ہوم << مانو یا نہ مانو - فرح رضوان

مانو یا نہ مانو - فرح رضوان

کیا آپ کو بچپن میں سنی ہوئی کہانی خواجہ سگ پرست یاد ہے، وہی جس میں ایک امیر آدمی اپنے بھائیوں کے گھٹیا کردار سے دلبرداشتہ ہو کر ان کو پنجرے میں رکھ کر ان سے کتوں جیسا سلوک کرتا، اور اپنے کتے کی وفاداری کے عوض اس کتےسے ”بھائی چار“ اور احترام سے پیش آتا. شکر ہے کہ ہمارے مذہب میں کتے پالنے کی اجازت نہیں ورنہ آج اکثر گھروں کی کہانی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی.
کیا آپ نے سوشل میڈیا پر کسی جانور کی کچرے میں خوراک ڈھونڈھتی تصویر یا اس پر افسوس کرتے کمنٹس دیکھے ہیں؟
یا جھونپڑی میں رہتے دھوپ میں جلتے دل لگا کر پڑھتے ہوئے کتے بلی کی تصویر؟ کسی جانور کی گندا پانی پیتے، لائن میں لگ کر راشن کے انتظار میں سلگتے کوئی ایک تصویر یا اس پر ڈاکومینٹری؟
پیٹس یا پالتو جانور گھر میں رکھنے کی عادت کو عموما ہم بس ایک شوق یا مشغلہ سمجھتے ہیں، جبکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی نفسیات چھپی ہوتی ہے، کسی سے بے لوث چاہے جانے کی، مصروف زندگی میں تنہائی کے ناسمجھ میں آنے والے خلا کو پر کرنے کی، کسی کمزور نادار کی مدد کرنے بھوکے کو کھانا کھلانے اور جی بھر کرمحبت لٹانے کی.
بہت سے مسلمان اپنے شوق پر پتھر رکھ کر کتے تو نہیں پالتے لیکن اسی شوق کی تسکین، ہماری کسی بھی ملک میں رہنے والی اکثریت مانو بلّی سے پوری کرتی ہے، جس کا مول کم سے کم 200 ڈالر ماہانہ ہوتا ہے اور زیادہ کی تو کوئی حد مقرر نہیں.
عجیب سسٹم کے تحت یہ معصوم بلا ہمارے گھروں کا حصہ بن کر اٹوٹ رشتہ قائم کر لیتی ہے، کھاتے پیتے گھروں کے تو چونچلے ہمیشہ سے ہی نرالے رہے ہیں، رونا تو اس بات کا ہے کہ انتہائی متوسط گھر کے افراد بھی خواہ پاکستان میں ہوں یا بیرون وطن، اس ضمن میں حد درجہ اسراف کرتے ہیں اور اپنے طور پر اسے بہت بڑی نیکی سمجھتے ہیں. کوئی اس لیے بلی پالتا ہے کہ سنا ہوتا ہے کہ آنے والی بلائیں جانوروں پر پڑ جاتی ہیں. کچھ کا مسئلہ یہ کہ اس بہانے بچے بہلے رہیں اور گھر میں ہی رہیں. اس لالچ میں دن رات جاب کر کے ضروریات پوری کرنے والے والدین تک ان پیٹس کے ویکسین اور دوسرے لوازمات کو برداشت کرتے ہیں، لیکن! ہوتا یہی ہے کہ بڑے ہوتے بچے والدین کو پالتو جانوروں کی شکل میں تنہائی بانٹنے والا ایک کھلونا تھما کر خود غائب ہو جاتے ہیں اور اس عرصے میں ان جانوروں سے ان کو ایسی انسیت ہو چکی ہوتی ہے کہ پھر ان کی جدائی برداشت کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے. اور مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ مصائب گھر سے جاکے نہیں دیتے اور بچے گھر میں ٹک کے نہیں رہتے.
آپ مانو یا نہ مانو مجھے تو اپنے اس معاشرتی رویے اور قومی مسائل کا موازنہ کرتے ہوئے سورہ فجر کی یہ آیات کہ [اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا. ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے- اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے] بہت دل کو لگتی ہیں کہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھنے والے، جہاں بھوک، غربت اور جہالت کے ہاتھوں انسان، لٹ رہے ہیں، غربت و جہالت میں پس کر دوسروں کو لوٹ لینا اپنا حق سمجھ رہے ہیں، مر رہے ہیں مار رہے ہیں اور جہاں 200 ڈالر ماہانہ کا مطلب کئی ہزار پاکستانی روپے ہے، سوچیں تو سہی کہ اتنی بڑی رقم سے کیا کیا فلاحی کام ہونا ممکن ہیں، لیکن! نہیں ہو رہے.
