ہوم << تھری ڈی کی دنیا محض ہماری مینٹل فیکلٹی ہے - ادریس آزاد

تھری ڈی کی دنیا محض ہماری مینٹل فیکلٹی ہے - ادریس آزاد

ادریس آزاد مادہ ہمیں کیسے نظر آتاہے؟ ہمارے حواس مادے کے ساتھ انٹرایکشن کی صورت میں ہمارے دماغ کو جو معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سے ہمارا دماغ اپنی سمجھ کے لیے مختلف تصورات ترتیب دے لیتاہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی چیز جس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اُس کی شبیہہ ہمارے پردۂ چشم (Retina) پر ہمیشہ اُلٹی بنتی ہے۔ لیکن ہمارا دماغ اُسے ہمیشہ سیدھا کرکے ہی دیکھتاہے۔ آنکھ اور کمیرہ بالکل ایک جیسے طریقےپر کام کرتے ہیں۔ کیمرہ ہمیشہ ٹو ڈائمینشنل امیج پروڈیوس کرتاہے۔تصویر ہمیشہ کاغذ یا کارڈ پر بنتی ہے یعنی ایکس وائی پر۔ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ تصویر کے دو ایکسز، ایکس ایکسز اور وائی ایکسز ہوتےہیں۔ تھری ڈی کا مجسمہ بنانے والے کیمرے ابھی ایجاد نہیں ہوئے۔ جس طرح کیمرہ ہمیشہ ٹوڈی کا امیج پروڈیوس کرتاہے بعینہ اسی اصول کے تحت آنکھ کا کیمرہ بھی ہمیشہ ٹو ڈائمینشل امیجز پروڈیوس کرتاہے۔ لیکن ہم بیرونی کائنات کو ٹوڈائمینشنل تصویر نہیں گردانتے۔ ہم بیرونی کائنات کے ہرمنظر کو تھری ڈائمنشنل منظر ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ایکس ایکسز اور وائی ایکسز کے علاوہ ایک اور ایکسز، یعنی زیڈ ایکسز کہاں سے آجاتاہے۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ہماری سب سے اہم حس، حس ِ باصرہ نے ہمیں بیرونی کائنات کے بارے میں جو اطلاع فراہم کی تھی وہ قطعی طور پر ٹو ڈائمینشل تصویر تھی۔ تو پھر یہ اضافی ایکسز کیسے ہمارے ذہن کا حصہ ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ ہم کیوں جانتے ہیں کہ ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے فرد اور ہمارے درمیان تین چار فٹ کا فاصلہ ہے جبکہ وہ فرد محض ایک تصویر ہے اور تصویر ایکس ایکسز اور وائی ایکسز پر بنا ہوا امیج ہوتی ہے۔
یہ ہمارے ذہن کی ویسی ہی فیکلٹی ہے جیسی دس کا ہندسہ ہمارے ذہن کی فیکلٹی ہے۔ ہم اعشاری نظام سے ہٹ کر کسی اور نظام کو فطری طور پر اپنانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ جب بھی ہم کسی اور نظام کے تحت اعداد اور رقوم کو سمجھنے کی کوشش کرینگے ہمیں مشین کا سہارا لینا پڑیگا۔ ہمارے دماغ میں فکس ہے اعشاری نظام۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ اس نے چارسو ستر روپے خرچ کیے ہیں تو وہ دراصل آپ کو یہ بتارہا ہے کہ دس کے دس دس مجموعے چار تھے اور دس کا ایک مجموعہ تین کم دس یعنی سات تھا۔ اب مناسب ترین جواب یہ ہے کہ ہماری انگلیاں دس ہیں اس لیے ہم نے ارتقائی مراحل کے دوران ہی جب ہزاروں سال تک ان انگلیوں کا آبجیکٹس کی گنتی کے لیے استعمال کیا تو وقت کے ساتھ ساتھ اعشاری نظام (دس کا نظام) ہمارے ذہن کی ایک پختہ ترین فیکلٹی بن گیا۔ ایسی ہی پختہ فیکلٹی زیڈ ایکسز کا الّیوژن ہے۔
یعنی اگر بیرونی کائنات حقیقت میں بھی کوئی ٹوڈائیمنشنل تصویر ہوئی تو بعید نہیں۔ یہ تو ہمارے ذہن کی فیکلٹی ہے جس نے ہمیں تھری ڈائمنشنل تصویر دکھا رکھی ہے۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہماری ناک اور چہرہ تھوڑا سا آگے کو نکلا ہوا ہوتاہے۔ کیونکہ ہم اپنے ہاتھ سے اپنی ناک اور چہرے کو متعدد بار چھوچکے ہوتے ہیں۔ ہم سامنے میز پر پڑی ہوئی چیز کو آگے ہاتھ بڑھا کر اُٹھاتے ہیں۔ ہم گویا تصویر میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جو ہمارے دماغ نے ہمیں دکھا رکھی ہے۔

Comments

Click here to post a comment