ہوم << کربلا کی کہانی بس اتنی سی ہے - جاویدالرحمن قریشی

کربلا کی کہانی بس اتنی سی ہے - جاویدالرحمن قریشی

جاوید قریشی مدینہ منورہ سے کربلا کا سفر تیرہ سو پچانوے کلومیٹر بنتا ہے۔یہ سفر سیر سپاٹے، تجارت، تفریح وغیرہ کا نہیں تھا بلکہ یہ سفر تو شجاعت، استقامت، ہدایت اور شہادت کا تھا۔اس کے مسافر کسی طاقت، حکومت، رعایت یا دولت کی خاطر نہیں بلکہ شریعت اور سنت کی حفاظت کے لیے نکلے تھے۔ تیرہ سو ستتر برس سے یعنی اکسٹھ ہجری سے یہ سفر مسلسل سفر میں ہے اور قیامت تک رہے گا۔اس سفر کے مسافر بھی وقت کے ساتھ ساتھ سفر میں ہیں، سفر میں بھی ہیں اور منزل پر بھی پہنچ چکے۔ نہ صرف منزل پر پہنچ چکے، بلکہ اوروں کو منزل کا سراغ اور نشان بھی بتاتے اور دکھاتے ہیں۔ جو بھی اس سفر کو مقصد جان کر چنتا ہے، وہ بھی عظیم ہو جاتا ہے۔ اس مسلسل سفر کی منزل، جنت ہے اور اس کا اختتام قیامت کے دن ہونا ہے۔ اور یہ اتنا عظیم اور عجیب سفر ہے کہ اس میں آدمی تھوڑی سی حرکت کر کے بھی بہت سا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ لیکن ایسا آدمی کوئی کہاں سے لائے جو صدیوں کا سفر کرنا چاہے؟
صدیوں کا سفر تو دور کی بات، آج تو کوئی سیکنڈ اور پل کا سفر بھی نہیں کرنا چاہتا۔ لوگ اتنے آرام طلب ہو گئے کہ بستر پر لیٹ کر ہر چیز کی خواہش کرتے ہیں؟ لوگ تقریروں، تصویروں، بیانات، نعروں، پوسٹرز، بینرز، کتابوں وغیرہ کے ذریعے گھر بیٹھے صدیوں کے مسافر بننا چاہتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ لوگ مختلف مواقع پر پورے مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام اور غم و اندوہ والے اخباری بیانات شایع کروا کر صدیوں اور زمانوں کے مسافر بننا چاہتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ لوگ رنگ لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ لوگ صرف گفتار کے غازی بن کر کردار کے غازی کا تمغہ لینا چاہتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ نہیں بھائی، یہ سب ناممکن ہے! ہاں تیرہ سو ستتر برس پہلے ’بہتر‘ نے تیرہ سو پچانوے کلومیٹر کا سفر کر کے اسے ممکن بنایا تھا، تو کوئی ہے جو یہ کام کرنا چاہے!
یہ صدیوں بلکہ زمانوں کے مسافر حضرت حسینؓ اور ان کے اہلِ بیت تھے، احباب تھے۔ وہ گھر سے نکلے تھے، حال آں کہ انہیں گھر میں بہت آرام حاصل تھا۔ وہ چاہتے تو بادشاہوں جیسی بلکہ ان سے بہتر زندگی گذار سکتے تھے۔ وہ چاہتے تو مال و دولت کے ڈھیر ان کے آگے ڈھیر کیے جا سکتے تھے۔ وہ چاہتے تو دنیا کی ہر نعمت انہیں مل سکتی تھی۔ انہیں کیا پڑی تھی کہ اس زمانے میں تیرہ سو پچانوے کلومیٹر کا مشقت بھرا سفر اختیار کیا؟ انہوں نے کیوں آرام، دولت، نعمتوں پر مصائب اور تکالیف کو ترجیح دی؟ انہوں نے کیوں حکومت وقت کے ساتھ ٹکر لی؟ انہوں نے کیوں گھر سے دور، ویرانوں میں اور اپنوں کے روپ میں بیگانوں کے سامنے جا کر جان قربان کر دی؟ کیا کوئی اس پر بات کرنا چاہے گا، کوئی اس حوالے سے سوچنا چاہے گا؟
اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ تیرہ سو ستتر برس پہلے کے وہ ’بہتر‘ عظیم ترین مسافر تھے۔ ان کا سفر بھی عظیم ترین تھا، اور ان کی منزل بھی ویسی ہی عظیم ترین ہوئی۔ اس میں بھی کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کربلا میں ہونے والا ظلم، بدترین ظلم تھا۔ انبیاء کے ناحق قتل کے واقعات تو تاریخ میں بہت سے ملتے ہیں، لیکن نبی کی اولاد کو یوں بے دردی سے قتل کرنا تاریخ کا اپنی نوعیت کا ایک ہی واقعہ ہے۔ چناں چہ کربلا کا سانحہ بھلائے نہیں بھولتا، وہ عظیم ترین مسافر بھلائے نہیں بھولتے۔ ہر سال دس محرم کو ان کی یاد پھر دنیا بھر میں سفر کرنے لگتی ہے۔ پھر دس محرم ہے اور دنیا بھر میں حضرت حسینؓ سمیت ان ’بہتر‘ کی تیرہ سو ستتر برس بعد پھر یاد منائی جا رہی ہے، اور تجدیدِ عہد کیے جا رہے ہیں۔
