ہوم << شیدا سیکرٹ سروس - ریحان اصغر سید

شیدا سیکرٹ سروس - ریحان اصغر سید

ریحان اصغر سید میں اور شیدا پہلوان دودھ دہی کی اُس دوکان کے سامنے چنگ چی رکشے سے اترے جس کی بالائی منزل کے سامنے ہماری جاسوس کمپنی "شیدا سیکرٹ سروس" کا ہیڈ آفس تھا۔ جس کے باہر لگے بورڈ پر نمایاں اور واضح لفظوں میں رقم تھا کہ ہماری کوئی دوسری شاخ یا برانچ نہیں۔ ملتے جھلتے ناموں سے دھوکہ نہ کھائیے۔ ہمارا ادارہ ہر قسم کی جاسوسی خدمات کے علاوہ جادو ٹونے کی کاٹ، پلٹ ، کا ماہر ہے، نیز محبوب کو آپ کے قدموں میں لانا اور شوہر کوراہ راست دیکھانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس کے علاوہ ہم ہر قسم کے تعویذ گنڈے کے بھی ماہر تسلیم کیے جاتے؎
ہیں۔ بے اولاد حضرت کے علاوہ ہر قسم کے زنانہ اور مردانہ پوشیدہ امراض کا شافعی و تسلی بخش علاج بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لکی کمیٹی، انعامی سکیم، پرائز بانڈ، غیر ملکی کرنسی سمیت ہر قسم کی خفیہ معلومات کے لیے تشریف لائیے۔
چوبیس گھنٹے سروس،
آفس ٹائم دن آٹھ سے شام چھ بجے۔
صدر و چیف ایگزیکٹیو پیر و مرشد حضرت گجراتی بابا المعروف پیزے برگر والی سچی سرکار۔
اسٹنٹ ڈائریکٹر، اکاوئنٹنٹ، ڈائریکٹر ایچ آر شیدا جِن۔
اب ایسا نہیں تھا کہ ہم روزانہ چنگ چی پر ہی آفس آتے تھے۔ ہمارے پاس ایک پرانی لیکن دھانسو قسم کی سپورٹس بائیک تھی، جسے میں اس اتوار ایک جوئے کی محفل میں ہار گیا تھا۔ چونکہ وقت خراب ہے اور شریف لوگوں کا باہر نکلنا بھی دوبھر ہوگیا ہے اس لیے ہم سب ہم پیالہ و نوالہ پینے پلانے کا بندوبست کر کے کسی ایک دوست کے ہاں سرشام ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تاش کی بازی بھی لگ جاتی ہے۔ اس دفعہ میں کچھ زیادہ ہی پی گیا۔ مزید ستم یہ کہ شیدے نے اپنے دو بھرے ہوئے سیگریٹ بھی مجھے پلا دیئے تو میرے دماغ کی رہی سہی بتی بھی گل ہو گئ۔ پہلے میں اپنے سارے پیسے ہارا، پھر شیدا جو کہ میری پشت پر بیٹھا مجھے پنکھی سے ہوا دے رہا تھا اور گاہے بہ گاہے مجھے سیگریٹ کے کش لگوانے کے علاوہ بازی سے متعلق مفید مشورے دینے میں مشغول تھا، اس کی ساری جیبوں کی تلاشی کے بعد ملنے والے دو سو روپے بھی ہار گیا۔
اس کے بعد غم غلط کرنے کے لیے میں نے گلاس سر پر رکھا۔ بوتل ہاتھ میں پکڑ کر لہک لہک کے ماتمی گیت گانے شروع کیے۔
دیوہیکل شیدا فرط غم سے فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اپنے منہ سے ویسا بیک گراونڈ میوزک دینے کی کوشش کر رہا تھا جیسا آجکل نعت خوانوں کے پیچھے کھڑے دیہاڑی دار منہ سے گھٹر غوں، گھٹر غوں جیسی آوازیں برآمد کرتا ہے۔ شیدے کا دوسرا ساز اس کا پہاڑ جیسا پیٹ تھا۔ جسے وہ بنیان اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے بجانے میں مصروف تھا۔ میرے جگری دوستوں نے کچھ دیر میری مجذوبانہ حرکات پر درد دل کے ساتھ غور کیا اور باہمی مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا کفران نعمت کے مترادف ہو گا اور مزید یہ کہ گھوڑے گھاس سے دوستی نبھائیں تو کھائیں کیا؟
