ہوم << سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

abdul-wadood-qurashi-312x360
اقتدار کے ایوانوں میں حادثاتی طور پر داخل ہونے والوں کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ موقع ملتے ہی چغلی کھائیں سقراط کو جب اس کے شاگرد نے یہ بتانا چاہا کہ وہ بازار سے یہ باتیں سن کر آیا ہے کہ اس کا نوکر اس کے خلاف گفتگو کرتا ہے تو شاگرد نے سقراط کو کہا کہ میں آپ کے نوکر کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو سقراط نے اسے روک دیا اور کہا کہ جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں وہ تین شرائط پر پوری اترتی ہے تو مجھے بتاﺅ ورنہ نہ بتانا، ”اول “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ سو فیصد درست اور سچ ہے جس کے تم براہ راست عینی شاہد اور سامع ہو ”دوم “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ اچھی ہے اور ”تیسری بات “کہ وہ نہ تو چغلی ہے اور نہ ہی میرے فائدے اور کسی کے نقصان میں ہے۔ شاگرد نے کہا یہ بات میں نے خود نہیں سنی اور سچی ہونے کا نہ میں گواہ نہ عینی شاہد ہوں دوم یہ بات اچھی بھی نہیں ہے اور تیسری بات یہ کہ یہ آپ کے فائدے کی بات نہیں اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر سقراط نے کہا مجھے وہ بات مت بتاﺅ جو ان شرائط پر پوری نہیں اترتی اور خود بھی اسی پر عمل کرنا۔
اگر ہمارے حکمران سقراط کے اس فارمولے پر عمل کریں یا اگر مجبور ہوں تو آنے والی بات کو ان شرائط پر پرکھ لیں تو ان کی ذات کے علاوہ قوم کا بھی بھلا ہو گا۔ ہمارا ایک دوست اس طرح کی بات ایک چینل پر کر کے وزارت کا قلمدان کھو بیٹھا یہ الگ بات کہ وزیراعظم نے اس سے وزیر والی مراعات واپس نہیں لیں، حال ہی میں ایک اخبار نے اس طرح کی خبر شائع کرائی جیسے گلی محلے کے بچے بنٹے کھیلتے لڑ پڑے اور قریب تھلے پر بیٹھے شخص نے جو عمر رسیدہ اور معتبر ہے نے یہ بات اسے بتا دی اور اس نے تمام جملے شائع کر دیئے، حکمران جماعت میں حادثاتی طور پر آنے والے لوگ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے بڑی سے بڑی چغلی کھانے کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس سے نہ تو سٹیبلشمنٹ کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو مگر اس کے برے اثرات قوم پر مرتب ہوتے ہیں اور نچلی سطح پر دونوں اطراف مورال کم ہوتا ہے اور دشمن خوش ہوتا ہے اس کا مورال بڑھتا ہے کہ فوج اور حکومت میں تناﺅ بڑھ رہا ہے، سیاسی ورکر سوچتا ہے کہ نہ جانے کب حکمرانوں کی شامت آ جائے اور سیاست دانوں کے بیانات قوم کے تقسیم ہونے کا تاثر دیتے ہیں، دانشمند حکمران اپنے ہاں ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونے دیتے اور اس طرح کے تاثر کو دو قدم آگے بڑھ کر مسترد کر کے قیادت اپنے ہاتھ لے لیتے ہیں۔ بیورو کریسی بھی اپنا کام کرنے کی بجائے اپنا ملبہ دوسروں پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ناکام نہیں ہوئے جس ملک میں جاتے ہیں ہم سے یہ یہ سوال پوچھے جاتے ہیں ہمارا وفد فرانس گیا تو یہ سوال پوچھے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض عیاشی کی خاطر باہر گئے انہوں نے اپنا کام مکمل نہیںکیا ،اپنی بیورو کریسی سے ایک سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ ملک سے حافظ سعید ”ایٹمی پروگرام“، ”حقانی نیٹ ورک “اور دو قومی نظریہ کو ختم کر دیا جائے تو بھارت کشمیر کو آزاد کر دے گا اور فرانس ، امریکہ، برطانیہ، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مندرجہ بالا عوامل فلسطین میں بھی ہیں؟