سال کا پہلا تلخ تجربہ ہوتا ہے، مضبوط عمارت مضبوط بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے، بنیادیں مضبوط نہ ہو تو عمارت کسی بھی وقت ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہے، اس کا ذمہ دار کوئی غیر مرئی ہاتھ تو نہیں ہوتا خواہ ہمیں کیوں نہ ایسا یقین ہو.
ماضی کو چھوڑیے کہ مسلمانوں کا ماضی بھی مثالی نہیں رہا ہے، حال کو دیکھیے تو وہ بھی ماضی سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا، ہاں اتنا مختلف ضرور ہے کہ جب مغربی دنیا بہت آگے جا چکی ہے، ترقی کی شاہراہ پر ان کے سفر کی رفتار بےحد تیز ہوچکی ہے تو ایسے میں مسلمان پستی اور زوال کی طرف اتنی ہی تیزی سے رو بہ سفر ہیں، حال ماضی کی باقی رہی نشانات اور علامتیں کہلاتی ہیں، زمانہ حال کے لیے زمانہ ماضی دور جہالت ہوتا ہے، موجودہ مقام پر ہم جس خستہ حالت میں کھڑے ہیں اس کا بنیادی سبب ہمارے گزرے ہوئے بڑوں کی جہالت تھی.
طوفان جس علاقے سے گزرنے کا ارادہ کرتا ہے وہاں پہلے اپنی خاموشی بھیج دیتا ہے، اصحاب بصارت و بصیرت پہلے سے ہی اس خاموشی کا راز پالیتے ہیں وہ اپنی قوم کو مقدور بھر سمجھانے اور آنیوالے طوفان کی تباہ کاریوں سے اگاہ رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن قوموں کی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ بہت افراد کے ہجوم میں بصیرت اور بصارت رکھنے والے سب نہیں ہوتے بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں وہ بھی آپس میں مخلتف الرائے، اس لئے طوفان جب آتا ہے تو ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ اڑا کر لے جاتا ہے جو طوفان کی روح خاموشی کے اسرار سے واقف ہوتے ہیں.
یہی کچھ ھم امت مسلمہ کے ساتھ بھی ہوتا آیا ہے، ہمارا ہر موجودہ دور گزشتہ دور کی خاموشی کے بعد کا طوفان سہتا ہے اور آنیوالے دور پر انیولے طوفان کی خاموشی پر خاموش رہتا ہے، آنیوالے وقتوں میں مسلمانوں پر کیا بیتنے والا ہے اس کا اندازہ موجودہ وقت سے لگانا مشکل نہیں، ہر دور میں درد دل رکھنے والے مصلحین تو ہوتے ہیں لیکن انکی تعداد ہمیشہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے، یہی مصلحین معاشرے کو سیدھے راہ پر لانے فرد کو انکی زمہ داریاں سمجھا کر ادا کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ساتھ ہی آنے والے وقتوں کے بارے میں خبردار بھی کرتے جاتے ہیں، لیکن مسلمان فرد ہمیشہ ذہنی طور پر مطمئن رہتا ہے کہ امام مہدی آئیں گے یا آسمان سے عیسی اتریں گے تو حالات معجزاتی طور پر یکسر تبدیل ہوجائیں گے، گزشتہ ادوار میں بھی مسلمان فرد نے امام مہدی کی امید میں اپنی بیکارگی میں بھی تسکین پائی ہے جس سے مجموعی طور پر افراد کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے.
موجودہ دور بھی گزشتہ سے مخلتف نہیں ہے مسلمان ہر جگہ شکست خوردہ اور مایوس بیٹھا ہے، ہمارا معاشرہ اخلاقی سماجی اور معاشی طور پر مکمل تباہ حال ہے، ہر جگہ مسلمان آپس میں گتھم گتھا ہے، ایک امت مسلمہ کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں رہا، تمام امیدیں معدوم ہوچکی ہیں سوائے ایک کی کہ ہمارے زخموں کا مداوا کرنے کوئی مسیحا آئیگا جو امت مسلمہ کو لپیٹ میں لئے ہوئے خزاں کی ویرانیوں کو بہار کی آبادیوں میں تبدیل کردے گا اور ہماری یہی امید، فرد کی بیکارگی کا بنیادی سبب اور افراد کی تباہی کا اولین باعث ثابت ہوا ہے اور ثابت ہوکر رہے گا، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت کا ہر فرد خود کو وہی مسیحا سمجھ کر امت کے زخموں کا مدوا کردے....

Comments

Click here to post a comment