اس لیے انھوں نے مجھے گھیر کر دوبارہ چٹائی پر بیٹھایا اور سمجھایا کہ اب کی بازی بڑی ہونی چائیے تاکہ میرے پچھلے نقصان کا ازالہ بھی ہو سکے۔ بڑی بازی سے میرا دھیان شیدے کی طرف چلا گیا۔ جب میرے پاس ہارنے کو کچھ نہ بچتا تھا تو میں شیدے کو بازی پر لگا دیتا تھا۔ پہلے پہل شیدا پانچ ہزار والی بازی کے کام آتا تھا، لیکن عالمی کساد بازاری کے دور رس اثرات کی وجہ سے شیدے کی مارکیٹ ویلیو بھی ڈاون ہوتی چلی گئ جس کی وجہ سے اب شیدے کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار والی بازی پر لگایا جا سکتا تھا۔ اگر میں بازی ہار جاتا تو شیدا تب تک میرے دوستوں کے زیر استعمال رہتا جب تک میں مطلوبہ رقم ادا کر کے شیدے کو بازیاب نہ کروا لیتا۔ تب تک شیدا میرے دوستوں کی گاڑیاں موٹر سائیکل دھونے، گھروں کا سامان ڈھونے، بچوں کو کھیلانے ، انھیں سکول چھوڑنے اور واپس لانے کے کام آتا۔
بڑی بازی کا سن کر شیدے کے تارکول جیسے رنگ پر مزید سیاہی چھا گئ۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے رحم کی اپیل کی۔ اس سے پہلے کہ میں رحم کی اپیل مسترد کرتا، میرے دوست ارشد ماکڑی نے تصیح کی۔
او نہیں یار ! بڑٰی بازی سے ہماری مراد موٹر بائیک کی بازی ہے۔ پھر ارشد ماکڑی نے میری جیت جانے کی صورت میں ہونے والے متوقع مالی فوائد کے ساتھ ساتھ میری اور شیدے کی زندگی میں آنے والی خوشگوار تبدیلیوں پر تفصیلی بریفنگ دی تو میں پرجوش ہو کر راضی ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔۔
بات ہو رہی تھی آفس پہنچنے کی۔ میں اور شیدا سیڑھیاں چڑھ کر آفس کے لکڑی کے خستہ دروازے کے سامنے پہنچے جس پر کافی پنکچر لگے ہوئے تھے۔ باہر ایک زنگ آلودہ تالا ٹنگا تھا۔ یہ تالہ ہماری عملی زندگی شروع کرنے کی نشانی تھا۔ ہم جو بھی نیا کام شروع کرتے اس کے آفس کے باہر یہی تالا استعمال کرتے۔ شیدا بیک وقت چابی، سکریو ڈرائیور اور ہتھوڑے سے تالا کھولنے کی معمول کی کاروائی میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ اس کے منہ سے تالے کے خاندانی پس منظر، عادت و خصائل اور ان کی مستورات کی بے راہروی کے بارے میں انکشافات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ آخر کار تالہ کھل گیا۔ شیدے نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے فخریہ انداز میں مجھے دیکھا۔
میں نے شیدے کے کاندھے پر شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کر، آج کوئی گاہک قابو آیا تو سب سے پہلے تجھے نیا تالا لے کر دوں گا۔ پھر ہم دونوں اپنے کبوتر خانے جیسے آفس میں داخل ہوئے۔ جہاں ایک طرف انسانی ڈھانچہ پڑا تھا۔ جو بنا تو پورسلین کا تھا مگر شیدے کی کاریگری کے بعد بلکل اصلی لگتا تھا۔ میز پر ایک کھوپڑی اور کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھی۔ چھت پر رنگ برنگی لائیٹس لگی تھی جن کی روشنی سے کمرے کا منظر کافی ڈراونا بن جاتا تھا۔
پیچھے الماریاں میں دوائوں کی شیشیاں پڑی تھی جن میں ہم نے رنگ دار پانی بھرا ہوا تھا۔