فرض کریں کہ ہر روز ہمیں صدقے کی مد میں، اگر صرف ایک ڈالر خرچ کرنا ہے تو گھر کے پالتو جانور پر 80 سینٹ خرچ کر رہے ہیں اور اپنے مسلمان بھائی کو 20 سینٹ بھیک میں دے رہے ہیں. مانا کہ اس دنیا میں فراڈ بھی بہت ہوتا ہے لیکن، کتنے ہی بہترین کردار کے افراد، مستحق لوگوں کے روزگار، غریب بچوں کی تعلیم و تربیت اور صاف ستھری خوراک و مناسب علاج کے لیے کوشاں ہیں، لیکن ان کو اس طرح سے فنڈز میسر ہی نہیں، حالانکہ اس رقم سے ایسے افراد یا اداروں کو کتنا مضبوط کیا جا سکتا ہے.
اللہ نے جو اہم ذمہ داری ہمیں سونپی ہے اپنا پیغام غیر مسلموں تک پہنچانے کی، وہ کئی وجوہات کی بنا پر، فرد کی حثیت سے ہم کم ہی ادا کر پاتے ہیں، جبکہ اداروں اور تنظیموں کے توسط سے یہ کام بہتر طور پر انجام پارہا ہے، ان کاموں میں کم از کم مالی حصہ ڈال کر کسی حد تک یہ فرض ادا کیا جا سکتا ہے.
ذرا سوچیں تو سہی کہ اعلی نسل کے بلی، طوطے، کبوتر یا حسین ایکوریم میں فارغ ٹہلتی رنگین مچھلیاں وغیرہ بڑے ہو کر زندگی کے کس شعبے میں فلاح کے کیا کام کر سکتے ہیں؟ یہ تو انسان ہی ہے جس کی درست پرورش ہو تو وہ اشرف المخلوقات کی منزل پر پہنچ سکتا ہے.
اور پوری انسانیت کو چھوڑیں کیا کسی بھی طور پر صرف آپ کے دنیا سے جانے کے بعد کوئی بھی جانور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے؟
کیا آپ کے محنت سے سدھائے پالتو جانور، معاشرے کے کسی ایک گھر یا محلے کو سدھار سکتے ہیں؟ بھوکے کو کھلا سکتے ہیں؟ بیمار کی مسیحائی کر سکتے ہیں؟ یا ان پڑھ کو پڑھا سکتے ہیں؟
نہیں نا! تو پھر صرف اپنے شوق کو تسکین پہنچانے کے لیے مستحق انسانوں کو چھوڑکر اپنے مال، اپنی ہمدردی کی دولت، وقت کی نعمت، محنت، ہمت، صبر اور لگن سے کسی کی تربیت کرنے کی صلاحیت کو جانوروں پر وقف کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، اور جو عمل درست نہ ہو، کیا وہ بابرکت ہو سکتا ہے؟
اگر آپ کو اپنےچھوٹوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ بار بار آپ کی نافرمانی کر رہے ہیں، آپ کی بات کو سن کر مسلسل ان سنی کر رہے ہیں، ڈانٹ اور سزا کا کوئی خوف یا اثر نہیں لے رہے، لوگوں سے گلہ ہے کہ وہ نہ تو حق دیتے ہیں نہ ہی عزت، آپ کی محنت اور خلوص کی قدر نہیں کی جاتی، محبت، صحت، برکت اور ذہنی سکون، سب کے سب مٹھی سے پھسلتی ریت کے ذرات بن چکے ہیں، تو اب وقت آ چکا ہے کہ آپ اپنے ہی رویوں پر غور کریں کہ آپ کہاں کہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سالوں سے سنا ان سنا کرتے چلے آ رھے ہیں، ان احکامات کی کتنی عزت اور قدردانی آپ کر رہے ہیں، اللہ سے دعا کریں کہ ہماری کی غلطیاں ہم پر عیاں فرما دے، پھر ان تمام خطاؤں پر سچی توبہ کریں، اور اس کرامت کی گواہی دینے کے لیے تیار ہو جائیں کہ ادھر ہم نے اپنا قبلہ درست کیا اور ادھر ان شاء اللہ زندگی کا ہر شعبہ درست سمت میں کام کرنا شروع ہو گیا.