جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو زیادہ تر مذہبی اور عقیدت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور انھیں مسلمانوں کے ایک خاص فرقے کا راہنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان کی شخصیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انھیں مذہب اور ملت کے بجائے انسانی حوالے سے دیکھا جائے۔ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موازنہ دنیا کے کامیاب ترین حکمرانوں اور فاتحین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، سکندر اعظم، ہنی پال، حمورابی، اشوک اعظم، چنگیز خاں، حتی کہ ہارون رشید، سلیمان عالی شان، اکبراعظم، عالمگیر اور تیمور جیسے مسلمان فاتحین یا یورپ کے دور جدید اور دور قدیم کے فاتحین اور حکمرانوں سے حضرت عمرفاروق کی فتوحات اور طرز حکومت کا موازنہ کیا جائے تو ان کی فتوحات اور طرز حکمرانی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ مدینہ جیسے دور دراز علاقے سے میدان جنگ میں موجود اپنے سپہ سالار کو کنٹرول کرنا اور معمولی الزام پر انسانی تاریخ کے ایک بڑے فطین فاتح کو برطرف کرنا اور جنگ قادسیہ جیسی غیر معمولی جنگ میں ایک عام سے سپہ سالار سے دنیا کی آزمودہ کار فوج کو شکست فاش دینا کوئی معمولی کام نہیں۔ جناب عمر کی فراست ہی تھی جس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچایا اور کسی الہامی دعوے کے بغیر دنیا کو حکمرانی کا ایک عظیم نمونہ فراہم کیا۔
آج بھی بچوں کو دودھ پلانے کے دوران ماں کا ماہانہ مقرر کرنا، سلطنت میں بیماروں کے علاج، معذوروں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال جیسے قوانین کے لیے ان کو حوالہ دیا جاتا ہے۔ بیت المقدس کی بغیر کسی خون ریزی کے فتح ان کا ایک عدیم المثال کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ میں لاتعداد حکمرانوں کے باوجود آج بھی مسلمان جس حکمران کو ایک مثالی حکمران خیال کرتے ہیں وہ حضرت عمر فاروق ہیں، اور سچی بات یہی ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے ایک عظیم مدبر اور راہنما ہیں جن سے ہر مذہب اور ہر قوم فائدہ اٹھاتی رہی ہے اور اٹھاتی رہے گی، آپ صرف ایک مسلمان راہنما نہیں بلکہ تاریخ انسانی کی ایک مشترکہ میراث کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کو فوج میں تقسیم کرنے کے بجائے وقف قرار دیا اور ان زمینوں کو ان کے اصل باشندوں کے پاس رہنے دیا گیا، ان زمینوں کی آمدنی پر خراج عائد کیا گیا تاکہ اس کی آمدنی بیت المال میں جمع ہو جس سے حکومت کے اخراجات، حکومتی ملازمین کی تنخواہیں اور ویگر رفاعی کام کیے جاسکیں۔
حضرت عمر فاروق نے مسلمانوں میں تقویمی سال کا بھی آغاز کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے حکومت کے معاملات میں اپنے خاندان کے کسی شخص کو شامل نہیں کیا۔ نہ ہی اپنے کسی دوست یا عزیز کو اپنے ذاتی تعلق یا نسبت سے فائدہ اٹھانے دیا۔ انھوں نے قبائلی عصیبتوں پر بھی پوری نگرانی رکھی اور کسی قبیلے کو اپنی عصبیت کی بنا پر کوئی خصوصی حق نہیں لینے دیا۔
خلیفہ دوم مشورے کے بہت قائل تھے، ان کی خاص بات قابلیت کو عزت دینا تھی، ان کی مجلس مشاورت میں جہاں تجربہ کار لوگ تھے وہاں عبداللہ بن عباس جیسے نوعمر کو بھی ان کی قابلیت کی وجہ سے خصوصی مقام دیا گیا۔ انھوں نے کوشش کی کہ ہر ضروری کام ساتھیوں کی مشاورت سے ہو.