، لیبیا میں بھی تھے؟ ، عراق میں بھی تھے؟، کوریا میں بھی ہیں ؟، دفتر خارجہ کے لوگ یہ کیوں فرض کر لیتے ہیں کہ وہ امریکی، یورپی اور برطانوی سفارت کار ہیں، گو یہ مراعات ان سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ دنوں دی جانے والی تمام تر بریفنگ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فلاں ملک یہ کہتا، فلاں ملک یہ کہتا ہے وہ اس لیے کہتے ہیں کہ بھارت کے دفتر خارجہ نے وہاں کام کیا ہے آپ نے اپنے بچوں کو گلوکاری سکھا کر عدنان سمیع بنایا جس نے بھارت کی شہریت لے لی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی امور خزانہ میں ہمار ے رپورٹر علی شیر موجود تھے نے مجھے بتایا کہ اویس لغاری کی صدارت میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل نے سیکرٹری خارجہ سے سوال کیا کہ میں 25 سال سے سیاست کر رہا ہوں حافظ سعید کو نہیں جانتا مگر دنیا جانتی ہے وہ کونسے انڈے دیتا ہے اور پھر بھارت میں نہیں پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی میں یہ بات کی گئی کہ حکومت ان تمام وجوہات کا خاتمہ کرے جن کی وجہ سے بھارت مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ہمارا کیس خراب کرتا ہے گویا ملک سے فوج ختم کر دی جائے، ایٹمی پروگرام ختم کر دیا جائے ، میزائل پروگرام ختم کر دیا جائے، دو قومی نظریہ ختم کر دیا جائے، کشمیر کی بات کرنے والے افراد کو مار دیا جائے ، گائے کی قربانی بند کر دی جائے
کیا اس کے بعد یہ پارلیمانی سیکرٹری گارنٹی دے سکتے ہیں کہ بھارتی ان کے خاندان پر گائے کا پیشاب پینے کی شرط نہیں لگائیں گے، اجتماعی طور پر جرنیلوں کے خلاف ایک وزیر کا بیان سوشل میڈیا پر کس نے چڑھایا اور وزیراعظم ہاﺅس سے پی ٹی وی کی کرنٹ افیئرکی ریکارڈنگ کس نے لیک کی۔ انگریزی اخبار میں صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر کس نے لیک کی یا یہ مکمل جھوٹ تھی تو اس رپورٹر کا ایکری ڈیشن کیوں منسوخ نہیں کیا گیا، روزانہ دس سے پندرہ عدد نوٹس مجھے روزانہ وصول ہوتے ہیں جن میں کسی بیوہ کی سچی اپیل چھاپنے ، کسی غریب سے زیادتی کا ذکر ہوتا ہے مگر نوٹس سورج کی پہلی کرن کے ساتھ میری میز پر ہوتا ہے اس حوالے سے کیا کیا گیا یہی کہ اس اخبار کے اشتہارات کو بہتر کر دیا گیا اور اس کے ٹی وی کو بھی نوازا گیا یہ ساری واردات حکمرانوں کے خلاف نچلے طبقے کے لوگ ڈال رہے ہیں جو لوگ عمران خان کا سیاسی سطح پر مقابلہ نہیں کرنا چاہتے اور کر بھی نہیں سکے وہ قبل از وقت یہ ملبہ بنا کر کسی اور پر ڈالنا چاہتے ہیں اگر کوئی ملک میں حکومت کو ختم کرنا چاہے تو ان کے راستے میں کون سی بڑی دیوار حائل ہے یا کونسا گیٹ ان کی دسترس سے باہر ہے ، اصل بات اس سازش تک پہنچنے کی ہے جو کسی اور کو فائدہ پہنچانے اور ملک کے دشمنوں کو ناداستہ تقویت پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے بہانے تراشنے کے لیے تیار کی جا رہی ہے جو ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہے، کبھی حکومت اور فوج میں اختلاف اور کبھی سی پیک کے خلاف نعرے کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