کبوتر خانے کے پیچھے ایک اور ڈربہ نما کمرہ تھا جس میں ہم نے خفیہ ساونڈ سسٹم فِٹ کر رکھا تھا۔ روحوں اور موکلوں سے ملنے کے شوقین افراد سے شیدا اسی کمرے میں بیٹھ کر ہم کلام ہوتا۔ شیدے کے جن بھوت والے مختلف کاسٹیوم بھی ادھر ہی پڑے تھے۔ میں نے فون کی آنسرنگ مشین آن کی۔ آج کل کیبل پر ہمارا اشتہار چل رہا تھا جسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہمارئ پاس ہے۔مسئلہ کشمیر کے علاوہ ہم سارے مسئلے حل کرنے پر قادر ہیں۔ یورپ، آسٹریلیا، امریکہ کا ہر ویزا ہماری اجازت سے مشروط ہے۔ بندے کو تعویذ سے مارنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہمارے مشورے کے بغیر کوئی بھی کاروبار شروع کرنا، یا زمین و مکان کی خرید و فروخت نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
جب سے ہم نے جادوئی کلپ کا ایڈ دیا تھا اس کے جادوئی اثرات نظر آ رہے تھے۔ ماٹھا پڑتا کاروبار چمک اٹھا تھا۔ ہر وقت فون کالز اور گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ابھی بھی آنسرنگ مشین پر رات کو آنے والی کالز کے پیغامات موجود تھے۔ پہلی ریکارڈنگ کسی موٹے سیٹھ کی تھی جو کافی موٹی آسامی لگ رہا تھا۔ وہ اپنے سے بھی موٹی بیوی کو ہماری ہر دلعزیز پروڈکٹ کالا کوبرا تعویذ سے مروا کر کسی کم عمر چھوکری سے شادی کرنے کی فکر میں تھا۔ میں نے جواباً میسج ریکارڈ کروا دیا کہ کالا کوبرا تعویذ صرف افریقی ملک یوگینڈا کے ایک کالے مندر میں چاند کی چودھویں رات میں اُس کالے بکرے کے خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے جو پیدائشی بھینگا اور لنگڑا ہو۔ ٹکٹ اور آنے جانے کا کل خرچہ ملا کر دس لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جس میں سے آدھا ایڈوانس وصول کیا جائے گا۔ کام شرطیہ پورا ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔ اپنی بیوی کی تازہ تصویر اور مبلغ پانچ لاکھ روپے آفس پہنچا دیں تاکہ کاروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے۔
دوسرا پیغام کسی کالج کی لڑکی کا تھا جو اپنے محبوب کو اپنے قدموں میں دیکھنا چاہتی تھی۔ چونکہ بیچاری کے پاس صرف دو سونے کی بالیاں ہی تھی۔ اس لیے غریب پروری کرتے ہوئے اسے بھی بالیاں اور محبوب صاحب کی جمیع تفصیل کورئیر کرنے کی ہدایت کر دی گئی ۔پھر ایک ساسو ماں کا میسج تھا جسے عین الیقین تھا کہ اس کی بہو اس پر کالا جادو کرتی ہے۔ وہ اس کی کاٹ اور پلٹ کروانا چاہتی تھی۔
میری اور شیدے کی آنکھیں ایک نوجوان کا میسج سن کر چمکیں جس کا باپ امریکہ میں تھا۔ وہ جادو کے زور پر خود کو کالج میں ٹاپ اور رقیب کو فیل کروانا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے ایسے مشکل کام کے لیے موکل ایسی کالی گائے کا خون مانگتے ہیں جس نے ساری عمر پاکدامنی میں گزارنے کے علاوہ صرف ایسے کھارے کنویں کا پانی پیا ہو جیسے کسی لنگڑے مستری نے کھودا ہو ..اور ایسی گائیں صرف کینیا میں ہی پائی جاتی ہیں۔ گائے کی خون کی بلی لینے کے بعد موکل دو ماہ تک کھلے سمندر میں چلہ کرتے ہیں پھر کہیں جا کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ ساری تفصیلات بتا دی گئیں۔ امید تھی لڑکا قابو آجائے گا اور پھر ہم دو چار دن میں ہی نئ موٹر بائیک لینے کے قابل ہو جائیں گے۔
