ہوم << کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک - ادریس آزاد

کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک - ادریس آزاد

ادریس آزاد فطرت کا یہ بھی ایک عجیب کرشمہ ہے کہ ’’عمل‘‘ کبھی فلسفے کا موضوع نہیں بن سکا اور نہ ہی بن سکتاہے۔ کہنے کو تو تصوف، مذہب، کلام یہ سب فلسفے کے موضوعات بن سکتے ہیں اور اِن سب کا معاملہ صرف عمل کے ساتھ ہے چنانچہ بالواسطہ عمل بھی فلسفے کا موضوع بن سکتاہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فلسفے نے بلاشبہ تصوف، مذہب اور کلام پر خوب خوب حکم لگائے ہیں اور تاریخی نوعیت کے حکم لگائے ہیں لیکن فلسفے کی تمام تر توجہ، مکرر عرض ہے کہ فلسفے کی تمام تر توجہ ہمیشہ صرف مذہب کے اُن پہلوؤں پر رہتی ہے جن کا تعلق عقائد کے ساتھ ہے۔ تصوف میں فلسفے کا یہی طرز ِ عمل ہے۔ یہ تو بڑی غیر درست نگاہ ہے۔ عقائد یا عقائد کے نظام پر نگاہ رکھتے ہوئے مذہب کے بارے میں حکم لگانا ایک طفلانہ حرکت ہے۔ مذہب کے عقائد تو بھانت بھانت کی فضولیات سے بھرے ہوئے ہوتےہیں اور بالکل ایسے ہی تصوف کے عقائد میں ایسی غضب کی لایعنیت ہوتی ہے کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر لایعنیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بات صرف مذہب اور تصوف کے عقائد کو پرکھنے اور اُن پر فلسفیانہ حکم لگانے کی ہے تو فلسفے کا یہ طرز ِ عمل قطعاً منطقی نہیں ہے۔ کیونکہ مذہب اور تصوف کو خود اپنے عقائد کے نظام سے فقط عمل پر قابو پانے کی حد تک دلچسپی ہے۔ کوئی بھی مذہب اپنے عقائد میں تبدیلی کرسکتاہے اگر آخرالامر اس کے مطلوبہ اعمال مقصود و منتہا ہوں۔
فلسفیانہ تفکر میں عمل کا جائزہ لینا کیونکر ممکن ہے۔ بلاشبہ استقرائی فلسفہ بالفاظ دگر دور حاضر کی سائنس اور اس میں خصوصا علم ’’الانسان‘‘ (اینتھرروپولوجی) ایک ایسی کوشش ہے جو انسانی عمل کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے معرض ِ وجود میں آئی ہے۔ یہ بھی فلسفے کی ہی ایک شاخ ہے بشرطیکہ فلسفہ اسے بطور اپنی شاخ کے قبول کرے۔ اسے ہرلحاظ سے سائنس کی ہی ایک شاخ سمجھا جاتاہے۔ نیچرل اور سوشل سائنسز کے درمیان کا کوئی مقام۔
فلسفہ کے بعض طلبہ کہہ سکتے ہیں کہ سقراط سے لے کر مارکس اور پھر دور ِ حاضر کے مشترکہ فلسفیانہ فہم تک ہرکہیں، خیر، اخلاقیات، حسن عمل، صداقت، عدل۔ یہ سب فلسفہ کے ہی تو موضوعات رہے ہیں۔ کیا یہ سب ’’عمل‘‘ کی باتیں نہیں؟
نہیں ایسا نہیں۔ میرا مدعا وہ نفسیاتی پراسیس ہے جو حسن ِ عمل کے تسلسل اور تواتر سے ایک انسان کو کم تر سے برتر انسان بناتاہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس کمی کو محسوس کیا اور غالباً کہیں فرائیڈ کے کام کو سراہنے کے بعد کہا کہ نفسیات بھی ابھی تک عمل کے معروضی نتائج تک محدود ہے اور اس لیے نفسیات کو نئے طریقوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ نفس کے ان مسائل پر بھی تفکر کرسکے جو تجربی سائنس کی حدود سے باہر ہیں۔
