بھارت کی سوا ارب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباﹰ صرف چودہ فیصد ہے لیکن ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنے والا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔
یہ انکشاف بھارت میں 2011ء میں کی جانے والی مردم شماری کی رپورٹ کی بنیاد پر تیارکردہ اعداد و شمار میں ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر 72.89 کروڑ افراد ایسے ہیں جو بے روزگار ہیں یا کام نہیں کرتے، ان میں سے 3.7 لاکھ بھیک مانگ کر اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ ان بھکاریوں میں سے مسلمانوں کی تعداد 92,760 ہے، جو بھیک مانگنے والوں کی مجموعی تعداد کا تقریبا ﹰپچیس فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندو، بھارت کی آبادی کا 79.8 فیصد ہیں لیکن ان میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد 2.68 لاکھ ہے۔ واضح رہے کہ ہندووں کی مردم شماری میں قبائلیوں اورانتہائی پسماندہ ذات کے دلتوں نیز دیگر کئی ایسے فرقوں کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے جو خود کو ہندو قرار نہیں دیتے۔ عیسائی جن کا تناسب مجموعی آبادی میں 2.3 فیصد ہے ا ن میں بھیک مانگنے والوں کی شرح 0.88 فیصد، بدھ مت کے ماننے والوں میں 0.52 فیصد، سکھوں میں 0.45 فیصد، جین دھرم کے ماننے والوں میں 0.06 فیصد اور دیگر فرقے کے بھیک مانگنے والوں کی شرح 0.30 فیصد ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں مردوں کے مقابلے میں بھیک مانگنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے، جو بقیہ تمام فرقوں میں پائے جانے والے رجحان سے یکسر مختلف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر بھیک مانگنے والے مردوں کا قومی اوسط 53.13 فیصد اور خواتین کا 46.87 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ تناسب مردوں میں 43.61 فیصد اور خواتین میں 56.38 فیصد ہے۔
یوں تو بھارت میں بھیک مانگنا غیر قانونی ہے اور اس جرم کے لیے تین سے دس سال تک کی سزا ہے تاہم حقوق انسانی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ قانون کافی مبہم ہے اور اس میں بھیک مانگنے والوں اور بے گھر اور بے زمین مزدوروں میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے اور اپنی روزی روٹی کے لیے گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں میں نقل مکانی کرنے والوں کو بھی بھیک مانگنے والوں کے زمرے میں ہی رکھ دیا گیا ہے۔ مذکورہ قانون کے مطابق کنگال دکھائی دینے اورعوامی مقامات پر آوارہ پھرنے والے کسی شخص کو پولیس بھکاری قرار دے کر گرفتار کرسکتی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو گا بجاکر، رقص کر کے، قسمت کا حال بتا کر یا کرتب دکھاکرلوگوں سے بخشش مانگتے ہیں۔ حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون بھیک مانگنے والوں کی آباد کاری کے بجائے انہیں مجرم بنانے میں زیادہ مدد گار ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سابقہ متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں 2005ء میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے دلت فرقے سے بھی بدتر ہے۔ سچر کمیٹی نے اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بعض سفارشات بھی کی تھیں۔ ان سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے کنڈو کمیٹی بنائی گئی تھی۔ کمیٹی کے سربراہ ماہر اقتصادیات پروفیسر امیتابھ کنڈوکا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی اور سماجی صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب پچھلے دس برسوں میں پانچ فیصد سے بڑھ کر 8.5 فیصد تو ہوگیا ہے تاہم یہ ان کی آبادی کے تناسب سے اب بھی کافی کم ہے۔
سرکاری ادارہ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن نے 2013ء میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اعلٰی تعلیم میں قومی شرح 23.6 فیصد ہے جب کہ مسلمانوں میں یہ شرح 13.8فیصد ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی شرح خواندگی سب سے کم 81 فیصد ہے جب کہ ہندوو ں میں یہ شرح 91 فیصد، سکھوں میں 84 فیصد اور عیسائیوں میں سب سے زیادہ یعنی 94 فیصد ہے۔
تبصرہ لکھیے