تھوڑی دیر گزری تو ایک سیاہ فام بونی سی عورت آفس کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتی نظر آئی۔ جو مجھے شکل سے ہی سکہ بند جادوگرنی لگ رہی تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ ہم سے کالے جادو کے نئے جنتر منتر سیکھنے آئی ہو۔ اس کی سانپ جیسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور پیلے دانت کافی ڈروانے لگ رہے تھے۔ پہلے اس نے آنکھیں گھما گھما کر آفس، شیدے اور میرا بغور معائنہ کیا۔
جی محترمہ ! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی۔ میں نے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا
مجھے اپنے شوہر کی جاسوسی کے لیے آپ کی خدمات کی ضرورت ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وہ کسی دوسری عورت کے چکر میں ہے۔ بونی عورت نے چھت کی لائیٹوں کا حیرت سے مشاہدہ کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
جی ہم ہر طرح کی جاسوسی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا آپ کے شوہر کے بارے میں جان کر۔ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ پتہ نہیں آج کل کے شوہروں کو کیا ہو گیا ہے جو آپ جیسی حسین و جمیل اور گریس فل خاتون کو چھوڑ کر کسی اور عورت کے چکر میں ہے۔ یقیناً وہ اندھے ہوں گے۔ میں نے پورے یقین سے کہا کیونکہ اس چڑیل نما عورت سے کوئی اندھا ہی شادی کر سکتا تھا۔
بونی عورت نے میری بات سنی ان سنی کر دی وہ اس وقت ٹیبل پر پڑے فون کو اٹھا کر حیرت سے الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی تھی۔ لگتا تھا اس نے یہ سب چیزیں زندگی میں پہلی بار دیکھی ہیں۔
میں نے کھنکار کر بونی عورت کو متوجہ کیا تو وہ چونکی۔
آپ لوگوں کی فیس کتنی ہے؟
فیس کی بات سے ہماری منہ میں ایسے پانی بھر آتا تھا جیسے اکثر لوگوں کے پیزے اور بریانی کے نام سے۔ میں نے لیپ ٹاپ کے کئ بورڈ پر بے مقصد انگلیاں بجائیں۔ کیلکولیٹر پر دو تین دفعہ ۷۸۶ کو ۷۸۶ سے ضرب دے کر ۳۰۲ کو نفی کر کے ۴۲۰ کو جمع کیا اور گھمبیر لہجے میں کہا کہ اس طرح کے کاموں میں ایجنٹوں کو بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ سبجیکٹ کی نگرانی کے لیے فیول و دیگر اخراجات بے پناہ ہو جاتے ہیں۔ آپ وقتی طور پر پچاس ہزار روپے جمع کروا دیں پھر باقی حساب کتاب بعد میں کر لیں گے، گھر والی ہی بات ہے۔ اپنا اور اپنے خاوند کا پتہ و دوسری تفصیلات اس کاغذ پر لکھ دیں۔
پچاس ہزار کا سن کر وہ بونی عورت اس طرح اچھلی جس طرح کسی غریب کا پانچ ہزار بل آ جائے تو وہ اچھلتا ہے۔ ہاتھ نچا کر بولی
آئے ہائے ! اتنے سے کام کے اتنے زیادہ پیسے؟
تم لوگوں نے تو بہت زیادہ لوٹ مار مچا رکھی ہے اور فیول کا خرچہ کاہے کا؟
کیا تمہارے جِن اور موکل پیٹرول پر چلتے ہیں؟
تم لوگ تو اپنے ایڈ میں کہتے ہو کہ ہر کام کے لیے تمہارے پاس جِنّوں اور موکلوں کی علیحدہ علیحدہ تجربہ کار ٹیمیں ہیں۔ ریٹ لسٹ کہاں ہیں تمہاری۔ مجھے دیہاتی سمجھ رکھا ہے کیا؟ اس دنیا میں نئ آئی ہوں تو کیا ہوا۔ میں بھی ٹیڑک پاس ہوں۔ صیح ریٹ بتاو ورنہ ملاوں نمبر کنزیمور کورٹ کا۔
خاتون کے تیور خطرناک لگ رہے تھے۔ میں گال اور شیدا سر کھجاتے ہوئے ڈانٹ سن رہے تھے۔