یہ تجدید عہد کرنے والے لوگ کون ہیں، اور یہ عہد کیا ہے؟ کچھ لوگ صرف حضرت حسینؓ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں(اور خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں)، اور اس میں مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی شامل ہیں( کافر سے کوئی اپنے یہاں کے مسلک کا مطلب نہ لے، بلکہ کافر سے مراد حقیقی ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ ہیں)۔ لیکن اصل عہد تو ان کا ہے جو حضرت محمدﷺ کی ختمِ نبوت پر ایمان رکھتے ہیں، انہی کا اصل عہد ہے۔ چناں چہ پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے حضرت محمد ﷺ کی ختمِ نبوت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے دس محرم ایک تجدید عہد کا دن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نہ صرف دس بلکہ نو محرم کو بھی اب تجدید عہد کے بجائے ’چھٹی کا دن‘ بنا دیا گیا ہے۔ لوگ ان دنوں میں گھر میں آرام کرتے ہیں اور ٹی وی پر غم و الم میں ڈوبی نشریات دیکھتے ہیں۔ تو کیا تیرہ سو پچانوے کلو میٹر سفر کرنے کا مقصد اور پیغام یہی تھا ؟
صاحب! مقصد کچھ اور تھا جسے ہم سب نے بھلا دیا۔ ظلم ہوتا رہے اور آدمی چپ رہے! بے حیائی ہوتی رہے اور آدمی لطف اندوز ہوتا رہے! شراب و کباب کی محفلیں سجتی رہیں اور آدمی برداشت کرتا رہے! دین اور دینی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا رہے اور آدمی ڈھیٹ بن جائے! مسلمان بھائیوں کا جینا حرام کر دیا جائے اور آدمی آرام کرتا رہے! حقوق پامال ہوتے رہیں اور آدمی زبان بند رکھے! اسلام کے نام پر کفر کا نفاذ ہوتا رہے اور آدمی دل میں بھی برا خیال نہ کرے! ناچ گانا عام ہوتا رہے اور آدمی کے کان پر جوں تک نہ رینگے! اپنے ہمسائے کے لیے اذیت کا سامان ہوتا رہے اور آدمی بھنگڑے اور لڈیاں ڈالے! رشتہ دار کے ساتھ بدسلوکی ہو اور آدمی چین کی نیند سوتا رہے! والدین کی نافرمانی ہوتی رہے اور آدمی خود کو مہذب سمجھتا رہے! بیوی بچوں کی حق تلفی ہوتی رہے اور آدمی خود کو تعلیم یافتہ سمجھتا رہے! اور آدمی اللہ اور رسول کی خاطر تیرہ کلومیٹر بلکہ تیرہ میٹر کا سفر کرنا بھی گوارا نہ کرے تو کس منہ سے خود کو مسلمان کہے؟
افتخار عارف کا شعر ہے کہ
حسینؓ تم نہیں رہے، تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
کیا واقعی اب لوگوں کے دل میں ظالموں کا ڈر نہیں رہا؟ جس کے دل میں ظالم کا ڈر نہیں رہا اسے مبارک ہو! جو دین کی خاطر حضرت حسینؓ کی طرح جان ہتھیلی پر رکھ سکتا ہے، وہ مر کر بھی امر ہو جائے گا۔ اور ہاں، افتخار عارف صاحب سے یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ بظاہر حضرت حسینؓ نہیں رہے، لیکن درحقیقت وہ ’ہیں‘۔ تیرہ سو ستتر برس پہلے ’بہتر‘ نے تیرہ سو پچانوے کلومیٹر کا سفر کر کے دنیا کو یہ بتا، سمجھا اور سکھلا دیا ہے کہ مر کر بھی زندہ رہنے کے لیے کربلا جیسا سفر کرنا پڑتا ہے، یہی تجدیدِ عہد ہے۔ اور جو یہ سفر کر لیتا ہے وہ صدیوں بلکہ زمانوں کا مسافر بن جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب بات کی ہے کہ ’پُتر، کہانی بس اتنی سی ہے کہ ’’یزید تھا، حسینؓ ہے‘۔

Comments

Click here to post a comment