پولیس اور ڈاک جیسے محکموں سے مؤثر کام لینے پر بھی انسانی تاریخ میں انھیں بڑا مقام دیا جاتا ہے، انھوں نے ان سول محکموں کی اہمیت کو سب سے پہلے سمجھا تھا۔ ریاست کے نظم و نسق میں قابلیت کو اہمیت دی چنانچہ زیاد کا واقعہ بہت اہم ہے کہ پندرہ سال کے اس لڑکے کو بغیر کسی پس منظر کے حساب کتاب کی اہم ذمہ داری دی گئی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں اپنی رعایا میں کبھی مذہبی امتیاز نہیں کیا۔ ان کے فلاحی اور رفاعی کاموں اور وظیفوں کے نظام سے مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، مسیحیوں اور پارسیوں کو بھی فائدہ پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ فوج سمیت کئی شعبوں میں مسلمان کے علاوہ لوگوں کو بھی ملازمتیں دی گئیں۔ ان کے دور کی فتوحات کی انسانی تاریخ میں ایک خاص اہمیت ہے، اس دور میں شہریوں کی قتل و غار ت سے گریز کیا گیا۔ غیر مسلح لوگوں کو امان دیا گیا۔ ان کے دور کی اہم خصوصیت جواب دہی کا مؤثر نظام تھا۔ کسی بھی علاقے کے مضبوط سے مضبوط گورنر کو کسی بھی غلطی پر جواب دینا پڑتا تھا۔ کسی کی غیر ذمہ داری برداشت نہیں کی گئی اور اس سلسلے میں اس کی قبائلی فضلیت یا مذہبی مقام کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ خود جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی گمنام اور عام شہری، مرد یا عورت سرعام مواخذہ کر سکتے تھے اور انھوں نے ہر سوال کا پوری تفصیل، ثبوت سے جواب دیا۔ کبھی سوال پوچھنے والے کی حیثیث چیلنج نہیں کی یا اپنی خدمات کا حوالہ نہیں دیا۔
سیدنا عمر فاروق کے دور میں سینئر صحابہ موجود تھے مگر آپ نے کسی بھی ایسے شخص کو حدیث کی روایت سے روک دیا جو اس کی دوسری شہادت فراہم نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں آپ نے حضرت ابو موسی اشعری جیسے جید صحابی کی بھی سرعام بازپرس کی۔ انھیں انسانوں کی پرکھ میں خاص ملکہ حاصل تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش کے باوجود مروان بن حکم کو مدینے میں رہنے کی اجازت نہیں دی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبل از وقت شہادت نے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ انھوں نے کسی معین شخصیت کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔ ان کے متوقع جانشین اور قریبی ساتھی جناب عبیداللہ بن جراح طاعون کی بیماری میں وفات پاگئے۔ یہ جناب عمر فاروق کے لیے زندگی کا سب سے بڑا دھچکا تھا۔ آپ نے لوگوں کے اصرار اور مطلوبہ اہلیت کے باوجود اپنے بیٹے جناب عبداللہ بن عمر کو اس لیے جانشین نامزد نہیں کیا کہ اس سے موروثیت کے سلسلے کی ابتدا ہوتی۔ اپنی زندگی میں ہی یہ خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ بنو امیہ یا بنو ہاشم کی کسی شخصیت کی خلافت کی صورت میں قبائلی تنازعات کے ابھرنے کا اندیشہ ہے مگر اس کا کوئی موثر تدارک نہ ہو سکا۔ جناب صہیب رومی کی معاملہ فہمی کے آپ قائل تھے مگر ان کی تمام صلاحیتوں کے قائل ہونے کے باوجود ان کا نام متوقع جانشینوں میں نہ رکھا جا سکا کہ لوگوں کے لیے کسی غیر عرب کو خلیفہ ماننا ممکن نہیں تھا اور شاید اس سے نئے فتنے کا دروازہ کھل جاتا۔ ان کی شہادت پر سب سے بڑا تبصرہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کیا، کہ یہی وہ ہستی تھی جو ایک دیوار کی طرح فتنوں کے آگے حائل تھی، ان کے رخصت ہوتے ہی فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نام آج بھی نسل انسانی کے لیے ایک مشعل راہ ہے، ان کے اقدام اور ان کی تدابیر سے اللہ، رسول اور نیک ارواح تو ضرور راضی ہوں گی، مگر انسانی تاریخ بھی اس ہستی پر فخر کرتی ہے جو کہ انسانی تاریخ کے ایک عظیم مدبر اور راہنما تھی.
تبصرہ لکھیے