دیکھیں محترمہ ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس جِنّوں اور موکلوں کا اتنا بڑا جتھا ہے کہ ان کی اکاموڈیشن کے لیے ہم نے گلبرگ میں دو کنال کی کوٹھی لے رکھی ہے۔ آج کل عمرے کا سیزن ہے اس لیے مسلمان جِن اور موکل اس وقت حرم شریف میں طواف میں مصروف ہوں گے۔ دو جن یوگنڈا میں ایک مشن پر مصروف ہیں جبکہ ایک سری لنکا اور ایک بنگال میں ہے۔ کچھ جِن سالانہ چھٹیوں پر اپنے وطن کوہ قاف گئے ہوئے ہیں۔ فی الحال میرے پاس یہی ایک جن ہے لیکن یہ میرا ذاتی خادم ہے۔ میں نے شیدے کی طرف اشارہ کیا،
اور
ہم کونسا ریڑھی لگا کر آم فروخت کر رہے ہیں جو آپ ہم سے ریٹ لسٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور میٹرک تو سنا تھا یہ ٹیڑک کونسی ڈگری ہے ؟
یہ جن ہے؟؟
خاتون نے حیرت سے شیدے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جو عجیب و غریب ڈراونی شکلیں بنا کر جِن نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حالانکہ سوا چھ فٹ قد، اڑھائی سو پاونڈ وزن اور تارکول جیسی رنگت کی وجہ سے وہ بغیر کوشش کے بھی جن نظر آتا تھا۔
اب بونی عورت شیدے سے کسی غیر مانوس جناتی زبان میں باتیں کر رہی تھی۔ انداز استفسارنا تھا۔ ایسی زبان جو میں نے بھی کبھی نہیں سنی تھی تو بھلا شیدا اس کا کیا جواب دیتا۔ بس آنکھیں نکال نکال کر جن ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا۔
یہ جن نہیں ہے !
خاتون نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ مجھے پتہ چل گیا ہے تم لوگ فراڈ ہو۔
اچھا ! وہ کیسے ؟
شیدے نے مذاق اڑایا۔
اس لیے کہ میں خود ایک چڑیل ہوں۔ اگر تم جن ہوتے تو تمھیں جِنّوں کی زبان سے ضرور آگاہی ہوتی۔ دوسرا تمیں میرے یہاں آتے ہی پتہ چل جاتا کہ میں کوئی انسان نہیں ہوں۔
شیدے کی پیشانی پر پسینہ چمکا اور مجھے اپنی ٹانگیں گیلی گیلی سی ہوتی محسوس ہوئیں۔ مجھے ابتدا سے ہی اس عورت کے انداز و اطوار بہت عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس کی شکل ہی بڑی غیر انسانی تھی۔ اتنے میں ایک دھماکے کی سی آواز آئی۔ شیدا خوف کی شدت سے بے ہوش ہو کر گر گیا تھا یا بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اب جو کچھ کرنا تھا مجھے اکیلے ہی کرنا تھا۔ اگر شیدا بے ہوش نہ ہوتا تو شاید اہم بھاگنے کا سوچتے۔
عورت نما چڑیل اب لیپ ٹاپ کو اپنی طرف کھینچ کر اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھنے میں مگن تھی۔ اس کی اسکرین میں نظر آنے والے اپنے چہرے کو عجیب عجیب سے پوز بنا کر دیکھ رہی تھی۔
دیکھیں محترمہ ! میں نے ہکلاتے ہوئے بات کا آغاز کیا
جن اور انسان بھائی بھائی ہیں اور اس طرح آپ میری بہن لگتی ہیں۔ انسان تو ہے ہی خطا کر پتلا۔ ہم سے کوئی غلطی کوتاہی ہو گئ ہو تو ہمیں چھوٹا سمجھ کر معاف کر دیں۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے اور پلیز اس کو چھوڑ دیں۔ یہ دنیا کی قیمتی اور نازک اشیاء میں شمار ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ٹوٹ جائے۔ ابھی تو اس کی آدھی اقساط بھی بقایا ہیں۔
چڑیل کے چہرے پر کچھ نرمی کے تاثرات نمودار ہوئے ۔ اس نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر میری طرف کھسکا دیا اور عجیب فلسفانہ لہجے میں بولی
