ہوم << ’جماعتی‘ بہناپا، جمعیتی مجاہدین اور یونیورسٹی کے لیلی مجنوں - عمار اقبال

’جماعتی‘ بہناپا، جمعیتی مجاہدین اور یونیورسٹی کے لیلی مجنوں - عمار اقبال

عمار اقبال اگر تحریر پڑھتے ہوئی کسی کو غلطی سے یہ لگنے لگے، کہ کسی کے لکھے ہوئے یہ جملے ’’کسی‘‘ کے رد عمل میں لکھے گئے ہیں تو پہلے ہی جان لیجیے کہ یہ مغالطہ ’’ کسی‘‘ کی غلط فہمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
اولاً یہ کہ ٹھیٹ غیر سیاسی ہونے کے ناطے ہمارا ’’جماعتی مفکرین‘‘ یا ’’جمعیتی مجاہدین‘‘ سے کوئی بالواسطہ نظریاتی تعلق یا بلاواسطہ تحریکی رابطہ بالکل نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ خاکسار نے کچھ ایسی کاہلانہ طبعیت پائی ہے کہ رد عمل تو دور کی بات، کئی کئی بار تو اہم مواقع اور نازک صورتحال پر عمل ہی سےگریز کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کے نتیجے میں خاکسار مصیبتوں کو گلے لگا چکا ہے۔
بہر کیف تذکرہ ان لوگوں کا مقصود ہے جو جامعات میں آتے تو علم کے ہتھیار سے لیس ہو کر فاتح زمانہ بننے کی نیت سے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر کہ جن میں عشوہ، غمزہ اور ادا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ’علم کو فروغ دو‘ کا نعرہ چھوڑ کر ’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘ کا راگ الاپتے ہوئے ’’دلوں‘‘ پر راج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں تودل جیتنے کی ان جنگوں کے سلسلے کے ایک ایک معرکے پر ہزاروں صفحات رقم ہو سکتے ہیں مگر سب سے گھسمان کا رن ناز ک انداموں کے دلوں پر ہلہ بولتے ہوئے پڑتا ہے۔ توپ و تفنگ سے لیس جوانان ملت کاری ضرب لگانے کے چکر میں دن رات کلاسز چھوڑ کر آسے پاسے چکر لگا رہے ہوتے ہیں اور دختران ملت نینیوں سے تیر چلا چلا کر کئی ایک کو بسمل اور ہزاروں کو بےجان کر دینے میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔ یقین کیجیے بسا اوقات تو دیدہ جاناں کے یہ وار اس قدر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں کہ وہ ہونہار طالبعلم کہ جن کی لیاقت کے سبب ان کے پنڈ اور گاؤں میں ان سے امامت کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، تعلیمی سیشن کے اختتام پر ہاسٹل، یعنی اپنے ہی کوچے سے بڑے بے آبرو ہو کر نکلتے ہوئے ٹھندی آہ بھر کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں
چند تصویر بتاں، چند’’ میرے اپنے خطوط‘‘
بجائے ڈگری کہ میرے روم سے یہ سامان نکلا
کوئی بھی صاحب غالب مرحوم کی طرفداری کرنے سے قبل ان کے بارے میں ہماری رائے اچھی طرح سے سن اور سمجھ لیں کہ وہ ایک آزاد مرد تھے، اور اس ناطے ان کے اشعار میں مناسب اور حسب ضرورت بگاڑ پیدا کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حق تعالی ان کی ’’آزادیوں‘‘ اور ہماری من مانیوں، دونوں کی مغفرت فرما دینے پر قادر ہیں۔
بات ہو رہی تھا یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم لیلی کی نسل اور قیس کے قبیل کی۔ اچھے خاصے وضع دار اور عزت دار گھرانے کے لونڈے سارا سارا دن نین مٹکا کرتے پھرنے کو معزز اور ڈیسنٹ ہونے کا سب سے بین ثبوت سمجھتے ہیں اور اچھی خاصی شریف زادیاں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی عملی تصویر بن کر گھومنے کو عین شرافت اور شرم و حیا کی دلیل سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ اور کئی بار تو چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کسی کا دل مفت میں بھی’’ کچھ کام کا نہیں‘‘ کہہ کر قبول نہ کرنے والی پاک دامن بیبیاں کسی اور کے دروازے پر منتوں سے نذرانہ دل پیش کرنے چلی گئیں۔ یہ ایسے کیسز ہیں کہ جن میں دل کو دل سے راہ تو ضرور ہوتی ہے، لیکن صرف ’’ِان‘‘ کے دل کو’’ اُن‘‘ کے دل سے۔ بیچ میں اگر کوئی اور دلِ ناکام اپنی حسرت ناتمام بیان کرنے لگ جائے تو مذکورہ خاتون کے اندر ’’اُن‘‘ کے کیس میں مر جانے والے شرم و حیا کے جرثومے اچانک زندہ ہو جاتے ہیں اور وہ بقول شخصے ’’نستعلیق‘‘ قسم کی گفتگو (علاقے کی نسبت سے پنجابی، سندھی ، پشتو یا کسی اور زبان میں) فرمانے لگ جاتی ہیں۔