عمل سے کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اگر ’’صلہ رحمی‘‘ کا عمل بار بار دہرایا جائے تو کس قسم کے فلسفیانہ نتائج تک پہنچا جاسکتاہے؟ اگر دوسروں کی مدد کرنے کو بطور شعار اختیار کرلیا جائے تو سائنٹفک طور پر کچھ سال بعد انسان میں کیا کیا تبدیلیاں رُونما ہوچکی ہونگی؟ اگر دیانت داری کو مستقل طور پر اختیار کرلیا جائے تو کیا آدمی جسمانی طور پر وہی آدمی رہتاہے یا اُن لوگوں سے مختلف ہوجاتاہے جو دیانت دار نہیں؟ اگر پڑوسی کا سالہاسال تک خیال رکھا جائے تو وہ کون سے قضیات اور استنتاجات ہیں جو منطق ہمیں بہم پہنچاتی ہے؟
غرض مذہب اور تصوف کا بنیادی مقصد یعنی ’’عمل‘‘ فلسفہ میں کبھی حقیقی موضوع نہیں رہا۔ فلسفہ ہمیشہ عقلییّن کے در کا غلام رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فلسفیانہ موضوعات کا تعین ہے۔ یعنی فلسفہ نے اگر کبھی ’’رُوح‘‘ کو موضوع بنایا تو ایک عقیدہ کی بنا پر۔ اس نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ اگر ایک صالح عمل مسلسل اور متواتر جاری رہے تو جو تبدیلی کسی انسان میں واقع ہوسکتی ہے غالباً اس کا کوئی تعلق رُوح کے ساتھ ہوسکتاہے۔ اگر ہوسکتاہے تو کیسے؟ اگر نہیں ہوسکتا تو ان اعمال کے نتائج ہمیشہ ’’مطلق‘‘ کیوں رہتے ہیں؟
یہ عقلیت پسندوں کی اجارہ داری ہی تھی جس نے بالآخر فلسفہ کو ایک متروک علم بنا کر دُور جرمن اور اسی طرح کے چند غیرنمایاں ملکوں کے کونوں کھدروں میں پھینک دیا۔ یہ عقلیت پسندوں کی اجارہ داری ہی تھی جس کی وجہ سے سائنس کو دنیائے علم میں کھلی چُھوٹ مل گئی اور سائنس نے فلسفہ کے حصے کا کام بھی اپنا کام سمجھ کر مذہب اور تصوف پر حکم لگانے شروع کردیے۔ حالانکہ سائنس عقلیت پسندوں کے برعکس دراصل تجربیت پسند فلسفیوں کی ہی ایک شاخ تھی جو اپنی ظاہری قوت کی بنا پر دنیائے علم پر راج کرنے لگی اور فلسفہ کی رُوح یعنی عقلیت و تجربیت دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے حقیقت تک رسائی کی فلسفہ کی اپنی سی کوشش کو فراموش کردیا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دراصل فلسفہ کو عقلیت اور تجربیت یا آئیڈیلزم اور میٹریلزم یا استخراجیوں اور استقرائیوں یا ’’اے پری آرینز‘‘ اور ’’اے پوسٹیری آرینز‘‘ کی جنگ نے دولخت کرکے جنگل کے بَیلوں والے انجام تک پہنچایا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عقل کے ذریعے استخراج کے عمل سے گزر کر حاصل ہونے والا علم جو عقلیت پسندوں کی محبوب ترین غذا ہے ’’جسم‘‘ میں مقیم ایک عضویہ یعنی دماغ کی کارستانی ہے۔ دماغ اپنی حدود کی وجہ سے عقل کو بھی اپنی حدود عبور نہیں کرنے دیتا۔ عقل اپنی حدود میں رہتی ہے اور مشہود ہوتی ہوئی کائنات سے مزید استخراجات کے ذریعے اپنی تازہ بہ تازہ غذا کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ اس سب کارروائی میں ایک انسان کے اُن اعمال کی کیا حیثیت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کو بدل کر اس کے نتائج سے پورے معاشرے کے تاریک یا روشن مستقل کو متعین کرتے ہیں؟ کیا اُن اعمال کو ہمیشہ سے عقل سے رہنمائی لینا ہوگی؟ یہ تو پیراڈاکس ہوجائے گا۔ انسانی وجود فقط عقل کا نام تو نہیں۔ انسان تو سراپا عمل ہے۔ آخر علم کا مقصود کیا ہے؟ آخری سچائی کا حصول؟ تو پھر یہ مقصد پورا ہونا کیسے ممکن ہے اگر آخری سچائی کی نوعیت اور ماہیت کو ہم اپنی عقل کے ذریعے پہلے سے مقرر(طَے) کیے بیٹھے ہوں؟ اگر آخری سچائی ویسی ہونی چاہیے جیسی ہمیں ہماری عقل نے بتائی ہے کہ ہونی چاہیے تب تو بات درست ہے۔ لیکن آخری سچائی تک اکیلی عقل کبھی پہنچ ہی نہیں پائے گی کیونکہ عقل اپنی حدود کی قیدی ہے۔ اس کی حدود وسعت پذیر ضرور ہیں لیکن زمان میں رہتے ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ علوم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور آخری سچائی تک پہنچنے کے مواقع بظاہر زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتے چلے جائینگے۔ لیکن اس تک رسائی عقل کے لیے ناممکن ہی رہے گی۔
یہ عمل اور فقط عمل ہے جو انسان کو ایسی عظمت دلا سکتاہے کہ وہ عقل کی حدود کو توڑ کر عالم ِحیوانی کی اس شکل یعنی بشریت سے باہر نکل جائے۔ یہ عمل ہی ہے جو فرد کو نہیں معاشروں کو پہلے آسمان سے نکال کر دوسرے اور دوسرے آسمان سے نکال کر تیسرے آسمان تک لے جاتاہے و علی ھذالقیاس۔ چنانچہ یہ عمل ہے جو بالآخر عقل کو بھی اس قابل بنا سکتاہے کہ وہ فکر کی احسن اور اکمل ترین شکل اختیار کرلے اور منطقی فہم کو مادی منطقوں سے نکال دے۔ یہ عمل ہی ہے جو خود عقل کو زندگی بخشتا، اس میں مزید رُوح بھرتا اور اسکی مناسب ترین رہنمائی کرتا ہے۔
اب اگر یہ عمل ہی ہے جو ہمیشہ عقل کی رہنمائی کرتاہےنہ کہ عقل جو عمل کی رہنمائی کرے تو پھر ہمیں ہرقیمت پر عمل کو اوّلیت اور عقل کو ثانوی درجہ دینا ہوگا۔ یہ بات اس وقت شاندار صورت اختیار کرلیتی ہے جب ہمیں معلوم پڑتاہے کہ عقل کے سُوتے تو عمل سے پھُوٹ سکتے ہیں لیکن خود عمل کے سُوتے عقل سے نہیں پھوٹتے بلکہ ایک ایسے شخص کا عمل بھی اُتنا ہی مؤثر ہے جو عقل سے یکسر محروم ہو، جتنا کہ کسی ایسے شخص کا جو میدان ِ عقل کا پہلوان ہو۔ یہاں سوال پیدا ہوجاتاہے تو پھر عمل کی رہنمائی کون کرتاہے؟
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل ِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ِ ادراک
یہاں جنوں شاعرانہ اصطلاح ہے۔ مراد وہی ہے یعنی دِل۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عقلیین بری طرح بگڑ جاتے ہیں۔ یہ دل کیا ہوتاہے؟ ایسی چیزوں کی فلسفہ میں کوئی جگہ نہیں۔ دوستو! اگر ایسی چیزوں کی فلسفہ میں کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ فلسفہ کی کمزوری ہے کیونکہ ایسی چیزوں کے نتائج نے ایک دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے اور فلسفہ کو فوراً پہلے اپنے ہاں اِن پر غوروفکر کرنے کے لیے جگہ بنانا چاہیے۔ لیکن فلسفہ کو ایک بات کا دھیان رہے کہ عقل کے حدود کے تعین اور حقیقت کے بارے میں عقل کے متعین کردہ اصولوں سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا۔ ایسا سوچنا شاید عام طرح کا سوچنا نہیں ہوسکتا۔ ایسا سوچنا ، سوچنے کے عام عمل سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ اسے ہم محسوس کرنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ محسوس کرنے کا لفظ بولتے ہی عقلیت پسند اسے حیوانی شعور سے جوڑ کر فکر کی بالکل ابتدائی شکل کہہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ فکر کی بالکل انتہائی شکل ہے۔

Comments

Click here to post a comment