میرا تو انسانوں سے وشواس ہی اٹھ گیا ہے۔ تم عجیب مخلوق ہو۔ ہر وقت اپنی ہی نسل کو دھوکہ دینے میں مشغول رہتے ہو۔ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارا نام استعمال کر کے ہمیں بھی بدنام کرتے ہو۔ پہلے ہم جِنوں میں یہ دھوکہ دینے والی برائی نہیں پائی جاتی تھی۔ پر جب سے کوہ قاف میں جنگ عظیم چہارم چھڑی ہے تب سے کوہ قاف کے معاشی حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ کوہ قاف کے جنات اس دنیا میں کام کے لیے آتے ہیں تو واپسی پر دھوکہ دینے والی برائی ساتھ لے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے بہت سارے رشتہ دار جن اس دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہمارے بہت سارے جن ہجرت کر کے اس دنیا میں آ رہے ہیں۔ تمہاری دنیا کے جنات کی طرح ہمیں چوری چکاری اور ہڈ حرامی کی عادت نیں بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے ہیں۔
میں بھی اپنے بچوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل اور پرورش کے لیے کچھ دن پہلے ہی اس دنیا میں آئی ہوں۔ میرے بچے ابھی کوہ قاف میں ہی ہیں۔ سوچا تھا یہاں کوئی جاب لگ جائے تو انھیں بھی بلوا لوں گی۔ میں نے اخبار میں تمہارے اشتہار میں دیکھا کہ بہت سارے جن تمہارے پاس ملازم ہیں تو سوچا کہ شاید مجھے بھی نوکری مل جائے اور اپنے سرزمین کی مخلوق کے ساتھ میرا دل بھی لگ جائے گا۔ اسی لیے میں یہاں پر آئی تھی۔ شوہر والی بات تو میں نے تمہارا امتحان لینے کے لیے کی تھی مگر افسوس۔۔۔۔
کوہ قاف سے آتے وقت میں جو کیش لائی تھی اور جِنوں کی کرنسی ایکسچینج سے تمہاری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کروائی تھی، وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ چڑیل عورت دھیمی آواز میں بولتی رہی جبکہ میں حیرت سے سن رہا تھا۔
بات ختم کر کے وہ بڑے دل گرفتہ انداز میں اٹھی اور اپنا بیگ تھام کر جانے کے لیے پر تولتی نظر آئی۔
فرش پر بے ہوش شیدا جھٹ سے اٹھا اور بولا
تم نہ جاو چڑیل باجی۔ ہم تمیں جاب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پھر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا میری طرف آیا اور میز کے نیچے سے میرے گھٹنے تلاش کر کے انھیں پکڑ کر بولا
مرشد !
ان کو کام پر رکھ لیں۔ سوچو اگر ہمارے پاس سچ مچ میں ایک جن عورت ہو گی تو ہمیں کام نمٹانے میں کتنی آسانی ہو گی۔ یہ جن غائب ہو کر کسی بھی جگہ ایک لمحے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ ہماری دھوم مچ جائے گی۔ ہم منہ مانگی فیس لیا کریں گے۔
اگر ہم آپ کو بطور جن اپائنٹ کریں تو آپ کی کیا ڈیمانڈ ہو گی اور آپ کی رہائش و کھانے پینے کی ترکیب کیا ہو گی؟
میں نے چڑیل کی طرف متوجہ ہو کر کہا جو پر امید نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
رہائش کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں یہیں رہ لوں گی۔ ویسے بھی ہم اپنی ضرورت کے مطابق بہت چھوٹے یا بڑے ہو جانے پر قادر ہیں۔ میں تو چھوٹی سی ہو کر ماچس کی ڈبیا میں بھی سو سکتی ہوں۔ کیا میں آپ لوگوں کو چھوٹی ہو کر دکھاوں؟؟
نہیں نہیں !
اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اور شیدا بیک زبان ہو کر بولے۔
چلو تمہاری مرضی۔ چڑیل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ اور کھانے کا بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابھی میں ایک میرج ہال کے پیچھے موجود کچرے سے دو من چکن کھا کر آئی ہوں جو میرے دو مہینے کے لے کافی ہو گا۔ میں تو حیران ہوں کہ تمہاری اس دنیا میں ہم جِنوں کے لیے کس قدر رزق بکھرا پڑا ہے۔
چلو یہ سب تو ٹھیک ہو گیا۔ اب پیسے کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ میں ابھی آپ سے کوئی وعدہ تو نہیں کرتا لیکن ہر کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ آپ کو دیا کروں گا۔ یوں سمجھ لیں ہماری پارٹنر شپ ہے لیکن ہر مشن آپ کو اپنی خاص صلاحتیوں کی بدولت ہی پورا کرنا ہو گا۔ اگر آپ کو یہ شرطیں منظور ہیں تو شیدا سیکرٹ سروس میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں نے تو دو ٹوک انداز میں کہا تو وہ چڑیل حسب توقع فوراً راضی ہو گئ۔
وہ اپنی نوکری لگ جانے پر بہت خوش لگ رہی تھی پتہ نہیں بیچاری اس دنیا میں کہاں کہاں دھکے کھاتی رہی تھی ۔ہم نے اسے کسٹمر ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھایا اور اسے آفس میں چھوڑ کر خود لنچ کے لیے بریانی کھانے حکیم بریانی ہاوس پہنچ گے۔
شیدا بہت پرجوش ہو رہا تھا۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ اب ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ بریانی کھا کر واپس آنے تک میں اور شیدا اپنی اپنی پسندیدہ گاڑیوں کے ریٹ اور پوش ایریاز میں کوٹھیوں کی قیمت او۔ایل۔ایکس پر چیک کر چکے تھے۔
اپنے آفس کی بوسیدہ سیڑھیاں چڑھ کر جب ہم اوپر کبوتر خانے میں واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ آفس کا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا اور وہ چڑیل لیپ ٹاپ، آفس کے موبائل فون لینڈ لائن سیٹ ڈھانچے سمیت ہر چیز لے کر غائب ہو گئ تھی۔ میز کے دراز کھلی حالت میں تھے۔ ایک دراز کے خانے میں موجود دو لاکھ کی جعلی کرنسی جو ہم نے ایک لاکھ میں خریدی تھی وہ بھی غائب تھی۔ اس کے علاوہ بھی کوئی قابل ذکر چیز موجود نہ تھی۔ وہ نوسر باز چڑیل نما عورت ہمیں الو بنا کر نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔
ایسے موقعوں پر شیدے کی تخلیقی صلاحتیں پوری طرح بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتا ہے کہ سنتے جاو اور سردھنتے جاو۔ وہ نان اسٹاپ گالیاں دیتے ہوئے ہر چیز کو چیک کرتا اور پھر اسے موجود نہ پا کر نئے جذبے سے گالیاں دینا شروع کر دیتا۔ جبکہ میں دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے کھڑکی سے نیچے گلی میں دیکھتے ہوئے یہ سوچنے میں مصروف تھا، کہ دنیا میں انسانیت ہی ختم ہو گئ ہے نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ شیدا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
یار ایک بات تو ماننی پڑے گی۔ وہ چڑیل نہ سہی پھر بھی اس کے پاس شائد کالا علم تو تھا کیونکہ جب ہم بریانی کھانے باہر جا رہے تھے تو وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ میری جِنّوں والی حس بتا رہی ہے کہ تم لوگوں کا کوئی بڑا نقصان ہونے والا ہے۔

Comments

Click here to post a comment