دلوں کی اس منڈی کے ان بیوپاریوں میں ایک قسم ان شاطر سوداگرنیوں کی بھی ہے جو ناپسندیدہ سودا بھی خریدنے سے واضح انکار نہیں کرتیں، بلکہ پسندیدہ سودا نہ ملنے کی صورت میں اسی پر اکتفا کرنے کی دور اندیشی کا ارادہ رکھنے کی وجہ سے مناسب وقت اور موقع آنے تک غریب تاجر کو ’’اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی‘‘ کی مسلسل تلقین کے ذریعے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتی ہیں۔ اس دوران اِن منتظرین اور اُن خواتین کے تعلقات کس نوعیت کے ہوتے ہیں وہ ڈیفائنڈ نہیں ہیں۔ بس’’ کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہار ا‘‘ کی ورد میں انتظار کے لمحے ختم ہوتے ہیں اور آخر میں مجنون ِ منتظر کو فرقت کا اذن دے کر ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے یا شرف قبولیت کی نوید سنا کر ہمیشہ کے لیے اپنا لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مندر جہ بالا گفتگو کسی ایک خاتون کی کردار کشی کی کوشش نہیں بلکہ اس قبیل کی تمام تر شیریں صفت خواتین کے طریقہ ہائے واردات پر کیا جانے والا مفصل تبصرہ ہے۔
اب گفتگو کا رخ ذرا شرافت اور شائستگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ’’حضرات‘‘ کی طرف موڑ دیں تو ان کی اکثریت دل اور آنکھ دونوں سے کچی ہوتی ہے۔ ان کا صرف یہ عزم مصمم اور یہ ارادہ پختہ ہوتا ہے کہ کہیں سے کام چل جائے، کسی سے کام چل جائے۔ ان درویش صفت لوگوں کی اکثریت ’’تو من شدی من تو شدم‘‘ کا ورد، سیاق و سباق سے انتہائی غیر متعلق تناظر میں محض اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے کرتی نظر آتی ہے۔ یونیورسٹی لائف میں جن جن حسینائوں کے زلف کے یہ اسیر رہے، اور خصوصاً وہ جنہوں نے ان کا صیاد بننے کی پیشکش قبول کی ہوتی ہے، ان کا تعارف بہت عرصہ بعد کسی فنکشن میں ملاقات ہو جانے پر اپنی زوجہ محترمہ سے زمانہ طالب علمی کے ’دوست‘ کی حیثیت سے کراتے ہوئے یہ حضرات مسلسل زیر لب جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیگم کی توجہ دوستی کی نوعیت کی طرف مرکوز نہ ہونے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ یقین مانیے درج بالا سطور میں ایک حرف بھی طنزیہ یا کسی پر چوٹ کرنے کے غرض سے نہیں لکھا گیا۔ مقصود تحریر محض یہ تھا کہ
کسی کی پارسائی کے فسانے ہم سے سن لیتے
اگر قصہ ہی سننا تھا زمانے ہم سے سن لیتے
المختصر یہ کہ، عفت مآب خواتین و وضع دار حضرات کے باہمی تعاون سے پروان چڑھنے والا ’’پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر‘‘ کا سلسلہ نہ صرف یونیورسٹی کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ اس کا رجحان روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے سد باب کی اشد ضرورت ہے۔ نہیں تو جامعات میں قائم ہونے والی غلط روایات کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ بھی رفتہ رفتہ اپنی اقدار اور اطوار سے دور ہوتا چلا جائے گا۔
ویسے جماعتیوں پر صنف نازک کی طرف ملتفت ہونے کا دعوی کرنے والوں کی جگتیں سن کر مجھے اپنے ایک جماعتی دوست کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شرافت کے نتیجے میں پھوٹنے والا ایک شگوفہ یاد آ رہا ہے۔ دوستوں کی محفل جمی تھی اور ہر ایک پر اس کی کسی نہ کسی حرکت کے حوالے سے کمرہ جماعت کی کسی نہ کسی خاتون کی طرف مائل ہونے کا الزام بڑے شد ومد سے لگ رہا تھا۔ لیکن ان جماعتی بھائی پر کہ جو چار سال تک کلاس کی حسین سے حسین اور مدقوق سے مدقوق قسم کی خاتون کو ایک ہی ترازو، یعنی ’’بہناپے‘‘ کے پیمانے پر ناپنے کے عادی رہے، کوئی کسی قسم کا مشکوک دعوی نہ کر سکا تو ان کو چھیڑنے کی یہ سبیل ٹھہری کہ یار حضرات نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ شادی کب کرنی ہے، کس سے کرنی ہے، اور کیسے کرنی ہے۔ شرماتے لجاتے ناظم صاحب، ازلی شرافت کے مارے یہ کہہ بیٹھے کہ ،’’جی بس! گھر والوں نے دو تین بہنوں کے گھر میں بات چلائی ہوئی ہے، دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‘‘
اس جواب کے کچھ لمحے بعد موصوف مذکورہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، مگر تب تک محفل زعفران زار بن چکی تھی۔ اب اس مزاج کے لوگوں پر وصی شاہ کی بازاری شاعری کا سندیسہ بھیجنے کا الزام لگا دیا جائے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

Comments

Click here to post a comment